سبزار احمد بٹ
سلیم تمہیں یاد ہے شادی سے پہلے تم نے مجھ سے کیا کیا وعدے کئے تھے۔ مجھے کیسے سپنے دکھائے تھے میرے لئے چاند تارے توڑنے کی باتیں کی تھی آپ نے اور آج دیکھئے ہم کس جھونپڑی میں رہ رہے ہیں ۔ سچ ہی کہا ہے کسی نے شادی اور الیکشن سے پہلے کئے گئے وعدوں پر ہزگز بھروسہ نہیں کرنا چاہئے ۔ مہک زور زور سے چِلا رہی تھی اور سلیم ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بڑی خاموشی سے ہاتھ میں قلم کاغذ لے کر نہ جانے کیا حساب کر رہا تھا ۔
تم کہاں میری باتوں کا جواب دو گے ۔ ساری زمین جائیداد تو تم نے بیچ ہی دی ہے۔ اب بھی کچھ بچا ہے جسے بیچنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں آپ۔؟؟؟
مہک تم نے ہلہ کیوں مچا رکھا ہے۔ جب پتہ چلے گا کہ میں آپ کے لئے کیا کرنے جارہا ہوں تو تم خوشی سے پاگل ہوجاؤ گی۔ اور یہ جو لوگ آج ہمیں طعنے دیتے ہیں کل یہی لوگ ہم پر رشک کریں گے۔
لیکن سلیم خدا کے لئے مجھے اتنا بتاؤ کی اتنی ساری پراپرٹی بیچ کر تم نے ان پیسوں کا کیا کیا؟ نہیں مہک مجھے یہ راز بتانے کے لئے مجبور مت کرو ۔ ورنہ سارے کئے کراے پر پانی پھیر جائے گا۔
سلیم دراصل ایک امیر باپ کا بیٹا تھا۔ جس نے اپنی پسند کی شادی کی تھی اور شادی کے بعد چند سالوں تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا۔ لیکن اچانک سلیم اپنی ایک ایک چیز بیچنے لگا۔ شہر کے مین چوک میں پندرہ دکانیں تھیں۔ سب کی سب بیچ ڈالیں۔ بیس کنال زمین بر لبِ سڑک تھے وہ بھی بیچ ڈالے۔ اپنی گاڑی یہاں تک کہ اپنا مکان بھی بیچ ڈالا۔ سلیم کے اس فیصلے سے اس کے والدین کے ساتھ ساتھ سبھی رشتہ دار ناخوش تھے اور وہ جاننا چاہتے تھے کہ سلیم ان پیسوں کا کیا کر رہا ہے ۔لیکن سلیم نے یہ راز کسی کو نہیں بتایا ۔ وہ بس ایک ایک چیز بیچتا رہا ۔ اور اب ایک ٹینٹ میں رہنے لگا۔ سلیم کو اپنے کئے پر ذرہ بھر بھی افسوس نہیں تھا۔ وہ بار بار اپنی بیوی مہک سے بڑے تپاک سے کہہ رہا تھا۔
“مہک تم دیکھنا ایک دن ایسا دھماکہ ہوگا اور ہماری خوشیوں کی خوشبو دور دور تک بکھر جائے گی۔ پھر دیکھنا ان حاسد لوگوں کی آنکھیں کیسے پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی”۔
میاں بیوی ٹینٹ میں بیٹھے ابھی باتیں کر ہی رہے تھی کہ جے ای افتخار ہاتھ میں اخبار لئے اندر آیا۔
السلام عليكم سلیم بھائی ۔
وعلیکم السلام جے ای صاحب آگئے آپ۔
آپ بلائیں اور میں نہ آؤں، بھلا ایسا کبھی ہوسکتا ہے۔ بھلے ہی تمہارے اپنے رشتہ دار بھی تم سے ناراض ہوں ۔ لیکن مجھے آپ پر بھروسہ ہے کہ آپ کچھ ایسا کرنے والے ہیں جس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔
واہ بھئی واہ میرے دل کی بات کہہ ڈالی۔
مہک کمرے سے نکلنے ہی والی تھی کہ سلیم نے روک لیا ۔ تم بھی یہیں پر بیٹھو پھر کہتی ہو مجھ سے مشورہ ہی نہیں کرتے ہو۔
جے ای صاحب میں نے آپ کو اس لئے بلایا۔ دراصل مجھے ایک نقشہ چاہئے ۔ مکان بنانے کے لئے ۔
جی کہیے کتنی زمین ہے اور کہاں پر مکان بنانا ہے۔
