کئی سال سے میری چاہت تھی کہ کم سے کم ایک رات کے لیے ہی سہی کسی صحت افزاء مقام پر قیام کروں ۔ اگرچہ ایک دن کے لیے پکنک کا پروگرام ان گنت مرتبہ بنا اور گئے بھی تاہم ایسی دل فریب جگہوں پر رات کا قیام کچھ الگ ہی لطف دیتا ہے۔۔بہ ہر کیف ہم نے پہلے ہی ارادہ کر لیا تھا کہ ۱۲ اگست بروز سنیچر کو ہم سونہ مرگ جائیں گے اور سنیچر کی رات اور پھر اتوار پورے دن وہاں قیام کرکے شام کو واپس اپنے اپنے گھروں کی راہ لیں گے۔ تاہم اس پروگرام میں یہ مسئلہ بنا کہ اس دن متحدہ حریت قیادت نے ہڑتال کی کال دی تھی۔وجہ یہ تھی کہ ریاست جموں و کشمیر کو آئین ہند کے ارٹیکل 35 A کے تحت جو خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں اس کو ختم کرنے کے لیے فرقہ پرست جماعت بی جے پی ایڈی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ چوں کہ اس جماعت کو اس مرتبہ پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہے اور ہندوستان کی بیشتر ریاستوں میں اس کی حکومت قائم ہے لہٰذا اس کے حوصلے کافی بلند ہیں۔ مزید ریاست جموں و کشمیر میں بھی اس نے مقامی پارٹی پی ڈی پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی ہے ۔ کہنے کو تو اس کولیشن کی قیادت محبوبہ مفتی کررہی ہے اور وزارت اعلیٰ کی کرسی پر متمکن ہے تاہم منصوبے بی جے پی بنارہی ہے اور زمینی سطح پر احکامات بھی اسی کے صادر ہورہے ہیں اور محبوبہ مفتی محض کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ہے۔ 35 A کے خلاف رچی جارہی سازش کے خلاف احتجاجی ہڑتال دی گئی اور ہڑتال کے دن سیر سپاٹے کے لیے نکلنا کچھ مناسب معلوم نہیں ہورہا تھا مگر چوں کہ پروگرام پہلے سے ہی طے شدہ تھا اس لیے بادلِ ناخواست ہمیں نکلنا ہی پڑا۔
اس دن صبح تقریباً ۱۱ بجے تک میں نجی کام میں مصروف رہا۔ کام سے فارغ ہونے کے بعد میں برادر یونس صاحب کے ہم راہ اس کے بچے محمد ہاشم کونانی ہال چھوڑنے کے لیے اس کے ساتھ گیا۔ سڑکوں پر بھارتی فوج نے تاریں بچھا رکھی تھیں۔ جس کی وجہ سے عالی کدل پہنچنے میں ہمیں کافی دشواری ہوئی۔ محمد ہاشم کو وہاں چھوڑنے کے بعد ہم واپس گھر پہنچے۔ ہمیں استاد محترم ڈاکٹر شکیل صاحب کے گھر جاکران سے تعذیب پرسی کرنا تھی۔ ان کی والدہ محترمہ دو روز قبل اس دنیا سے رحلت فرما چکی تھیں۔ یونس صاحب کے والد صاحب ہمارے ساتھ بائیک پر ڈاکٹر صاحب سے تعذیت پرسی کرنے کو آئے۔ وہاں تھوڑی دیر بیٹھ کر اور اُن سے تعذیت پر سی کرکے ہم واپس گھر آئے۔ پہلے ہم نے نماز ظہر اداکی اور اس کے فوراً بعد نکلنے کا پروگرام بنایا تھا تاہم اس میں بوجہ دیر ہوگئی۔۔ میرے چھوٹے بھائی نے کسی کام سے گاڑی لی تھی اوردو بجنے کو تھے لیکن وہ ابھی تک نہیں آیا تھا۔ ۔ میں نے اسے فون پر کہا کہ ہمیں نکلنے میں دیر ہوررہی ہے لہٰذا وہ جلدی آئے ۔ اس نے کہا ؛ کہ بس وہ آیا ہی چاہتا ہے۔۔ میں نے باقی برادران کو بھی آگا ہ کیا۔اس دوران ہم نے سفر کے ضروری لوازمات کو پورا کرنے کی طرف توجہ کی اور پنے کپڑے، کھانے پینے کی اشیاء کو تیار رکھا۔
