اسد مرزا
حالیہ دنوں میں سوڈانی مسلح افواج اور ریپڈ سپورٹ فورسز(RSF) کے درمیان جھڑپوں کے دوران کم از کم 200سے تجاوزا فراد کی ہلاکت کے بعد، فوجی حکمرانی سے سوڈان میں سویلین حکومت کی زیر قیادت جمہوریت کی طرف منتقلی کے خواب خاک میں ملتے نظر آرہے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ممکنہ طور پر منتقلی کا منصوبہ شروع سے ہی ناکام منصوبہ تھا۔ سوڈانی دارالحکومت میں لڑائی میں اہم عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا ہے۔ بڑے جنگی علاقوں میں فوج کا ہیڈکوارٹر اور پڑوسی ہوائی اڈہ شامل ہیں۔
یہ2019 کے واقعات سے بہت دور کی بات ہے، جب ملک کے مطلق العنان حکمران عمر البشیر کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اب ایک دوسرے سے لڑنے والی طاقتیں مل کر کام کر رہی تھیں۔ اس وقت تجزیہ کاروں نے سوڈان کی سویلین زیرقیادت جمہوریت میں ابتدائی منتقلی کو’’امید کی کرن‘‘ قرار دیا تھا۔’’زیادہ تر لوگ ان طریقوں کو نظر انداز کر رہے ہیں جن میں اگست 2019 کے آئینی اعلان نے RSF اور سوڈانی مسلح افواج کے درمیان ایک غیر پائیدار تناؤ کو جنم دیا تھا، دونوں کو سوڈان کی سرکاری مسلح افواج کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا‘‘۔ ایرک ریوز جو کہ ایک ماہر تعلیم ہیں اور جنھیں سوڈان میں تحقیق کا 25 سال سے بھی زیادہ کا تجربہ،یہ ایرک ریوز کا کہنا ہے۔اب تنازعات میں، مسلح افواج کے سربراہ، جنرل فتح البرہان ملک کی عبوری گورننگ خودمختار کونسل کی قیادت کر رہے ہیں، جب کہ ان کے سابق نائب، جنرل محمد حمدان دگالو، جسے عام طور پر ہمدتی کے نام سے جانا جاتا ہے، RSF کی قیادت کر رہے ہیں۔
سوڈان میں لڑائی نے ملک میں پہلے سے ہی سنگین انسانی صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور کے مطابق، تقریباً 15.8 ملین سوڈانی افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے جو کہ 2017 کے مقابلے میں 10 ملین زیادہ ہے۔تاہم، لڑائی کے دوران ورلڈ فوڈ پروگرام کے تین ملازمین کے مارے جانے کے بعد حالیہ دنوں میں امداد کی تقسیم میں خلل پڑا ہے، جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ تنظیم نے کام روک دیا ہے، جس سے ملک میں غذائی قلت کی تباہی کے اثرات مزید بڑھ گئے ہیں۔
2019 میں البشیر کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد، اکتوبر 2021 کی فوجی بغاوت نے تمام سویلین اداروں کو ختم کر دیا تھا اور جمہوری اقتدار کے اشتراک کے معاہدے کو بھی ختم کر دیا تھا جو کہ پہلے طے پایا تھا۔ بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کے بعد، فوجی اور سویلین رہنماؤں نے دسمبر 2022 ء میں ایک فریم ورک معاہدے پر دستخط کیے تاکہ شہری قیادت والی جمہوریت کی طرف واپسی کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔تاہم، فریم ورک معاہدے کے باوجود سوڈان میں دو اہم فوجی جرنلوں کے درمیان طاقت کی کشمکش جاری رہی ہے، جس میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ RSF کو سوڈانی مسلح افواج میں ضم کر دیا جائے گا۔ البرہان کی مسلح افواج نے انضمام کو دو سال کی مدت میں مکمل کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جب کہ ہمدتی کی آر ایس ایف اس بات پر قائم تھی کہ اسے 10 سال میں مکمل ہونا چاہیے۔ فوجی انضمام کے علاوہ، منتقلی کے عمل میں شامل شہریوں نے زراعت اور تجارت میں کئی اہم اور منافع بخش، فوجی کمپنیوں کو سویلین کنٹرول میں منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ کمپنیاں فوج کے لیے طاقت اور منافع کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ اس لیے ریوز کو شک ہے کہ ایسی کوئی منتقلی ہو گی۔تناؤ پیر کو اس وقت شدت اختیار کر گیا جب خرطوم میں امریکی سفارت خانے نے کہا کہ RSF نے اس کے ایک سفارتی قافلے کو نشانہ بنایا ہے۔ اس نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو ہمدتی اور البرہان دونوں کو فون کرنے اور جنگ بندی کی اپیل کرنے پر مجبور کیا۔
