میں کوئی مولوی، مبلغ یا معلم نہ تھا البتہ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح سمجھنے والا انسان ضرور تھا۔ سوچنا اور سمجھنا آسان ہوتا ہے سوچ کر اپنے خیالات کو لفظوں میں اپنی زبان سے بیان کرنا یا لکھنا بھی آسان ہوتا ہے لیکن سامنے والے کو قائل کر کے اسکی سوچ کو بدلنا بڑا مشکل امر ہوتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ کسی کو سمجھانے اور اسکی سوچ بدلنے میں تو پوری زندگی گزر جاتی ہے۔ میں بچپن سے لیکر آج تک ٹی وی سرئیلوں اور فلموں میں دیکھتا آیا ہوں کہ جب بھی کوئی لڑکی سسرال میں پہلی بار قدم رکھتی ہے تو اسکی ساسو ماں اپنی کلائیوں سے اپنے سونے کے کنگن اتار کر اسکی کلائیوں میں پہناتے ہوئے کہتی ہے کہ بہو یہ کنگن میری ساسو ماں نے مجھے پہنائے تھے۔ یہ کنگن ہمارے خاندان کی نشانی ہی نہیں بلکہ عزت اور مان بھی ہے۔ آج میں یہ تمہیں پہنا کر اس رسم کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری سونپتی ہوں۔ مگر ہماری وادی یمبرزل میں اسکا اُلٹ ہورہا ہے۔ ہم اپنی سادہ اور آسان روایتوں کو بھول کر خود ساختہ رسموں کو نبھاکر بڑے آرام اور نزاکت سے اپنی ہی خودداری کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔ یہاں تقریبا ہر جگہ ہر شادی میں بہو کے میکے سے آئے ہوئے کپڑے ، سونے کے گہنے خاص کر سونے کے کنگن یہاں کی ساسوماں بڑے فخر سے پہنتی ہے۔ زندہ ضمیر ، مروت، خوداری اور انصاف کا تصور ہمارے سماج میں دور دور تک کہیں نظر نہیں آتا ہے ۔ ہمارے سماج کے کچھ پڑھے لکھے لوگ خاص کر سماج کا خاص طبقہ یعنی یہاں کی عورتیں ان بری رسموں کو دل سے تسلیم کر چکی ہیں۔ ان ہی بری رسموں کی بدولت یہاں کی اکثر بیٹیاں اپنے مقررہ وقت پر ہاتھوں میں مہندی سجنے کے لیے ترستیں ہیں۔یقینا جن لوگوں کے ہاتھ خالی ہوتے ہیں وہ شادی بیاہ کےموقعوں پر بہت مجبور ہوجاتے ہیں اسلئے اکثر ماں باپ بیٹی کو خدا کی رحمت یا جنت کی ضمانت نہیں بلکہ بوجھ سمجھتے ہیں۔ یہ ساری باتیں زاہد اپنی ماں نادرہ کو سمجھا رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ نادرہ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اپنے بیٹے کو گمراہ کرنے کی کوشش کر تی وہ اپنے غصے کو اپنے اندر دباتے ہوئے لال چہرے کے ساتھ کمرے سے ہی نکل گیا۔ جب سے میرے رشتے کی بات گھر میں چلی ماں ایک بار نہیں بلکہ بار بار اپنی فرمائش اپنی زبان سے میرے سامنے بیان کرتی رہی۔ جس سے ہم ماں بیٹے کے درمیان اکثر تکرارہوجاتی تھی۔ اس میں میری ماں کا کوئی قصور نہ تھا کیونکہ وہ اپنے سماج کی رسموں سے ہٹ کر بات نہ کررہی تھی۔ مگر میں برے رسموں اور بدعتوں کے خاتمے کی شروعات اپنے آپ سے اور اپنے گھر سے کرنا چاہتا تھا مگر میری ماں میری کوئی بات سمجھنے کے لئے بالکل تیارنہ تھی۔ اپنے لاکھوں کے زیورات ہونے کے باوجود اُس نے بہوکی جانب سےجہیزکےساتھ ساتھ اپنے لیےسونےکےکنگن لانے کی رٹ لگا رکھی تھی۔۔ مگر میں کسی بھی بہو کے میکے سے سسرال کے کسی بھی فرد کے لئے سونے کے زیور تو کیا پیتل کی چیز کو بھی بدعت اور غیر ضروری سمجھتا تھا۔