تقریباً تین بجے راقم اپنے اور دو ساتھیوں محمد یونس اور ماجد خان کے ہم راہ پہلے سلیم شاہ صاحب کے گھر واقع زکورہ جانے کے لیے گاڑی (maruti car) میں سوار ہوگیا۔سلیم شاہ دو سال قبل فتح کدل سے زکورہ منتقل ہوگئے ۔ وہ فون پر فون کیے جارہے تھے کہ کافی دیر ہوگئی آپ لوگ زکورہ کب پہنچیں گے ۔۔؟؟ قریباً 3:45 pmپر ہم زکورہ پہنچے ، دیر ہونے کی وجہ سے سلیم صاحب بڑے غصے میں تھے ۔ کسی طرح ہم نے ان کا غصہ ٹھنڈا کیا۔ بالآخر ہم چاروں( محمد یونس، محمد سلیم شاہ، ماجد خان اور راقم سطور) سونہ مرگ کی طرف محوسفر ہوگئے۔ناگبل کے قریب پہنچ کر SOGکی ایک ناکہ پارٹی نے ہمیں گاڑی روکنے کا اشارہ کیا ۔ ہم رک گئے۔ ایک غیر ریاستی پولیس والے نے جو ٹوٹی پھوٹی اردو میں بات کررہا تھا ،ہم سے مخاطب ہوکر کہا؛ کدھر جارہے ہو۔۔؟؟ ہم نے اس سے کہہ دیا کہ سونہ مرگ جارہے ہیں ۔ اس پر وہ گویا ہوا کہ ’’ اگر یہ افرا تفری کاماحول، سیاسی غیر یقینیت اور مسئلہ ختم ہوجائے تو ہم بھی پُر سکون زندگی گزار سکیںگے‘‘۔ اس کی باتوں سے محسوس ہورہا تھا کہ اسے ہمارا تفریح کو جانا پسند نہیں آرہا تھا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے ہی وطن میں اجنبی بنائے گئے ہیں ہندوستان سے آنے والا ینم فوجی اہل کار ہم سے ہماری شناخت پوچھتا ہے اور غیر ضروری طور سوالات کرتا ہے۔ اس چیز نے واقعی ہماری زندگی جہنم بنا دی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس عذاب سے نجات دے۔ آمین۔بہر حال پولیس والے نے ہمیں جانے کا اشارہ کیا توہم وہاں سے آگے بڑھ گئے۔
پرُمزاح باتیں کرتے ہوئے جانب منز ل تھے، ماجد بھائی بڑے آرام سے اور ڈھنگ سے گاڑی چلاتے رہے۔ گاندربل، کنگن سے ہوتے ہوئے ہم گنڈ پہنچے۔ گنڈ میں ہم تھوڑی دیر اپنی گاڑی سے باہر نکلے تاکہ کچھ کھانے پینے کا سامان خریدیں۔ چند سبزی دکانوں کا معائنہ کرکے جب کچھ بھی مناسب چیزیں نہ ملیں تو ہم نے وہاں سے آگے سفر جاری رکھنے کا ہی فیصلہ کیا۔ ہم چاروں گاڑی میں بیٹھ کر پھر سے جانب سفر ہوئے۔ سفر جاری رکھتے ہوئے ہم کچھ ہی دیر میں گگن گیر پہنچے۔ اس کا راستہ پہاڑیوں سے ہوتا ہوا جاتا ہے ۔ راستے کے دونوں اطراف دل فریب مناظر دیکھنے کو ملے۔ کوہساروں کی رعنائی دل کو چھو لیتی ہے۔ میں قدرت کی اس کاری گری کو دیکھ کر حیران رہ گیا اور میرا ذہن اس نکتہ کی طرف متوجہ ہوا کہ جس صانع کی یہ صناعی ہے وہ خود کتنا خوب صورت ہوگا۔