کم سن مقتول———ننھے شہید——–معصوم مظلوم———-
ساری وادی ماتم کے ساتھ ساتھ اس بات پر مسرور بھی ہے کہ تم نے شہادت پائی ، بڑا مرتبہ حاصل کیا اور دنیا میں انسانی جستجو کے مدعا و مقصد کو حاصل کرلیا ۔اس میں کیا شک ہے ،یہ واقعی بڑی خوشی کی بات ہے ۔
مگر———–مگر میں ایک باپ ہوں۔میرے دل پر جو چرکہ لگا ہے ،میرے جگر پر جو گھائو آیا ہے ،اُسے کوئی حرف ِ تسلی ،کوئی سہارا اور کوئی مرہم بھر نہیں سکتا ،کوئی دوا مندمل نہیں کرسکتا ۔یہ گھائو اب ایک ناسور بن کر تا عمر رستا رہے گا ۔تکلیف دیتا رہے گا ۔ تڑپاتا اور رُلاتا رہے گا ———
تمہیں شائد یہ بات معلوم نہیں اور اگر ہوتی بھی تو اب اُس کا کیا فائدہ۔میں نے پیسہ پیسہ جوڑ کر اور تقریباً تین چوتھائی اُدھار لاکر بلکہ اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر تمہارا کپڑا ،بستہ ،کتابیں کاپیاں اور ٹیوشن فیس جٹائی تھی۔ہم دونوں میاں بیوی کے بڑے اَرمان تھے ۔ میری یہ خواہش نہیں تھی کہ تم ڈاکٹر بن کر کل ڈھیر سارا روپیہ کماکر میری گود میں ڈال دو گے اور میں بڑا آدمی یا امیر کہلائوں گا ۔نہیں میرا ہرگز ہرگز ایسا کوئی خیال یا مقصد نہیں تھا ۔ جس طرح میں نے عمر بھر خدمت ِخلق کی ہے ،روتوں کے آنسو پونچھے ہیں ،غریبوں کی کما حقہ اپنی استبداد اور طاقت کے مطابق دل جوئی اور ہمدردی کی ہے ،بیماروں کو ہسپتال یا ڈاکٹر وں کے پاس لے جانے میں مقدور بھر مدد کی ہے ، دنیا میں پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا ۔قلمے ،قدمے ،سخنے کسی کی مدد ہوجائے اور انسان کے ہاتھ دوسرے انسانوں کے کام آسکیں تو وہ بہت بڑی بات ہوتی ہے ۔تمہاری ماں بلکہ میرا بھی یہ اَرمان تھا کہ تم ڈاکٹر بن کر ملک و قوم کی خدمت کروگے ۔صحیح معنوں میں ایک ڈاکٹر بن کر دکھائو گے اور خصوصاً اس پیشے پر جمی تہہ در تہہ دھول کو صاف کرنے میں بھی ممدو معاون ثابت ہوگے مگر شاید ہم نے کچھ زیادہ ہی خوابوں کے تانے بانے بُنے تھے۔
یہ ٹھیک ہے کہ جنت صرف اللہ تعالیٰ کی فضل و مہربانی سے ہی عطا ہوسکتی ہے مگر اس کے مقابلے میں تم نے کڑی محنت اور جدو جہد کئے بغیر ہی شہادت پائی اور شہادت کا عوض بلا شبہ جنت ہے ۔یہ کتنی بڑی سرشاری اور مسرت کی بات ہے مگرمیں ———-میں کیا کروں ؟؟؟میں نے تمہارے جسم پر گولی سے بنا سوراخ اور چھروں کی ایک کہکشاں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے ۔وہ سرخ اُبلتا ہوا خون جس سے تمہارا اپنا ہی چہرہ لالہ زار بنا ہوا تھا ،میری آنکھوں کے سامنے رقصاں ہے ۔میں اس دُھندلے دُھندلے اُفق اور پھیلے پھیلے شفق کو کیسے نظر انداز کرسکتا ہوں ؟کیسے اپنے دل و دماغ کے نہاں خانوں سے نکال کر پھینک دوں ؟کر ہی نہیں سکتا ،پھینک ہی نہیں سکتا ۔
تمہارا پیلا پیلا نورانی چہرہ ،نیم وا آنکھیں ،سکڑے سکڑے ہونٹ اور تنا تنا سا دراز بدن میری نظروں کے سامنے ہے ۔میں کیسے اُس بے جان اور بے حرکت جسم کو بھول سکتا ہوں؟؟؟
تم ایک مقصد بلکہ ایک مقدس مقصد کے ساتھ ایک پر امن ،بلا تشدداحتجاج میں اپنی قومی سا لمیت اور امن و آزادی کا مطالبہ لے کر نکلے تھے مگر قابض حکمران نے جب منہ پر تالے ڈال دئے ،سر ُاٹھاکر چلنے پر پابندی عائد کردی اور کسی بھی جائز مطالبے کے لئے قدغن لگا دی ہو تو اُس صورت میں کیا لاٹھی ،کیا پتھر ،کیا تشدد اور کیا پُر امن احتجاج———–سب پر ایک ہی مار پڑتی ہے اور سب کو ایک ہی ڈنڈے سے ہانکا جاتا ہے ۔
