حسین قریشی
’’یہ کیا ہے؟ تم نے اب تک چائے نہیں پی۔ تمہیں سو سو بار کہنا پڑتا ہے۔ تم ہوکہ ایک بار کسی کتاب میں غوطہ زن ہوئے کہ کنارے پر آتے ہی نہیں۔ صبح ہو یا شام ۔۔۔۔۔ بس آپ کا یہی کام ۔۔۔۔۔۔۔ چائے بھی ٹھنڈی ہوگئی ہے۔ سنتے ہو۔۔۔۔۔۔۔ کہ نہیں ۔۔۔۔۔۔‘‘ رقیہ بیگم نے غصے سے چائے کی بھری ہوئی پیالی اٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں!۔ بیگم میںسن رہا ہوں، تم ناراض مت ہوا کرو۔ ہم نے بھی تو،تمھارے گھر کے سو سو چکر لگائے تھے۔ تب جاکر تم ملی ہو۔‘‘ راشد صاحب نے پیار بھرے انداز سے جواب دیا۔ ’’بس رہنے دو۔ اب وہ دن کہاں رہے؟ تم تو، اب کتب کے عاشق ہوگئے ہو۔ ایک مرتبہ کسی کتاب کے دریا میں جھلانگ لگائی، توپھرآپ کو جلد کنارہ نظر نہیں آتا ۔ آج کل بھی لوگ اتنی طویل طویل کہانیاں پڑھنے کے لئے وقت کیسے نکال لیتے ہیں؟ یہ میری سمجھ سے باہر ہیں۔ اب!!… یہ کونسی کتاب ہے؟‘‘ رقیہ نے شکایتی انداز میں پوچھا۔ ’’اس کتاب میں کوئی بڑی کہانیاں نہیں ہیں۔ اس میں تو صرف سو لفظوں کا چکر ہے۔ مصنف نے صرف 100 لفظوں میں مکمل کہانی لکھی ہے۔ جیسے اس کتاب کا نام ‘سو لفظوں کی کہانیاں ہے۔ میں اس کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اور ہاں۔۔۔۔۔ بھاگیوان میں اس سو لفظی دریا سے جلد ہی کنارے پر آجاؤں گا۔‘‘ راشد نے مزاحیہ انداز میں کہا۔
یہ کتاب افسانچوں کا مجموعہ ہے۔ کتاب کا سرورق دیدۂ زیب ہے۔ ایک طرف چند ضخیم کتب ہے۔ گویا ادب کی بڑی وطویل اصناف کو دیکھایا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ عدد 100 کے ایک صفر میں دو تیر پیوست کئے گیے ہیں۔ شاید مصنف نے 100 لفظی کہانی کی جیت یا شہرت کو درشایا ہو۔ آخری ورق پر مصنف کی اور انکی چند تصانیف کی تصاویر دی گئی ہیں، جس سےمصنف کی ادبی خدمات کا احاطہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کتاب کو الفاظ پبلیکیشن کامٹھی ناگپور نے پرنٹ کیا ہے۔ مصنف نے ان کے پہلے قاری اور رہبر خان نوید الحق کے نام اس کتاب کا انتساب لکھا ہے۔ بعد ازانتساب کتاب میں مصنف کے بارے میں مفصل طور پر معلومات قلمبند کی گئی ہیں۔ جس میں ذاتی تعارف ، تعلیم ، ذاتی کوائف، تصانیف ، اشاعتی منصوبے ، اشاعت ، پیش لفظ، تبصرے ، نشریات ، ملازمت، سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے انسلاک اور آخر میں انعامات و اعزازات کی فہرست موجود ہیں۔ میرے خیال سے یہ صفحات آخر ہونے چاہیے تھے۔ اپنی بات میں مصنف نے ادبی تاریخ کے حوالے سے ا صناف کے دور کو سامنے رکھتے ہوئے مختصر کہانیوں کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی ہیں۔ انھوں نے انگریزی ادب کا حوالے دیتے ہوئے سو لفظی ، پچاس لفظی کہانیوں کی شہرت کو اجاگر کیا ہے۔ آپ نے بتایا کہ 1988 میں برطانیہ کی بلاینڈ ایسوایشن کی امداد کے لئے 100 لفظی کہانی لکھواکر کتاب شائع کی گئی تھی۔ اسی طرح 1993 اور 2006 میں مختصراً کہانیوں جسے ڈریبل (Drabble) نام دیا گیا تھا، اس کی مقبولیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اردو ادب اس طرح کی کہانی لکھنے کی شروعات مشہور و معروف افسانہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر انور مرزا نے کی تھی۔ مصنف نے واضح کیا کہ سو لفظی کہانی میں ختمہ ، سوالیہ نشان، سکتہ ، وغیرہ رموز و اوقاف کو نہیں جوڑا جاتا ہے۔ صرف لفظوں کی گنتی کی جاتی ہے۔