فتباک اللہ احسن الخالقین۔واقعہ یہ ہے کہ سر سبز پہاڑوں کا سلسلہ نہایت دل کش منظر پیش کررہا تھا اس پر مستزادیہ کہ بہاڑوں پر سورج کی کرنیں ، دھوپ چھائوں کی عجیب وغریب تصویر پیش کررہی تھیں جس کو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے الفاط میں اسے بیان کرنا مجھ ناچیز کے لیے نہایت مشکل ہے۔ سونہ مرگ کے مرکزی مقام اور مارکیٹ سے کچھ فاصلہ پہلے ایک مقام پر ہم نے نمکین چائے نوش کی۔ تیز جھرنے کے کنارے نون چائے کی چسکیاں کچھ الگ مزا دے رہی تھیں۔
بالآخر ہم نے تقریباً 6:30 pmبجے سونہ مرگ کے مرکزی بازار میں قدم رکھا۔وہاں پہنچنے کے بعد ہماراہم مسئلہ رہائش(accomodation) کا تھا کہ رات کس ہوٹل میں گزاریں گے۔؟ اللہ تعالیٰ نے یہاں پر بہت کرم کا معاملہ کیا ۔ ہوا یوں کہ ہمارے برادر سلیم شاہ صاحب سیول سیکریٹریٹ میں اس وقت وزیر مالیات(finance minister) حسیب درابو کے personal assistant کے طور اپنا مفوضہ کام انجام دے رہے ہیں اس وجہ سے ان کا رابطہ حکومت وقت سے جڑے مختلف شعبوں(departments) کے اعلیٰ عہدہ داروں سے رہتا ہی ہے۔ لیکن سلیم صاحب کا مزاج آزادانہ ہے، کسی اعلیٰ آفیسر سے کوئی ذاتی کام کرانے میں ان کی فطرت اِبا کرتی ہے۔ ذاتی معاملے میں کسی اعلی عہدہ دا ر سے سفارش کرانے سے گریز ہی کرتے ہیں۔ تاہم جب ہم نے دیکھا کہ شام ہونے والی ہے سورج آہستہ آہستہ فلک بوس بہاڑوں کی اوٹ میں غروب ہورہا تھا تو ہم نے سلیم صاحب سے کہا کہ جلدی کچھ کرنا چاہیے۔ سلیم صاحب نے نہ چاہتے ہوئے بھی مسٹر سرور صاحب، جو کہ sonamarg development authority کے cheif exective officer ہیں ،کو فون کیا انہوں نے بغیر کسی پس و پیش کے متعلقہ آفیسر مسٹر بشیر احمد سے ہمیں جگہ فراہم کرنے کو کہا جنہوں نے ہماری توقع سے بڑھ کر ہماری خاطر مدارت کی اور تھاجواس گلیشئر(thajwas glacier) کے دامن میں واقع پُر تعیش کلب sonamarg clubمیں ہمارے لیے ایک رات ٹھہرنے کا انتظام کیا۔ رات گزارنے کا مسئلہ حل ہونے کے بعد ہم نے راحت کی سانس لی اور طے کیا کہ کچھ دیر fishing parkمیں boating کا مزا لیں گے۔ برادرم سلیم صاحب کی وساطت سے ہم نے وہاں تقریباً آدھے گھنٹے تک مفت نائو سواری کی ۔ نائو سواری سے بہت محظوظ ہونے کے بعد جوں ہی ہم پارک سے نکلے تو مرکزی مارکیٹ میں قائم جامع مسجد کے مناروں سے مغرب کی آذان کی آواز آرہی تھی ۔ اس وقت ہمیں قدرے ٹھنڈ محسوس ہورہی تھی۔ ہم نے مسجد میں ہی وضو بنا یا اور یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ اگست کے مہینے میں مسجد شریف کا صفہ چل رہا تھا اور لوگ اپنے جسموں کو گرم کررہے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں سردیوں میں کیا حال ہوتا ہوگا۔ ہم نے نمازِ مغرب ادا کی اور بازار سے ضروری سامان خرید کر تھاجواس گلیشئر کی اور چل پڑے۔