بہت سارے لوگ تمہارے جنازے کے ساتھ تھے۔لوگوں کا ایک سیلِ رواں ، یقینی طور ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر۔تمہارا جنازہ میرے کندھے پر تھا مگر مجھے لگ رہا تھا جیسے میں اپنی ہی لاش اپنے کندھوں پر اُٹھاکر لے جارہا ہوں ۔بچپن میں——–میں نے تمہیں گود میں کھلایا تھا ۔پیٹھ پر بٹھاکر میں تمہارا گھوڑا بناکرتا تھا مگر یہ کیا ستم ظریفی ہے ۔یہ کیسی آزمائش ہے اور یہ کتنا بڑا کٹھن امتحان ہے کہ آج میں نے تمہارا جنازہ اپنے کندھے پر اٹھا رکھا ہے !یہ تو بالکل خلاف معمول اور غیر فطری بات ہوئی ،میں نے تمہیں پالا پوسا جوان کیا ۔اُمید یہی تھی کہ میرے بڑھاپے میں میری لاٹھی بنو گے ،مجھے سہارا دو گے اور اپنے مقررہ وقت پر مجھے کاندھا دے کر سپرد خاک کرو گے ۔تمہارے جواںاور مضبوط کندھوں پر مجھے کتنی راحت اور سکون ملتا مگر یہ کیسا ظلم ہے کہ تم نے میرے کمزور ،ناتواں اور جھکے ہوئے بوڑھے کندھوں کو اور جھکادیا ۔
میرے ننھے شہید ذرا سوچو اُس وقت میرے دل پہ کیا بیتی ہوگی جب میں نے تمہیں سپردِ خاک کیا ؟منوں مٹی کے نیچے دفنایا ———-اور تم اُس بوجھ تلے دب گئے——سوگئے——–کھو گئے—–اب تمہیں کوئی نہیں دیکھ سکے گا ———اب تم کسی کو نظر نہیں آئو گے مگر جو مشعل تم نے روشن کی ہے وہ کئی راہوں کو روشن کرے گی۔آزادی ایک جائز مطالبہ ہے اور ہرانسان کا جائز بشری حق ——اور وہ بھی خصوصاً آج کل کے ترقی یافتہ متمدن دنیا میں——–آزادی کے لئے ہماری جدو جہد بہت مدت سے جاری ہے اور وہ ایک دن ضرور مل کے رہے گی ۔جس صبح کا ہمیں انتظار ہے اور جس کے لئے ہم نے سابقہ ستر برس کے دوران اَن گنت قربانیوں کے نذرانے پیش کئے ہیں——-وہ صبح کبھی تو آئے گی مگر آئے گی ضرور ——–یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے ؎
خوشی سے اپنی رسوائی گوارا ہو نہیں سکتی
گریباں پھاڑتا ہے تنگ جب دیوانہ آتا ہے
اگر آپ ایک دیوانے ،باورے یا پاگل کو بار بار چھیڑیں گے ،تنگ کریں گے یا چڑائیں گے تو نتیجے کے طور پر یا تو وہ انتقامی کارروائی میں اُٹھ کر آپ پر پتھر ،ڈنڈے یا جو بھی اُسے سر دست دستیاب ہو جائے ،وار کرے گا ،بصورت دیگر اگر اُس میں اتنی طاقت اور استعدادنہیں ہوگی تو وہ اپنا ہی گریباں پھاڑ دے گا ۔ایک غلام قوم کا آزادی مانگنا ، اُس کے لئے لڑنا ،جدوجہد کرنا اس کا حق ہے ——–اس لئے میرے بچے مجھے اس بات پر فخر بھی ہے کہ تم راہِ حق میں شہید ہوگئے !!!ایک اچھے کاز کے لئے، اپنے وطن کے لئے قربان ہوگئے،مگر ایک باپ ہونے کے ناطے میرے دل کا ناسور کتنا گہرا ہے ،کتنا اذیت ناک ہے ،میرے جسم و جاںکی کیا حالت ہے ،وہ کوئی نہیں جان سکے گا ۔زبان میں دم نہیں کہ اپنے خیالات و جذبات کا برملا اظہار کرسکوں مگر تصور حیات جاودانی یعنی شہادت اور اُس کے عوض ملنے والی جنت کے روشن چراغ میرے دل و دماغ میں ہمیشہ تاب ناک اور فروزاں رہیں گے —الوداع—–میرے بچے ——خدا حافظ ؎
آسمان تیری لحد پرشبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995