صفائی ستھرائی کے نام پراس وقت پورے ملک اور ریاست میں خصوصی مہم چلائی جارہی ہے اور حال ہی میں جموں وکشمیر کواوپن ڈیفیکیشن فری یعنی کھلے میں رفع حاجت سے پاک ریاست قرار دیاگیامگر زمینی سطح پر جب صورتحال کا جائزہ لیا جاتا ہے تو نتائج برعکس دکھائی دیتے ہیں اور ستھرائی کے بارے میں جو دعوے کئے جاتے ہیں ، انکے حقیقت کا رخ اختیارکرنے میںنہ جانے ابھی کتنا وقت درکارہو گا۔اسی مہم کے تحت گھروںمیں انفرادی بیت الخلائوں کے علاوہ سرکاری تعلیمی اداروں میں بیت الخلا تعمیر کئے گئے تاہم ان میں سے بیشتر ناکارہ بنے ہوئے ہیں کیونکہ محکمہ پی ایچ ای کی طرف سے ان تک پانی پہنچانے کیلئے کوئی اقدام نہیںکیاگیا اور نہ ہی پائپ کنکشن لگائے گئے ۔اگرچہ کچھ سرکاری سکولوں کیلئے بنائے گئے بیت الخلائوں میں پانی کی سہولت میسر ہے تاہم ریاست کے دور افتادہ علاقوں میں قائم بیشترسکولوں کے بیت الخلاء اس سہولت سے محروم ہیں ،جس کے نتیجہ میں بیت الخلاء ہونے کے باوجود طلاب کھلے میں رفع حاجت پر مجبو ر ہوتے ہیں جس سے نہ صرف گندگی پھیل رہی ہے بلکہ طلباء اور خاص طور پر طالبات کو شدید مشکلات کاسامناکرناپڑتاہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ کچھ سکولوں میں محکمہ تعلیم کی طرف سے بیت الخلائوں کی تعمیر عمل میں لائی گئی اور جوتعلیمی مراکزرہ گئے ان میں سوچھ بھارت مشن کے تحت بیت الخلاء تعمیر کئے گئے یا یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ۔تاہم یہ دیکھاگیاہے کہ سکولوں کیلئے بیت الخلاء کی تعمیر ہوجانے کے بعد پانی کا کوئی بندوبست نہیںکیاجاتا اور نتیجہ کے طور پر یہ اثاثے ناکارہ بن کر رہ گئے ہیں، جن کا استعمال نہیںہورہا۔حالانکہ حکام کی سطح پر بھی اس معاملے پر متعدد مرتبہ تبادلہ خیال ہوچکاہے مگر ابھی تک پانی کی فراہمی کیلئے متعلقہ محکمہ نے کوئی اقدام نہیں کیا جس سے ایسا لگتاہے کہ محکمہ پی ایچ ای اور محکمہ تعلیم میں تال میل کا فقدان ہے جس وجہ سے پائپ کنکشن لگا کر پانی کی سپلائی فراہم نہیںہوسکی ۔ایک ایسے وقت میں سرکاری سکولوں کے بیت الخلائوں میں پانی کی سہولت کا نہ ہونا حیران کن امر ہے ،جب حکومتی سطح پر صفائی ستھرائی کے نام سے مہم چلاکر لوگوں کو اپنے گھروں اور آس پاس کے علاقہ جات وعوامی و سیاحتی مقامات کو صاف ستھرا رکھنے کی تلقین کی جارہی ہے اورمقرر کئے گئے اہداف کو حاصل کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ افرادی قوت اور رقومات کا استعمال کیاجارہاہے۔جہاں تک صفائی ستھرائی کا تعلق ہے تو صفائی پسندی ہر انسان کی فطرت میںشامل ہوتی ہے اور کوئی یہ نہیں چاہتاکہ وہ گندگی بھرے ماحول میں زندگی بسر کرے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ گندگی کو ٹھکانے لگانے کیلئے بھروسہ مند نظام دستیاب ہو اور لوگ کوڑا کرکٹ سرراہ پھینکنے پر مجبور نہ ہوں ۔خالی بیت الخلاء کے ڈھانچے کھڑے کردیئے جانے سے ریاست اوڈی ایف نہیںہوجائے گی بلکہ حقیقی معنوں میں یہ درجہ جبھی حاصل ہوسکتاہے جب بیت الخلاء تعمیر کئے جانے کے بعد اُن تک پانی کےکنکشن پہنچائیں جائیں، وگرنہ یہ غلاظت کے ڈھیر ثابت ہوسکتے ہیں۔سرکاری سکولوں کے بیت الخلائوں میں پانی کا ہونا بہت ہی ضروری ہے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں طلباء زیر تعلیم ہوتے ہیں ۔توقع کی جانی چاہئے کہ سرکاری سکولوں میں پانی کا بندوبست کرنے کیلئے فوری طور پر اقدامات کئے جائیں گے اور ساتھ ہی عوامی مقامات پر گندگی کو ٹھکانے لگانے کیلئے جدید و سائنسی طریقہ کار پر کام شروع کیاجائے گا۔