دیر رات گئے ہم سونہ مرگ کلب پہنچے ،وہاں موجود منتظمین سے سلیم صاحب نے اپنا تعارف دیااور سرور صاحب سے ان سے بات کرائی۔سونہ مرگ کلب کے ایک صاحب ہماری گاڑی میں بیٹھ کر دوسری کسی ہٹhut کو دکھانے کے لیے ہمارے ساتھ آئے، جہاں ہمیں رات کو قیام کرنا تھا۔ ہٹ بہت خوب صورتی سے بنائی گئی تھی وہاں اگرچہ بجلی کا انتظام تھا تاہم اس وقت بجلی کی ترسیل کسی وجہ سے بند پڑی تھی۔ رات کا وقت تھا اس لیے وہ بجلی کو بحال بھی نہیں کرسکتے تھے۔ لہٰذا ہمیں واپس سونہ مرگ کلب آنا پڑا۔ سونہ مرگ کلب میں ہی قیام ہمارے حق میں بہتر رہا۔ سونہ مرگ کلب کو باہر سے دیکھنے پر معلوم ہورہا تھا کہ اسے انگلستانی فنِ تعمیر کے طرز پر بنایا گیا ہے۔ بڑا صحن جس میں گاڑیوں کی پارکنگ کے لے مناسب انتظام۔ ہم کلب کے اندر داخل ہوئے تو ہماری حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ اس کو کتنا دیدہ زیب بنایا گیا ہے۔دیواروں پر خالص اعلی سطح کی لکڑی لگا کر پنلنگ کی گئی ہے۔ چھت پر جو پنلنگ کی گئی ہے اس کی ڈیزائنگ بھی کمال کی ہے۔ مذکورہ کلب کو وسیع رقبہ پر بنانے کے باوجود اس میں صرف دو bed roomsہیں ۔چوں کہ’’ طبقہ اشرافیہ‘‘(VVIPS) اور باہر سے آنے والے خاص سیاحوں کے لئے اس کلب کو بنایا گیا ہے لہٰذا اس میں تعیشات کے تمام سامان بہم رکھے گئے ہیں۔ سنوکر،ٹیبل ٹینس، ورزش کرنے کی جدید مشینیں وہاں موجود تھیں ،تھوری دیر ہم بھی ان چیزوں سے متمتع ہوئے۔ہم نے رات کا کھانا وہیں پر کھایا اور پھر اپنے کمروں میں گئے۔ جیسے کہ عرض کیا جاچکا کہ اس کلب میں دو ہی bedrooms(جو بڑے ہی عالی شان اور جاذب نظر ) ہیں ،دونوں ہمارے مہیا رکھے گئے۔
اتوار کی صبح اپنے ہی کمرے میں فجر کی نماز باجماعت ادا کی اس کے بعد برادر یونس اور برادر ماجد چائے لانے مرکزی مارکیٹ اپنی گاڑی میں گئے۔ تب تک بھائی سلیم اور راقم قدرت کا نظارہ اور روح و جسم کو نئی زندگی بخشنے والی ٹھنڈی ہوا کا لطف لینے باہر چلے گئے۔ نزدیک سے’’ تھا جواس گلیشئر‘‘ سے اٹھنے والی یخ بستہ ہوائیں پورے وجود کو جلا بخش رہی تھیں۔طلوعِ آفتاب کی ابتدائی شعاعیں برف پوش پہاڑوں پر پڑ کر اس قدرحسین منظر پیش کررہی تھیں جسے الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جاسکتا ۔اسی اثنا میں یونس بھائی اور ماجد بھائی واپس آئے اور ہم کلب کے ایک شاندار کمرے میں نمکین چائے پینے میں مشغول ہوئے۔ چائے کا مزہ لینے کے ساتھ ساتھ کچھ سلگتے مسائل پر بھی خوب گفت و شنید ہوئی۔ تقریباً دس بجے ہم کلب سے نکلے تاکہ وہاں کئی اور جگہوں کو دیکھ سکیں۔