سرینگر // اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ ریاست میں پیش آنے والے گیسوتراشی کے64واقعات میںسے پولیس نے ابھی تک صرف چار کیسوں میں بالوں کے نمونوں کو ضبط کرکے تحقیق کیلئے فارنیسک لیبارٹری بھیجا ہے جنکی تحقیقات ابھی تک نا مکمل ہے۔ اس دوران انسپکٹر جنرل پولیسنے کہا ہے کہ اب تک کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ گیسو تراشی کے کچھ واقعات میں ملوث افراد ذہنی طور بیمار تھے جبکہ چند کیسوں میں ملوث افراد پیار محبت کے چکر میں تھے۔ تاہم انکا کہنا تھا کہ باقی معاملات میں متاثرین کے چہرے سے نمونے لینے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔فارنسیک سائنس لیبارٹری سرینگر میں موجود ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ سب سے پہلے جموں میں رونما ہونے والے بال تراشی کے 4 واقعات میں جمع کئے گئے بالوں کے نمونوں کو تحقیقات کیلئے سرینگربھیجا گیا تھا تاہم چاروں کیسوں میں جمع کئے گئے بالوں سے کوئی بھی مضرصحت شے موجود نہیں تھی اور اس طرح یہ بات صاف ہوگئی کہ بال تراشی میں ملوث افراد قینچی(Scissor) پر کسی قسم کا کیمیائی مادہ استعمال نہیں کرتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ بالوں کے کیمیائی مادوں کی تیز آبیاں (PH value) ہمیشہ ہی غیر جانبدار (Neutral) ہوتیں ہیں تاہم جونہی کوئی شخص بالوں پر کسی بھی قسم کا کیمیائی مادہ استعمال کرتا ہے، چاہئے وہ پانی ہی کیوں نہ ہو تو بالوں کی تیز آبیاں تبدیل ہوجاتیں ہیں اور یہ امیلی(Acidic)بن جاتیں ہیں،جو مضر صحت بنتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ابتک صرف 4واقعات کی تحقیقات کیلئے بالوں کو فارنسیک سائنس لیبارٹری بھیجا گیا تھا تاہم ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گیسو تراشی کے کئی واقعات میں ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے فی الحال تحقیقات بند کردی گئی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ کشمیر میں رونما ہونے والے گیسو تراشی کے 60کیسوں میں سے کسی کے بھی نمونے فارنیسک سائنس لیبارٹری کو نہیں بھیجے گئے ہیں کیونکہ پولیس کیلئے متاثرین سے نمونے حاصل کرنا مشکل بن گیا ہے اور بیشتر متاثرین پولیس کو نمونے دینے سے انکار کررہے ہیں۔آئی جی پی کشمیر منیر احمد خان نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کئی واقعات میں ثبوت نہیںملے اور متاثرین کی طرف سے سامنے نہ آنے کی وجہ سے تحقیقات میں ابھی کوئی بھی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ منیر احمد خان نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا ’’ کشمیر میں گیسو تراشی کے 60واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں کچھ کی تحقیقات مکمل ہوئی ہے جبکہ کچھ کی تحقیقات ابھی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ کیسوں میں تحقیقات رکی پڑی ہے کیونکہ متاثرین پولیس کے ساتھ تعاون نہیں کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن واقعات میں تحقیقات مکمل ہوئی ہے ان میں سے چند کیسوں میں ملوثین کو ذہنی بیماریوں کا شکار پایا گیا جیسا پہلگام میں پیش آنے والے بال تراشی کے واقعے میں گھرمیں کام کرنے والی نوکرانی نے اعتراف کیا کہ وہ ذہنی بیماریوں کی شکار ہے جبکہ چند واقعات میں پیار محبت کا چکر سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اس معاملے کو حل کرنے کی انتھک کوشش کررہی ہے اور اسلئے ہم نے پولیس کو ہدایت دی ہے کہ چند متاثرین کے چہروں سے نمونے حاصل کئے جائیں کیونکہ کئی متاثرین کا کہنا ہے کہ گیسوتراشی میں ملوث افراد خواتین کو بے ہوش کرنے کیلئے کسی سپرے (Spray)کا استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ پولیس کسی بھی سماج دشمن کو گیسو تراشی کا فائدہ اٹھاکر بے گناہوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دے گی، اسلئے پولیس نے ایسے افراد کے خلاف کیس درج کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کسی بے گناہ کو تشدد کا نشانہ بنائیں گے۔