اجودھیا// ملک کے اہم مقدموں میں شمار اجودھیا کے متنازعہ بابری مسجد اراضی کے مقدمہ کی سماعت سپریم کورٹ میں 11 اگست سے شروع کئے جانے کے اعلان سے اس سے وابستہ فریقوں کے ساتھ ہی عام لوگ بھی فیصلہ جلد آنے کی توقع کر رہے ہیں۔ اجودھیا کے مندر /مسجد تنازعہ سے اب تک اربوں روپئے کا مالی نقصان ہونے کے ساتھ ہی کئی جانیں بھی جا چکی ہیں۔ گجرات کا گودھرا معاملہ اور وہاں کے فساد کی اصل وجہ بھی یہی تنازعہ تھا۔ ملک و بیرون ملک کی توجہ اکثر اپنی جانب کھینچنے والے اس مسئلہ کی وجہ سے وقت فوقتاً لوک سبھا، راجیہ سبھا، اسمبلی اور قانون ساز کونسل کی کارروائی میں رخنہ پڑا۔ تنازعہ سے وابستہ فریق نرموہی اکھاڑہ کے وکیل رنجیت لال ورما کہتے ہیں کہ وہ 65 برسوں سے زیادہ وقت سے مقدمہ لڑتے لڑتے اب تھک چکے ہیں، ملک کے مفاد میں اب اس کا فیصلہ ہو ہی جانا چاہئے ۔ 'رام للا' کی جانب سے وکیل مدن موہن پانڈے بھی پرامید ہیں کہ مندر/مسجد تنازعہ کے حل کا وقت آگیا ہے ۔ مرکزی سنی وقف بورڈ کے وکیل اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفریاب جیلانی کہتے ہیں کہ وہ تو کافی دنوں سے یہی مطالبہ کر رہے تھے ۔ مسٹر جیلانی نے کہاکہ بات چیت سے بھی مسئلہ کے حل کی کئی کوششیں ہوئی ہیں، لیکن دونوں فریقوں کے اڑیل موقف کی وجہ سے عدالت ہی آخری امید ہے ۔ فریقین کے ساتھ ہی یہاں کے عام لوگ بھی چاہتے ہیں کہ بندوق کے سائے میں جینے کا وقت ختم ہو۔ اجودھیا میں سادھو۔ سنتوں کیلئے کھڑا¶ں بنانے کا کام کرنے والے اسحاق کہتے ہیں کہ معاملے کا حل جلد نکلے تاکہ آنے والی نسل سکون سے زندگی بسر کرسکے ۔ مندروں کے آس پاس پھول بیچنے والے وشنو اور رئیس بھی کہتے ہیں کہ مندر، مسجد جو بھی بننا ہو، بن جائے تاکہ نسلوں سے جاری تنازعہ ختم ہو۔ 11 اگست سے سپریم کورٹ میں سماعت شروع کرنے کے اعلان سے توقع پیدا ہوئی ہے کہ فیصلے کی آخری گھڑی نزدیک ہے ۔ اس میں اطمینان کی بات یہ ہے کہ اس پیچیدہ مقدمہ میں سپریم کورٹ کے حکم کو سبھی فریق ماننے کو تیار ہیں۔ 30 ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھن¶ خصوصی مکمل بنچ کے فیصلے کے خلاف اس سے وابستہ فریقوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ واضح رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے تین ججوں کی بنچ نے 30 ستمبر 2010 کو دو۔ ایک کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ بابری مسجد اراضی کو تین برابر حصوں میں رام للا وراجمان، نرموہی اکھاڑہ اور سنی سنٹرل وقف بورڈ میں تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف داخل عرضیوں کو منظور کرتے ہوئے 9 مئی 2011 کو ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگاتے ہوئے موجودہ صورتحال برقرار رکھنے کیلئے کہا تھا۔یو این آئی