کسی کا نام خوش نصیب رکھنے سے وہ خوش نصیب ہو، یہ ضروری تو نہیں۔ کسی کے نصیب میں کیا لکھا ہے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس کے امی ابو نے اس کا نام خوش نصیب رکھا تھا۔ وہ لوگ اسے پیار سے خوشی بلاتے تھے۔ وہ اپنے والدین کی بہت ہی لاڈلی بیٹی تھی۔ وہ لوگ اس پر جان چھڑکتے تھے کیونکہ وہ مدتوں، منتوں اور دعاؤں کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ لیکن کاتب تقدیر کے کرتبوں سے آج تک کا انسان بالکل حیران ہے۔ ہر انسان کے ستارے گردش میں ہوں یہ ضروری تو نہیں۔ اس کے والدین نے بیٹی عنایت ہونے کے لیے ایک بڑی درگاہ پر منت کا دھاگہ باندھا تھا۔ اس کے بڑے بھائی کی عمر تب پندرہ سال تھی جب خوشی پیدا ہوئی۔
جب خوشی آٹھ سال کی ہوئی تو اس کے والدین منت کا دھاگہ کھولنے درگاہ پر گئے۔دھاگہ کھول کے وہ لوگ بہت خوش تھے لیکن واپس آتے ہوئے وہ ایک حادثے کا شکار ہو گئے۔ اسے طرح وہ دونوں بھائی بہن یتیم ہو گئے۔ جب کوئی کم عمر بچہ یتیم ہوتا ہے تو اس کے وجود پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ یتیمی کا اثر خوشی نے اپنے دل پر لے لیا۔ اسے ایسا لگا جیسے کسی نے اس کے بدن سے خون نچوڑ لیا ہو۔
وہ روئی تڑپی اور چپ سادھ لی۔ ایسی چپ جس میں سناٹا تھا۔ ایسی چپ جس میں ہزاروں سوال تھے ہزاروں گلے تھے۔ یہ چپ اس کے غم کی عکاسی کر رہی تھی۔ دنیا میں خونی رشتے کے نام پر صرف ایک بھائی تھا وہ بھی مست مگن طبیعت کا مالک۔
رشتوں کا خلوص اور محبت انسان کو صرف اپنے گھر میں ملتا ہے۔ خوشی نے جوانی میں قدم رکھا تو اس کا بھائی دو بچوں کا باپ بن چکا تھا۔ خوشی کی بھابی بہت لالچی اور ظالم ثابت ہوئی۔ خوشی کا بھائی ہمیشہ اپنی بیوی کی ہاں میں ہاں ملاتا تھا، چاہے وہ صحیح ہو یا غلط ۔
دکھ اور صدمے انسان کو اپنوں سے ہی ملتے ہیں۔ بھابی نے خوشی پر طرح طرح کے ظلم کئے۔کپڑے دھونا، جھاڑو پونچھا، کھانا بنانا، غرض گھر کا سارا کام اور بچوں کی دیکھ بال، سارے کام اس نے خوشی کے نازک کندھوں پہ ڈال دیئے تھے۔ لیکن اپنے شوہر کے سامنے خوشی کے ساتھ پیار اور ہمدردی جتا کے اسے بیوقوف بناتی تھی۔ وہ لوگ بس اس کے کھانے پینے اور لباس کا خیال رکھتے تھے۔ خوشی پیاری اور بے ضرر لڑکی تھی اور معصوم بھی۔ وہ اپنوں سے بہت محبت کرتی تھی۔ اس لیے وہ کبھی کسی سے کوئی شکایت نہیں کرتی تھی۔
اب اس کے لیے آس پڑوس سے رشتے آنے شروع ہو گئے۔ اس نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کسی کی عزت پر نہ آنچ آنے دے گی اور نہ کسی کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا کرے گی۔ جوں جوں خوشی کے لیے رشتے آنے شروع ہوئے اس کی بھابھی بڑی ہوشیاری سے ان میں کوئی نہ کوئی کھوٹ نکال کر انکار کرتی رہی کیونکہ بھابھی کے شاطر دماغ میں یہ چال چل رہی تھی کہ خوشی کی شادی اس کے لیے سونے کی کان ثابت ہو۔ ایک دن یہ خبر اڑتے اڑتے خوشی کے کانوں تک پہنچی کہ بہت سارے اچھے رشتوں کو ٹھکرانے کے بعد اس کی بھابھی نے بڑی دیکھ بال کے بعد ایک ایسی جگہ اس کا رشتہ طے کیا ہے، جس پر سب لوگ حیران ششدر ہیں۔ سب کی زبان پر یہ بات آئی کہ خوشی کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے لیکن اس کی بھابھی کے سامنے کوئی بھی زبان کھولنے کی جرات نہ کر سکا۔ بھیا کی آنکھوں کا پانی جیسے پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔ اسے خوشی کھبی دکھائی نہ دیتی تھی اور نہ ہی وہ کبھی اس کی پرواہ کرتا تھا۔ جس شخص سے خوشی کا رشتہ طے ہوا وہ اس سے عمر میں کافی بڑا تھا۔ وہ تین جوان بچوں کا باپ تھا اور اس کی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا۔ گوکہ بہت مالدار آدمی تھا۔