عالمی برادری صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے دونوں جرنیلوں سے بات کی اور دشمنی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ 15 اپریل کو شروع ہونے والی جنگ سوڈان میں ایک مکمل خانہ جنگی کا آغاز کر سکتی ہے۔سوڈان نے 1956 میں آزادی کے بعد سے زیادہ تر وقت تک خانہ جنگیوں کے مناظر کو برداشت کیا ہے۔ اس ہفتے کی تباہی ایک نئے عالمی بحران کی نشان دہی کرتی ہے۔ 1980 کی دہائی کے وسط میں جاری تنازعہ تقریباً 13 سالوں سے بھڑک رہا تھا۔ 2011 میں عرب بہار کے بعد سے جنگوں کی ایک نئی لہر شروع ہوئی ہے اور جنگ میں ہونے والی اموات میں اضافہ ہوا ہے، جو عالمی امن کی طرف ایک طویل رجحان کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔ ہلاکتوں کی کل تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ زیادہ تر متاثرین خود جنگ میں نہیں مرتے بلکہ اس لیے ہلاک ہوتے ہیں کہ جنگ انہیں بھوکا اور بیماری کے خلاف مزاحمت کرنے کے ناقابل بناتی ہے۔
مختلف ممالک میں جنگیں طویل عرصے تک چلنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ مزید پیچیدہ ہو تی جارہی ہیں۔ زیادہ ترملکوں میں خانہ جنگیاں جاری ہیں۔ 2001 اور 2010 کے درمیان تقریباً پانچ ممالک ایک سال میں دو یا زیادہ تنازعات کا شکار ہوئے تھے۔ ان کی موجودہ تعداد اب 15 ہے۔ اور 1991 کے بعد سے غیر ملکی افواج کی مختلف ملکوں کی خانہ جنگیوں میں بطور کرائے کے فوجی کے طور لڑنے کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے کیوںکہ ان کو استعمال کرکے مختلف حکومتیں اپنی فوجوں کو کم استعمال کرتی ہیں اور لڑائی لمبے عرصے تک لڑی جاسکتی ہے۔مختلف افریقی ممالک میں جنگوں کی تعداد میں اضافہ کی ایک وجہ وہاں بڑھتا ہوا جرم بھی ہے۔ تقریباً تمام خانہ جنگیاں ان بدعنوان ممالک میں پھیلتی ہیں جہاں سیاست داں یا فوجی جنرل طاقت اور دولت حاصل کرنے کا ایک آسان راستہ جرم اور بے ایمانیوں کے ذریعے ڈھونڈھتے ہیں۔ (سوڈان کے جنگجو سرداروں میں سے ایک نے مبینہ طور پر سونے اور کرائے کے سپاہیوں کو بیچ کر دولت کمائی ہے؛ دوسرا کاروباری سلطنت کے ساتھ فوج کی قیادت کرتا ہے۔) دریں اثنا، مجرمانہ نیٹ ورکس کی عالمگیریت باغی گروہوں کے لیے منشیات کا سودا کرنا یا لوٹے ہوئے ہیروں کو لانڈر کرنا بھی دولت حاصل کرنے کا ایک آسان راستہ ہوتی ہے۔
طویل عرصے میں، امن کو فروغ دینے کے سب سے اہم طریقے یہ ہیں کہ کمزور ریاستوں میں بہتر جمہوری ادارے قائم کیے جائیں،جمہوری اقدار کو فروغ دیا جائے اور موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے اور ان کے تباہ کن اثرات سے بہتر طور پر نبرد آزما ہونے کے لیے عالمی حکمتِ عملی مرتب کی جائے۔ یہ کام بہت وسیع ہیں، اور اس میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ لیکن متبادل ایک ایسی دنیا ہے جہاں غریب افرادایک بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں گے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)