سرینگر//سوپور کے 80سالہ بزرگ جماعت اسلامی لیڈرشیخ محمد یوسف کو ایک بار پھر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کپواڑہ جیل سے بارہمولہ جیل منتقل کیا گیا ہے۔ شیخ محمد یوسف کے گھر میں اُن کی زوجہ کے بغیر کوئی اور فرد دیکھ بال کے لیے موجود نہیں ہے اور وہ کئی عارضوں میں مبتلا ہیں جن کی نوٹس عدالت نے انہیں حاضر کرکے پہلے ہی لی ہے اور اسی بنا پر ان کی رہائی کے احکامات صادر کئے تھے۔جماعت اسلامی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سوپور پولیس نے عدالتی احکامات کو بالائے طاق رکھ کر انہیں ایک فرضی کیس میں کپواڑہ جیل منتقل کیا اور جب موصوف نے ان فرضی کیسوں میں ضمانت حاصل کی تو عدالتی احکامات پر عمل کرنے کے بجائے پولیس نے انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کا صریحاً غلط استعمال کرکے‘ ایک اور بار نظر بندکردیا۔جماعت اسلامی نے سوپور پولیس کے اس رویہ کی کڑی مذمت کرتے ہوئے‘ شیخ محمد یوسف سمیت تمام سیاسی نظر بندوں بشمول اُن قیدیوں کے جو مسئلہ کشمیر کے حوالے مختلف الزامات کے تحت سرینگر سنٹرل جیل سمیت کئی جیلوں میں سالہاسال سے قید ہیں کی غیر مشروط رہائی پر زور دیا ہے۔ عمر قید کی سزا کاٹنے والوں میں نمایاں طور پر ڈاکٹر محمد قاسم، ڈاکٹر محمد شفیع خان (خانصاحب بڈگام)، مقصود احمد بٹ (پٹن)، فاروق احمد شیخ (ہندواڑہ)، مشتاق احمد ملہ (کپواڑہ)، غلام محمد بٹ (کھاگ بڈگام)، عبدالحمید تیلی (کولگام)، پرویز احمد میر (ترال)، فیروز احمد بٹ (ترال)، محمد اسحاق پالہ (نابالغ ساکن شوپیان)، غلام قادر بٹ (کپواڑہ) شامل ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ عام طور پر عمر قید والے دس سے چودہ سال جیل میں گزارنے کے بعد رہا کیے جاتے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جن افراد کو یہ سزا دلوائی گئی ہے وہ سراسر سیاسی نوعیت کے کیس ہیں جن میں متعلقہ حکام تعصب اور انتقام سے کام لے رہے ہیں اور اسی وجہ سے بیس بیس سال کی جیل کاٹنے کے باوجود بھی انہیں رہا نہیں کیا جاتا ہے۔