اس میں مختصر انداز میں محترم ریحان کوثر صاحب نے کہانیاں تحریر فرمائی ہے۔ جیسا کہ کتاب کا ٹائٹل ہے۔ ٹھیک اسی طرح سے ہر کہانی صرف سو الفاظ پر مشتمل ہیں۔ ادب کی یہ جدید فنکاری ہے۔ ناول کی چھوٹی تصویر، افسانہ نگاری اسکے بعد مائیکرو یا مینی افسانہ وجود میں آیا۔ وقت یہاں نہیں ٹھہرا بلکہ مسلسل آگے بڑھتا گیا۔ ادب میں وقتِ حاضر کی شناسائی کرتے ہوئے اور قارئین کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مینی افسانے کے بعد افسانچہ نگاری منظر عام پرآئی۔ افسانچہ نگاری میں قلمکار کسی ایک خیال کو نہایت مختصر انداز میں مکمل طور پر پیش کرتے ہیں۔ جیسے گھاگر میں ساگر بھرنا نہایت مشکل امر ہے، ٹھیک اسی طرح ایک واقعہ یا خیال کو مختصر کہانی یا افسانچے کی صورت میں لکھنا مشکل ہے۔ اورصرف سو الفاظ میں تحریر کرنا نہایت پیچیدہ اور دماغی ورزشی عمل ہے۔
محترم ریحان کوثر صاحب ادب کے گھنے درخت کی ایک پھلدار اور سر سبز و شاداب شاخ ہے۔ انکا شمار نمایاں قلمکاروں میں ہوتاہے۔ وہ مختصر کہانی تحریر کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ’’سولفظوں کی کہانیاں‘‘ اس کتاب میں کل سو افسانچے ہیں۔ ہرافسانچہ سو الفاظ پر محیط ہے۔ کہانیوں میں سماجی اور اخلاقی اسباق موجود ہیں۔ ہر کہانی درس دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کتاب میں ادھوری کہانی ، رسم اجراء، زندگی ، ایک سوال ، واٹساپ پوسٹ ، کل اورآج ،ٹِک ٹاک اور بغاوت جیسے عنوانات پر افسانچے موجود ہیں۔ مختصر انداز میں جملہ بندی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ جو انکی کتاب میں مؤثرطرزپر موجود ہے۔ ووٹ، الیکشن، بھارت مہان، پارلمینٹ کا گلیارا وغیرہ ایسے افسانچے ہیں۔ جو سیاسی حالات کی جانب اشارہ کرتے ہیں، اوران میں سیاسی ہلچل کو بیان کیا گیا ہے۔
کہانیاں مختصر ہونے کی وجہ سے قارئین کی دلچسپی برقرار رہتی ہیں۔ کہانیوں میں رموزو اوقاف کا مناسب استعمال کیا گیا ہیں۔ بہترہوتا کہ کتاب میں ماہر و تجربہ کار ادباء کے دو یا تین تبصرے اور چند مختصر تاثرات شامل ہوجاتے۔ اس سے کتاب کے مواد کی اثرانگیز میں اضافہ ہونے کے ساتھ ہی مفصل ،مکمل، مدلل اور مفید باتیں قارئین کے گوشہ گزار ہوجاتی۔ آخر میں مصنف کی جانب سے اختتام اور سولفظی شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ افسانچوں کے اس مجموعے کو مصنف سے رابطہ کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
(ریسرچ اسکالر بامو یونیورسٹی اورنگ آباد)
<[email protected]>