جے ۔ ای نے جیب سے قلم کاغذ نکالتے ہوئے کہا۔
جے ۔ ای صاحب یہ تو نہیں بتا سکتا کہ مکان کہاں بنانا ہے ہاں مگر اٹھارہ مرلے کی زمین ہے۔ اور بالکل ہموار زمین ہے۔
جی ٹھیک ہے۔ جے ۔ای صاحب نے نقشہ بنانا شروع کیا اور دونوں میاں بیوی دیکھتے رہے۔ جے ای صاحب ایک سوئیمنگ پول ( swimming pool) بھی رکھ دیجئے گا اور ایک بڑی کھڑکی جس سے میں پوری دنیا کا نظارہ کر سکوں۔ اور ہاں آنگن کے بیچوں بیچ ایک نہر ۔۔ مگر پانی تو۔۔۔۔۔ خیر چھوڑ دیجئے ۔
بیگم تم کیوں خاموش ہو تم بھی کچھ کہو ۔ پھر کہتی ہو کہ ہمیں کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے۔
ہاں ہاں میں بھی بتا دیتی اگر ایک بار مجھے پتہ چلتا کہ کہاں خریدی ہے آپ نے زمین ۔
ٹھیک ہے اب تم ضد ہی کرتی ہو تو سُن لو۔ لیکن یہ بات تمہارے میرے اور جے ۔ ای صاحب کے بیچ ہی رہنی چاہئے ۔ جے ۔ ای اور مہک نے اثبات میں سر ہلایا اور بڑی توجہ سے سلیم کی باتیں سننے لگے۔
سلیم نے سگریٹ سلگایا اور گویا ہوئے ۔
مہک تمہیں یاد ہے کہ میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمہارے لئے چاند تارے توڑ لاؤں گا۔ اب میں چاند تارے نہیں لارہا ہوں بلکہ تمہیں چاند پر لے جانے کی سوچ رہا ہوں
کیا مطلب؟؟؟
مطلب صاف ہے کہ میں نے اپنی تمام پراپرٹی بیچ کر چاند پر اٹھارہ مرلہ زمین لی ہے۔ اور میں نے چاند پر مکان بنانے کی مکمّل تیاری بھی کر لی ہے اسی لئے میں نے جے ای صاحب کو یہاں بلایا ہے۔ تاکہ ایک اچھا سا نقشہ تیار ہو اور ہم ایک خوبصورت سا محل تعمیر کریں ۔کیا پتہ وہاں کوئی ڈھنگ کا جے۔ ای مل بھی جائے گا یا نہیں ۔
پھر ہم چاند سے پوری دنیا کا نظارہ کریں گے اور ان زمین والوں پر ہنسیں گے جو آج تک ہم پر ہنس رہے تھے۔ یہ سن کر جے. ای کے منہ سے بے ساختہ او مائے گارڑ کا جملہ نکلا اور ہاتھ سے قلم گر گیا۔
کیوں جے۔ ای صاحب آپ بھی خوش نہیں ہوئے میرے اس فیصلے پر۔
جناب آپ تو پوری طرح سے لُٹ گئے۔ خوشی کس بات کی۔
کیوں کیا بکواس کرتے ہو۔
بکواس میں نہیں یہ اخبار کرتا ہے جناب۔ یہ لیجئے اور پڑھئے۔ اس اخبار میں چاند پر زمین لینے والوں کے بارے میں کیا چھپا ہے۔
سلیم نے سگریٹ ایک طرف پھینکا اور اخبار پڑھنے لگا۔ اخبار کی سُرخی پڑھتے ہی سلیم کو لگا کہ جیسے کوئی زور دار دھماکہ ہوا اور اس کے خوابوں کا محل تنکوں کی طرح بکھر گیا ۔ایسا لگا جیسے سلیم کو چاند کی بلندی سے نیچے پھینک دیا گیا ہو۔ اتنے میں سلیم کی آنکھ کھلی اور وہ چاند چاند چاند چِلانے لگا۔ سلیم کے ماتھے سے پسینے کی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔ چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا تھا کمرے میں سوئے ہوئے بچے اور بیوی مہک بھی نیند سے جاگ گئی اور سلیم کو سنبھالنے لگے۔ کیا ہوا سلیم ، کیا بات ہے کوئی ڈراوانہ سپناہ دیکھا آپ نے۔ ابو ابو کیا ہوا ؟؟؟؟
کچھ نہیں سو جاؤ۔ میں کل شام کو ایک انٹریو دیکھ رہا تھا۔ اسی لئے یہ بھیانک سپناہ آگیا ۔
���
اویل نورآباد، کولگام، موبائل نمبر؛70067384436