عظمیٰ نیوز سروس
نئی دہلی//نوجوانوں میں سٹے بازی کے بڑھتے رجحان کو لے کر سپریم کورٹ فکر مند ہے۔ 23مئی کو ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے اس نے کہا کہ آئی پی ایل کی آڑ میں لوگ سٹہ لگا رہے ہیں اور جوا کھیل رہے ہیں۔ عدالت نے سٹے بازی سے جڑے آن لائن ایپ کے ضابطے کے لیے دائر مفاد عامہ کی عرضی پر مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا۔جسٹس سوریہ کانت اور این کوٹیشور سنگھ کی بنچ نے کے پال کے ذریعہ دائر عرضی پر مرکز کو نوٹس جاری کیا، جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ آن لائن سٹے بازی اور جوا ایپ کا استعمال کرنے کے بعد کئی بچوں نے خودکشی کرلی ہے۔ بنچ نے کہا، آئی پی ایل کے نام پر بڑی تعداد میں لوگ سٹہ لگا رہے ہیں اور جوئے میں ملوث ہیں، یہ سنگین معاملہ ہے۔عرضی دہندہ نے یہ بھی الزام لگایا کہ کئی با اثر شخصیات، اداکار اور کرکٹر ان آن لائن ایپ کی تشہیر کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے بچے سٹے بازی کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ پال نے کہا کہ سگریٹ کے معاملے میں پیکٹ پر تمباکو نوشی کے نقصانات درج ہوتے ہیں، لیکن سٹے بازی ایپ کے معاملے میں اس طرح کی کوئی وارننگ مندرج نہیں کی جاتی ہے۔عدالت میں ذاتی طور پر پیش ہوئے پال نے کہا، میں ان لاکھوں ماں-باپ کی طرف سے بات رکھ رہا ہوں، جنہوں نے گزشتہ کچھ برسوں میں اپنے بچے کھوئے ہیں۔ تلنگانہ میں 1023 سے زیادہ لوگوں نے خودکشی کی ہے کیونکہ 25 بالی ووڈ اور ٹالی ووڈ ستاروں/با اثر لوگوں نے معصوموں کی زندگی سے کھلواڑ کیا۔ پال نے یہ بھی دعوی کیا کہ تلنگانہ میں بااثر لوگوں کے خلاف اطلاع اول درج کی گئی تھی کیونکہ معاملہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا ہے۔حالانکہ بنچ نے معذوری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے میں زیادہ کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ یہ سماجی خرابیاں ہیں اور قانون بنا کر لوگوں کو سٹے بازی میں ملوث ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔ جج سوریہ کانت نے کہا، کیا کیا جا سکتا ہے؟ نظریاتی طور سے ہم آپ کے ساتھ ہیں کہ اسے روکا جانا چاہیے… لیکن شاید آپ اس غلط فہمی میں ہیں کہ اسے قانون کے ذریعہ روکا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جیسے ہم لوگوں کو قتل کرنے سے نہیں روک سکتے ویسے ہی کوئی قانون لوگوں کو سٹے بازی یا جوا کھیلنے سے نہیں روک سکتا۔پال نے کہا کہ کچھ سابق کرکٹر بھی ان ایپس کو فروغ دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے نوجوانوں میں سٹے بازی کی لت لگ گئی ہے۔ بنچ نے کہا کہ وہ مرکزی حکومت سے پوچھے گی کہ وہ اس معاملے پر کیا کر رہی ہے اور اس معاملے پر حکومت سے جواب طلب کیا۔ عدالت عظمیٰ نے اس معاملے میں اٹارنی جنرل اور سالیسٹر جنرل کی مدد بھی مانگی۔