کچھ لوگ دنیا میں بہت مجبور ہوتے ہیں اور کچھ بااختیار۔ اس کے بھیا بھابھی نے اس کے لئے کھڑے کھڑے فیصلہ سنایا۔ وہ سر اٹھانے کی بھی روادار نہ تھی اور نہ ہی اس کے اندر اتنی ہمت تھی کہ وہ اپنا دکھ کسی پر ظاہر کرتی۔ اسے لڑکیوں کی طرح سجنے سنورنے کا نہ شوق تھا نہ ارمان لیکن اندر ہی اندر وہ اپنی آنے والی زندگی کے لیے ایک مکمل اور بھرپور دنیا چاہتی تھی۔ مگر وہ لاچار تھی۔ دل کی باتیں ایک لڑکی اپنی ماں پر ظاہر کرلی ہے لیکن اس بد نصیب کے نصیب میں نہ ماں تھی نہ باپ۔ اگر اس کی کوئی دوست ہوتی تو شائد وہ اس سے اپنی خواہش کا اظہار کرتی مگر اس کی کسی سے دوستی بھی نہیں تھی۔ بھیا اور بھابھی نے اسے کند چھری سے ذبح کیا۔ وہ معصوم چاہ کر بھی کچھ بول نہیں پائی۔ اس نے اندر ہی اندر اپنے ارمانوں پر ایک ٹھنڈی چادر ڈال دی۔
ایک دن بھابھی نے پنک کلر کا جوڑا اور میچنگ چوڑیاں اسے تھماتے ہوئے کہا-" اسے پہن لو۔ آج لڑکے والے تمہیں دیکھنے آ رہے ہیں۔ " پر کشش ، معصوم اور اداس چہرہ۔ وہ لوگ آئے اور شادی کی تاریخ طے کر کے چلے گئے۔ بھیا اور بھابھی نے اس کی چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کر کے اسے ایک قید خانے سے دوسرے میں منتقل کر دیا۔ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی میں بھی خوش نہیں تھی۔ اسے اپنی قسمت پر رونا آیا رہا تھا۔ نہ ہی وہ شادی سے پہلے خوش تھی اور نہ ہی شادی کے بعد مگر اس غریب کی خوشی سے کسی کو کیا لینا دینا تھا۔ اس کے بدلے میں اس کی بھابھی کو بہت سا مال مل گیا۔ زمین جائیداد کے علاوہ اس کے شوہر کا بسا بسایا گھر تھا۔ بینک بیلنس تھی۔ دو تین گاڑیاں تھیں۔ کام کرنے کے لیے نوکر چاکر موجود تھے۔ کئی باغات کا مالک ہونے کےعلاوہ اس کے پاس اپنا کاروبار تھا۔ خوشی کے شوہر کے پاس دنیا کی ہر آسائش موجود تھی۔ اس نے بہت کوشش کی وہ اپنے شوہر کے ساتھ خوش رہ سکے مگر وہ چاہ کر بھی خوش نہ رہ پائی کیونکہ ان دونوں کا رشتہ بالکل بے جوڑ تھا۔ یہی غم اسے اندر ہی اندر کھوکھلا کرتا گیا۔ اس کی ہر رات کا ایک ایک لمحہ سسکنے لگا۔ وہ اپنا غم کسی سے کیا بتاتی۔ اس کی بھابھی نے اس کا سودا کر کے واپسی کے دروازے اس کے لئے بند کر دئے تھے۔
اس کا شوہر اپنی پہلی اولادوں کو زیادہ اہمیت دیتا تھا۔ اس لیے خوشی ماں بھی نہ بن پائی اور لوگوں میں بانجھ کا لقب پایا۔
اپنے والدین کے موت کا صدمہ، بھیا بھابھی کی لاپرواہی، اپنی شادی کا دکھ اور اولاد سے محرومی، دکھ اور درد کی بھی حد ہوتی ہے۔ دکھ اور صدمہ کوئی بتانے کی داستان ہوتی ہے کیا۔ کس کس غم کو اپنے دل میں دفن کرتی۔ شکوہ شکایت کرنا اس کی فطرت میں نہ تھا۔ اسے ہر دکھ ہر احساس اکیلے سہنے کی عادت تھی۔ اس کا شوہر اپنے بچوں اور اپنی پہلی بیوی کے گن گاتے تھکتا نہ تھا۔ دوسروں کی بیویوں کی بھی تعریفیں کرتا۔ خوشی کی بے عزتی کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا۔ خوشی کے سر میں درد ہونے لگا۔ پھر یہ درد سینے کی طرف پھیل گیا۔
زندگی میں ہنسی خوشی کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اطمینان اور خوشی سے انسان کو جینے کی وجوہات ملتی ہے۔ خوشی کی زندگی اذیت ناک بن گئی۔ خوشی کہیں نہ تھی۔ اس کا وجود تھا مگر نہ ہونے کے برابر۔ اس کی زندگی کا نام اگر تھا تو بس دکھ درد آنسو اور خاموشی۔ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے یہ احساس جب انسان کو اپنے گھر میں دل کا سکون میسر نہ ہو۔ کوئی خوشی حاصل نہ ہو۔ خوشی کی زندگی کے انمول دن سلگتے انگارے بن گئے۔ وہ اپنے حصے کا درد صبر کے ساتھ تنہا سہنے لگی۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ انسان کو اپنے حصے کا درد خود ہی سہنا پڑتا ہے۔ اس طرح ایک انسان کی جیتے جی موت ہوتی ہے۔ ایسی موت جس میں آہستہ آہستہ سانسیں بھی چلتی ہیں اور زندگی کو جینا بھی پڑتا ہے۔ اس کا نام خوش نصیب تھا لیکن خوش نصیبی کا اثر اس کی زندگی میں کہیں نہیں تھا۔ اس طرح خوش نصیب کا وجود بد نصیبی کی لہروں میں کہیں کھو گیا۔
دکھ درد کے سوا کیا دیا اس زندگی نے
اس دکھ درد کو میں نے اپنا ہمدم بنا لیا
—-
پہلگام، اننت ناگ
رابطہ9419038028 ، 8713892806