میں اپنے سر کو دونوں ہاتھوں کے درمیان دبا کر آنکھیں بند کئے دن بھر کے مناظر کو یاد کرکے لرز رہا تھا تو پیچھے سے آواز آئی ، اے اٹھ کمینے! کھانا کھائو۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو لوہے کے دروازے پر ایک سپاہی کھانے کی تھالی میری طرف دھکیلتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ میں بے بس ہوکر اسے صرف دیکھتا رہا۔ من میں آیا کہ اسے کہہ دوں کہ تھوڑا سا زہر لاکر دو وہی بہتر رہے گا۔ سپاہی واپس چلا گیا تو میں نے دوبارہ اپنی آنکھیں بند کیں اور منہ موڑ کے سر کو جھکا کے بیٹھ گیا۔ جوں جوں وقت گزرنے لگا میرے لئے رات بھاری ہونے لگی۔ کھانا کھائے بغیر ہی رات کے نہ جانے کس پہر میری آنکھ لگ گئی کہ صبح تک بالکل ہوش نہ رہا۔ سپاہی کی آواز سے صبح میری آنکھ کھلی تو سپاہی نے کہا اُٹھ تجھے بڑے صاحب اپنے کمرے میں بلارہے ہیں۔ میں سر کو جھکا کر سپاہی کے پیچھے پیچھے بڑے صاحب کے کمرے میں پہنچ گیا۔ بڑے صاحب نے سپاہی کو جانے کا اشارہ کیا تو میںہاتھ جوڑ کر بڑےصاحب کے سامنے کھڑا رہا۔سُچ اگلوانے کے سارے طریقے بالائے طاق رکھ کر تم سے جو جو سوالات پوچھوں گا تم ان کا سیدھے سیدھے اور صحیح صحیح جواب دیناتاکہ میں اپنی کاروائی مکمل کرکے فارغ ہوجائوں۔ جھوٹ بولنے کی کوشش کی تو میں تمہاری دونوں آنکھیں نکال کر رکھ دوں گا۔ بڑے صاحب نے میز کی اُس طرف سے میری طرف ڈنڈا مارتے مارتے اپنا ہاتھ پیچھے کی طرف کھینچ کر کہا۔ صاحب آپ مجھے چاہے پا تال میں بند رکھیں یا پھانسی پر لٹکایں میرے پاس سچ کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ میں نے ایک بار پھر ہاتھ جوڑ کر کہا۔تو ٹھیک ہے تو بتاؤ پھر جلدی جلدی کہ تمہارا نام کیا ہے؟ اور کہاں رہتے ہو اور یہ اتنے سارے روپے تم نے کس جگہ کس کی جیب کاٹ کر لائے؟ اور ہاں تمہاری کون سی ایسی مجبوری تھی جس سے تم لوگوں کی جیب کاٹنے پر مجبور ہوگئے؟ بڑے صاحب نے ایک ہی ساتھ مجھ سے کئ سوال پوچھے۔
صاحب میرا نام شہنشاہ ہے۔ او ہو! بہت خوب شہنشاہ! نام اپنی حیثیت کے بالکل برعکس ہے۔ بڑے صاحب نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ میں چپ ہوگیا۔ شروع ہوجاو شاباش۔ بڑے صاحب نے میری طرف سوالیہ نگاہیں ڈال کر کہا۔ صاحب نہ میری کوئی مجبوری ہے نہ ہی میں جھوٹا ہوں اور نا ہی چور ہوں۔ میں چوری کر ہی نہیں سکتا کیوں کہ میں اپنی بیوی سے بیحد محبت کرتا ہوں اور اسکی نظروں میں واقعی ایک شہنشاہ بننے جارہا تھا۔ مطلب؟ بڑے صاحب نے پوچھا۔ صاحب اپنی آنکھوں میں چاہت کا ایک سپنا بساکر گھر سے نکلنے کی نادانی کی۔ بس صاحب یہی میری خطا ہے۔ اے مشٹنڈے صاف صاف اور مختصر لفظوں میں مجھے پوری بات سناکر سمجھائو۔ تمہاری یہ فالتو کی پہیلیاں سننے کے لیے میرے پاس وقت نہیں، بڑے صاحب نے شاید مجھے ڈرانے کے لیے میز پر ایک زور دار گھونسا مارتے ہوئے کہا۔ صاحب مجھ سے غلطی ہوئی۔ میں نے ایک بار پھر اپنے ہاتھ جوڑ دیئے اور یوں شروع ہوگیا۔ جب میں تیرہ سال کا تھا تب میرے بابا کا انتقال ہوگیا۔ میں۱ور میری امی بالکل بے یارو مددگار ہوگئے۔ میں پڑھنا چاہتا تھا مگر آمدنی کا کوئی وسیلہ نہ تھا اسلئے کچھ دن کے بعد امی مجھے کسی پڑوسی کے کہنے پر پڑوس میں ہی باجی کی شاندار حویلی لے گئی اور وہیں کام پر رکھا اور اس سے وعدہ لیا کہ میرے بعد بھی اسکا خیال رکھنا۔ ۔ باجی بڑی نیک خاتون تھیں، عادتاً اور فطرتاً بڑی اچھی تھیں۔ خوبصورتی سے انہوں نے اپنے درد اور غم کو صبر کی مسکان کے پیچھے چھپا کر رکھا تھاکیونکہ کچھ سال پہلے ایک حادثے میں انکے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا۔ حویلی میں کئی ملازم تھے ان میں سے ایک الگ اور مختلف مزاج کی ایک پیاری سی لڑکی نازنین بھی تھی۔ وہ عمر میں مجھ سے تھوڑی بڑی تھی۔ وہ باجی اور انکے بچوں کا سارا کام سنبھالتی تھی۔ مانو تو باجی کی پرچھائی تھی۔
نازنین کو پہلے دن سے ہی میری دلی ہمدردی ہوئی۔ اس نے مجھے اپنا کام سکھایا اور سمجھنے میں میری پوری مدد کی۔ اس نے مجھے پھولوں کی کیاریوں، حویلی کی رسوئی، حمام، دیوان خانے ،کمروں اور غسل خانوں تک سے واقف کرایا۔ غرض کہ مجھے چپے چپے سے واقف کرایا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ہمدردی کا رشتہ مضبوط ہوتا گیا۔ میں اور نازنین حویلی میں سب سے کم عمر ملازم تھے۔ لہٰذا باجی کا دست شفقت ہم دونوں پر کچھ زیادہ ہی تھا۔ شاید مقدر نے ہم دونوں کو ملانے کے کیلئے ہی بے بس بنا کر حویلی پہنچایا تھا۔ یہ وہ عمر ہوتی ہے جب انسان صرف حال میں جیتا ہے۔ شاید صاحب باجی ہمارے دوستی کے رشتے کو بھانپ گئی تھیں کیونکہ کچھ عرصہ بعد اس نے خود تمام انتظامات کر کے میری اور نازنین کی شادی کرا دی۔ صاحب شادی کو ایک سال بھی پورا نہ ہوا تھا کہ ماں اس دنیا کو چھوڑ کر چلی گئی۔ماں کے بعد نازنین کے علاوہ میرا کوئی اپنا نہ تھا۔ مگر صاحب باجی نے کبھی مجھے ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی ۔ سال ہا سال گزرگئے ہم دونوں بھی سچے دل، ایماندار اور ہمدردی کے ساتھ اپنا فرض نبھاتے رہے۔ سردیاں شروع ہونے والی تھیں اسلئے میں حمام میں جلانے والی لکڑیاں سُکھا کر چپر میں رکھ رہا تھا کہ اچانک میں نے دیکھا کہ حویلی کے سامنے والے باغ میں با جی اور نازنین بے چینی سے کچھ تلاش کررہے تھے۔ میں گھبرا گیا اور میرا گلہ خشک ہوگیا۔ صاحب میں دوڑتے دوڑتے انکے پاس پہنچا تو پتہ چلا کہ باجی کے ہاتھ اسے انکی ہیرے کی انگوٹھی کہیں گر کر کھو گئی تھی۔ صاحب میں نے سونے کی انگوٹھی کا نام تو سنا تھا لیکن یہ ہیرے کی انگوٹھی میں نے پہلی بار سنا۔ بہر حال میں بھی انکے ساتھ انگوٹھی تلاشنے لگا۔ بسیار تلاش کے بعد وہ انگوٹھی کہیں نہیں ملی۔ بعد میں نازنین نے مجھے بتایا کہ ہیرے کی انگوٹھی بہت مہنگی اور خوبصورت ہو تی ہے ۔ کھوئی ہوئی انگوٹھی باجی کو بہت عزیز تھی کیوں کہ یہ انہیں انکے مرحوم شوہر نے شادی کے موقعے پر دی تھی۔اس دن باجی اتنی دکھی ہوئی کہ رات کا کھانا بھی نہ کھایا۔ باجی کو دکھی دیکھ کر ہم دونوں بھی دکھی ہوگئے۔ ایک دن وہ انگوٹھی نازنین کو باجی کے غسل خانے میں ملی۔ ہم دونوں انگوٹھی لے کر باجی کے کمرے کے باہر پہنچے تو باجی فوراً کمرے سے باہر نکل آئیں، میں بھی نازنین کے پیچھے کھڑا تھا۔ باجی نازنین کی ہتھیلی سے انگوٹھی لے کر انگوٹھی کو بے تحاشا چومنے لگیں۔ پھر اپنی انگلی میں پہن کر خوشی سے سرشار کافی دیر تک وہیں دروازے پر اس انگوٹھی کو تکتی رہی۔ میں نے دیکھا کہ انکے چہرے پر دھنک کے کئی رنگ آتے آتے پھیکے پڑگئے۔آ نکھین نم ہوئیں۔صاحب یہ درد وہی سمجھ سکتا ہے نا جس نے محبت کرنے والا ہم سفر کھویا ہو۔ مجھے اپنی ماں بہت یاد آئی کیونکہ بابا کے چلے جانے کا غم دل میں لیکر وہ زیادہ دن جی نہ پائی۔ صاحب وہ انگوٹھی ضرور باجی کی زندگی کی کسی حسین یاد سے جُڑی تھی کیونکہ دوسرے دن انگوٹھی ملنے کی خوشی میں انہوں نے دل کھول کر نذرو نیاز کیا۔ اسی واقع کے بعد میرے دل میں نازنین کے لئے سونے کی ایک چھوٹی سی انگوٹھی خریدنے کی خواہش پیدا ہوئی۔اُس نے مجھ سے آج تک کسی چیز کا تقاضا نہ کیا تھا مگر صاحب وہ تو زیورات کی دیوانی تھی، اسی لئے اس کے کان تو تین جگہوں پر چھیدے ہوئے تھے۔ نازنین کے ہاتھ میں پیسہ آتے ہی وہ بازار جا کر اپنے لئے کبھی پیتل کی پائل، کبھی جھمکے، چوڑیاں تو کبھی گلے کا ہار اور انگوٹھیاں خرید کر لاتی تھی۔وہ زبان سے کبھی کچھ نہ کہتی تھی مگر کہیں نہ کہیں اس کے دل میں سونے کے زیورات پہننے کی بڑی آرزو تھی۔ صاحب ہم غریب اپنی خواہشوں کو دل میں دبا دبا کر اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ ورنہ تو ہمارے دلوں میں بھی شوق آرزو اور ارمان ہوتے ہیں۔ میں نازنین کو سونے کی انگوٹھی دے کر اسے یہ باور کرنا چہتا تھا کہ میں اس سے کتنا پیار کرتا ہوں۔ لیکن میرے لیے سونے کی انگوٹھی کے بارے میں سوچنا پھر اسکی قیمت کا بندوبست کرنا مشکل کام تھا ۔ پھر بھی میں نے یہ چاہت کا سپنا دیکھ کر اسے پورا کرنے کا پکا ارادہ کرلیا۔ کل یہ زندگی رہے نہ رہے کیوں نہ میں ایک تحفہ دیتے وقت نازنین کے چہرے کی خوشی اپنی آنکھوں میں عمر بھر کے لئے قید کردوں۔ اسی غرض سے دوسرے ہی دن صبح قریب کی دکان سے مٹی کی ایک چھوٹی گلک خرید کے لایا۔ پھر وہ نازنین کی نظروں سے بچا کر گھر میں ایک محفوظ جگہ پر رکھ دی۔ مگر صاحب دل میں اس بات کا ڈر بھی پیدا ہوا کہ کہیں میرا یہ سپنا ادھورا نہ رہ جائے ۔باجی کے دل میں ہمارے لیے محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ باجی کے وجود سے تو ہمارا وجود تھا کیونکہ انکی وجہ سے ہمیں کھانا، پینا اور پہننا نصیب تو ہوتا ہی تھا اس کے علاوہ وہ اپنی مرضی سے ہمیں مہینے میں کئی بار کچھ نہ کچھ نقدی ضرور دیتی تھی۔ اس کے بعد جو کچھ باجی کی طرف سے مجھے ملنے لگا تو میں نےچپکے سے گلک میں ڈالنے کا سلسلہ شروع۔ صاحب وقت گزرنے کا احساس بالکل نہ ہوا۔ ایک ڈیڑھ سال میں گلک پوری طرح بھر گئی۔ صاحب کسی اپنے کے لیے سپنا دیکھ کر اسے پورا کرنے کے لیے ایک ایک پیسہ جوڑنے میں ایک الگ ہی احساس ہوتا ہے۔
صاحب دو دن پہلے کی رات نازنین اپنا کمبل سر کے اوپر کھینچ کر بے فکر ہو کر جب گہری نیند سوگئ تو میں نے اُٹھ کر آہستہ سے کمرے کی بتی روشن کی۔ پھر آہستہ آہستہ نازنین کے پاؤں کی طرف جا کر دھیرے دھیرے گلک کو توڑا۔ صاحب میرے سامنے گلک کےٹکڑوں کے ساتھ ڈھیر سارے دس، بیس اور پچاس روپے کےکئ نوٹ بکھر گئے۔ صاحب ایک ڈیڑھ گھنٹے کی محنت کے بعد سارے نوٹ سمیٹ کر گن لیے تو رقم پانچ ہزار روپے سے کچھ اوپر تھی۔ صاحب میں نے زندگی میں پہلی بار اکٹھے اتنی بڑی رقم دیکھی تھی۔ پھر میں نے پیسوں کے بنڈل کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر چٹائی کے نیچے رکھ دیا۔ پھر کمرے کی بتی بُجھا کر بستر پر دراز ہوگیا۔ مگر صاحب رات بھر نیند نہیں آئی کیونکہ اب میرے سپنے اور میرے درمیان بہت کم فاصلہ تھا۔
صبح اتنا خوش تھا کہ جیسے آج مجھے دنیا کی تمام دولت کا مالک بنایا گیا ہو۔ دوپہر کے بعد جب میں اپنے کام نپٹا کے آیا تو نہا دھوکر پھر دھلے ہوئے کپڑے پہن کر کھانا کھایا۔ رقم جیب میں رکھ کرایک شہنشاہ کی طرح مارکیٹ کی طرف روانہ ہوا۔ صاحب میری زندگی تو حویلی تک ہی محدود تھی، اس لئے گھر سے نکلتے وقت تھوڑا ڈر لگ رہا تھا۔ مگر ساتھ ساتھ موسم بھی بڑا حسین لگ رہا تھا۔ جگمگاتے ہوئے بازار میں چلتے چلتے میں نازنین کے لیے ہر چیز پر ہاتھ رکھنا چاہتا تھا مگر میرا مقصد کچھ اور تھا۔ کچھ دیر چلتے چلتے میں ایک سُنار کی بڑی سی دکان کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ نازنین کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آتے ہی میں نے اپنی جیب تھپتھپائی اور اس طرح میرے قدم خود بہ خود دکان کے اندر کی طرف بڑھ گئے۔ جوتا اُتار کر جیسے تیسے دوکان کا بڑا اور بھاری شیشے کا دروازہ کھول کر دکان کے اندر داخل ہوا۔ اندر کافی رش تھا۔ بہت ساری عورتیں قیمتی لباس اور زیورات پہن کر مخملی صوفوں پر بیٹھی بے فکر ہو کر اپنی اپنی پسند کے گہنے خریدنے میں مصروف تھیں۔ ٹھنڈک کے ساتھ دوکان کا اندرونی منظر کافی پرکشش اور پر رونق تھا۔ دوکان عطر کی خوشبوؤں سے مہک رہی تھی۔ ہر طرف آئینے ہی آئینے تھے۔ زندگی میں پہلی بار ایسا ماحول دیکھ کر صاحب میں بہت ہڑبڑایا۔ اس ہڑبڑاہٹ میں باہر کی طرف سے آنے والی ایک عورت سے ٹکرا گیا۔ اس نے میرے منہ پے زور دار چانٹا مار کر کہا اندھے ہو کیا؟ بدتمیز کہیں کا۔ صاحب میں خود پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا مگر میرے پاؤں چمکتے فرش پر پھسل گئے۔ میں ایک طرف گر گیا۔ گرتے ہی میرا ہاتھ ایک اور عورت کے پرس سے لگتے ہی اس نے چلانا شروع کیا۔ارے یہ تو جیب کترا ہے۔ اسے جلدی سے پکڑو! اسے جلدی سے پکڑو! صاحب دوکان کے اندر زبردست کھلبلی مچ گئی۔ مجھے گھسیٹ کے دوکان سے باہر لایا۔ میرے اردگرد بہت سے لوگ جمع ہوئے۔ صاحب میں نے اپنی جیب کو پوری طاقت سے پکڑ کر رکھا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ انہیں اپنی بے گناہی کا یقین دلا سکوں مگر انہوں نے میری ایک نہ سنی۔ کچھ منچلے لونڈوں نے مجھے درندوں کی طرح پیٹا،جیسے وہ مجھ سے کسی بات کا بدلہ لے رہے تھے ۔ صاحب مجھے بہت درد ہوا۔ اس دھکا مکی میں انہوں نے میری قمیض پھاڑدی۔ میری تلاشی لی ۔ پیسے برامد ہوتے ہی انہوں نے مجھے پولیس کے حوالے کر دیا۔ صاحب یہی ہے میری گناہوں کی داستان۔! آپ یقین کریں یا نہ کریں۔ مگراب اس یقین سے کیا حاصل۔پتہ نہیں کیوں آج کا انسان کھبی کھبی ایک ذرا سی بات پرانسانیت بھول کر درندہ بن جاتا ہے۔ بڑے صاحب نے ایک سرد آہ بھر تے ہوئے کہا۔ خیر جو کچھ ہوا اسکو میں بعد میں دیکھ لوں گا مگر تم واقعی دل کے شہنشاہ ہو۔ اس کے بعد بڑے صاحب نے میز کی دراز سے کپڑے میں لپٹے میرے پیسے میرے ہاتھ پر رکھ مجھ سے کہا فی الحال تم میرے ساتھ چلو۔ پر صاحب کہاں؟ میں نے پوچھا۔ کل والی سنار کی دوکان پر۔ پر صاحب کیوں؟ " کیونکہ مجھے بھی آج تمہارے ساتھ ساتھ ایک سونے کی انگوٹھی خرید کر گھر میں اپنی بیوی سے اظہار محبت کرنا ہے" صاحب نے جواب دیا۔
���
پہلگام اننت ناگ،موبائل نمبر؛9419038028