کافی دیر پیدل چلتے ہوئے ماجد بھائی کی ہمت جواب دینے لگی، ہم نے اپنی طرف سے انہیں حوصلہ دینے کی کوشش کی پر تھوڑی دیر اور چل کر انہوں نے مزید سفر جاری رکھنے سے صاف انکار کردیا ۔ جس کی وجہ سے ہمیں گھوڑوں پر بیٹھ کر باقی سفر کرناپڑا۔ ہم نے اچھی خاصی رقم گھوڑے والوں کو دیکر گلیشر کی جگہ پر کچھ تصایر لیں اور واپسی کا سفر گھوڑوں پر ہی طے کیا۔ایک جگہ چھوٹی چھوٹی نہریں بہہ رہی تھیں جن میں پانی بھی کافی آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا ۔ یہی چھوٹی چھوٹی نہریں آگے جاکر کسی جگہ مل جاتی ہیں اور ایک بڑی نہر وجود میں آجاتی ہے جس میں پانی کا بہائو بھی ایسا تیز ہوتا ہے کہ بھاری بھرکم چیزوں کو بھی یہ خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتی ہے۔دعوت و تبلیغ کے نقطہ نظر سے دیکھیں جو افراد،تنظیمیں اور جماعتیں جس سطح اور جس شعبہ ٔ زندگی میں کام کرتی ہیں ،اگر بظاہر محسوس ہو کہ ان کی سرگرمی سے معاشرے میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہورہی لیکن اگر یہ سب جماعتیں اور تنظیمیں آپسی اتحاد اور تعاون کا مظاہرہ کریں تو یہ اسی طرح نتیجہ خیز ثابت ہوں گی جس طرح یہ چھوٹی چھوٹی ندیاں آپس میں مل کرایک ایسی ندی وجود میں لاتی ہیںجو بڑی مؤ ثر اور کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ میں اسی سوچ میں گم تھا کہ گھوڑوں پر سوار ہم آہستہ آہستہ ،ہولے ہولے اپنے پڑائو تک پہنچ گئے۔ ہم نے پہلے ہی طے کیا تھا کہ دوپہر کا کھانا کسی کھلی جگہ پر کھائیں گے۔ لہٰذا ہم نے سونہ مرگ کلب کے منتظمین کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے بہترین اندازمیں ہمارے آرام کا خاص خیال رکھا ۔ ایک مقام پر اگر چہ ہمیں اپنی من پسند جگہ ملی ، لیکن وہاں کافی بھیڑ تھی تاہم ہم قدرے علیحدہ جگہ منتخب کرنے میں کامیاب ہوئے۔ تیز ہوا کی وجہ سے گیس سلینڈر نہیں چل رہا تھاجس سے ہمیں سالن گرم کرنے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا ۔ اللہ کے فضل اور یونس بھائی اور ماجد بھائی کی جی توڑ محنت کے بعد سالن اچھی طرح گرم ہوا اور ہم نے مزے سے دوپہر کا کھانا تناول کیا۔ اور تھوڑی دیر وہا ں قیلولہ بھی کیا۔ مطلع ابر آلود ہورہا تھا ویسے بھی واپس گھر جانے کا وقت بھی آن پہنچا تھا۔ لہٰذا ہم گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی اور چل دیے۔ دیدہ زیب مناظرمسلسل طبیعت میں انبساط کی کیفیات طاری کررہے تھے۔ اور ہم لوگ اس کا حظ اُٹھانے میں ذرا برابر بھی تامل نہیں کررہے تھے۔بہ ہر حال دو تین گھنٹے میں ہم اپنے گھروں کو پہنچے اور اس طرح زندگی کا یہ یادگار اور حسین سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔جسم و روح کا رشتہ باقی رہا تو یہ سلسلہ ہر سال جاری رکھیں گے۔ان شاء اللہ۔