میرے منع کرنے کے باوجود ماں پچھلے ایک سال سے ایک رشتہ کرنے والی عورت اور اپنی بہن کے ساتھ ہر صبح گھر سے نکل کر گھر گھر جاکر انکی بیٹیوں کو دیکھنے پرکھنے کے ساتھ ساتھ انکا انٹرویو کرکر کے کہیں جوس، مٹھائی تو کہیں کاجوبادام کی گریاں کھا کھا کر شام کو لوٹتی تھیں۔ جبکہ ماں جانتی تھی کہ میں نعمت کو پسند کرتا ہوں۔ نعمت پچھلے کئی سالوں سے میرے ذاتی شاپنگ مال میں چھ ہزار ماہانہ تنخواہ پر کام کرتی تھی۔ وہ بڑی خوداراور شریف لڑکی تھی۔ مگر اسکے خوابوں اور خواہشوں پر غریبی کا زنگ لگ چکا تھا کیونکہ اسکے گھر کے معاشی حالات کچھ ٹھیک نہ تھے۔ اسلئے کچھ سال پہلے اپنی پڑھائی کو الوداع کہہ کر اپنے چھوٹے بھائی کا تعلیمی خرچہ اُٹھا کر اپنے ابو کی مدد کررہی تھی۔ غریبی کی وجہ سے ماں کو نعمت بالکل پسند نہ تھی۔ماں کا ماننا تھا کہ غریب ہر معاملے میں کنجوس ہی نہیں بلکہ بے غیرت بھی ہوتے ہیں۔انہیں شادی بیاہ کی رسموں کو نبھانا ہی نہیں آتا ہے نہ اپنی ذمہ داری کا احساس نہ لاج نہ رواج۔ اپنی غریبی کا رونا رو رو کے صرف دعاؤں کے سہارے اپنی بیٹیوں کو سسرال روانہ کرتے ہیں۔ جبکہ امیر گھر سے بہو لانے میں الگ ہی شان ہوتی ہے۔ رعب،دبدبہ ایک غرور کے ساتھ تحفے اور دعوتوں پر بے شمار ضیافتیں امیروں کے ساتھ رشتہ جوڑ کر خواب اور خواہشیں پوری ہوجاتی ہیں۔
میں نعمت کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا تھا اسلئے بڑی مدت کی جدوجہد کے بعد ابا اور اپنی بہن کو اعتماد میں لے کر شرعیت کے طور طریقے سے نعمت کے ساتھ رشتہ جوڑنے میں کامیاب تو ہوا مگر اس دن کے بعد ماں کا موڑ خراب رہنے لگا۔ اپنی ناراضگی ظاہر کرتے کرتے اس نے مجھے کوسنے کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ اکثر مجھ سے کہنے لگی میری قسمت بڑی خراب ہے ورنہ تو تو میرا بیٹا ہے میرا خون ہے۔ میرا کہنا ماننے کے بجائے نعمت کے گھر کے حالات کا رونا رو رو کے اسی سے ہمدردی جتاتے ہو۔ میں سر جھکا کے ماں کی باتیں سنتا رہا۔ مجھے نعمت کو پاکر ماں کی محبت کے سائبان کے بغیر جینا بھی منظور نہ تھا۔ مگر میرا خواب تھا کہ میں ماں کی سوچ بدل کر اسے خوش دیکھنا چاہتا تھا کیونکہ میں نے سنا تھا کہ جس گھر میں عورت خوش نہیں ہوتی اس گھر کے دروازے پر خوشیاں کبھی دستک نہیں دیتیں۔ اسکی سوچ بدلنے کی کوشش کرتے کرتے میں تھک چکا تھا۔ اسلئے نعمت کو ماں کے غضب سے بچانے کے لئے اس مسئلے کا صرف ایک حل میرے ذہن میں آیا۔ ایک دن اپنے ہونٹوں پر بناوٹی مسکراہٹ سجا کر ماں کی بڑی خوشامد کی۔ اسکے پیروں کی مالش کرتے کرتے شادی سے ایک مہینہ پہلے منا ہی لیا۔ وہ اس شرط پر راضی ہوئی کہ بہو جہیز کی کوئی چیز لائے یا نہ لائے مگر اسے میرے لیے سونے کے کنگن لانے ہی پڑینگے ۔ ہاں ماں میں اس بارے میں نعمت کے بابا سے بات ضرور کروں گا۔ میں نے بھی ماں کی ہاں میں ہاں ملائی۔ ماں دھیرے سے مسکرائی اور مجھے گلے لگا کر کہا مگر بیٹا کنگن ہلکے پتلے نہیں بلکہ وزن دار اور نئے ڈیزائن کے ہونے چاہئیں۔ ہاں ماں ضرور میں نعمت سے بھی اس بارے میں بات کروں گا۔ میں نے ایک بار پھر ماں کو یقین دلاتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد ماں کا موڑ ٹھیک ہوا اور وہ خوش رہنے لگی۔
مہینے کی پہلی تاریخ کو بڑے منفرد طریقے اور میرے من کے مطابق میری شادی ہوئی۔ نہ ساز سنگیت نہ سجی سجائی گاڑیوں کا قافلہ نہ نوٹوں کے ہار اور نا ہی باراتی۔ ایک سادہ سی گاڑی میں دلہن بن کر نعمت میری بغل میں بٹھائی گئی۔ پھر ہمارے درمیان آہستہ آہستہ مگر تفصیل سے باتیں ہوئیں۔ گھونگھٹ اٹھاتے ہوئے ماں بڑی بیچین نظر آرہی تھیں۔ گھونگھٹ اٹھاتے ہی نعمت نے ماں کی کلائیوں میں سونے کے وزن دار کنگن پہنائے۔ ماں کی خوشی دیدنی تھی۔ اُس نے آج نعمت کو دل سے قبول کر لیا دوسرے دن ولیمے میں آئی ہوئی ہر عورت سے مبارک وصول کرتےکرتے اور سونے کے کنگن دکھاتےہوئے کہہ رہی تھی کہ میری بہو کتنی معصوم اور پیاری ہے میں تو بڑی خوش قسمت ہوں مجھے بھی تو ایسی ہی بہو کی تلاش تھی۔
وہ جو خواب تھے میرے ذہن میں نہ میں کہہ سکا نہ میں لکھ سکا
کہ زبان ملی تو کٹی ہوئی کہ قلم ملا تو بِکا ہوا
���
پہلگام اننت ناگ
9419038028