ریاض احمد
بارہ بنکی (اترپردیش )//کشمیر میں زراعت کا شعبہ اس قدر عوامی بے حسی کا شکار ہوگیا ہے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ کھیتی آپ کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر مشہور اور معروف بنا سکتی ہے لیکن کشمیر سے ہزاروں کلومیٹر دور اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنو کے بغل میں واقع بارہ بنکی ضلع میں ایک ایسا کسان آج بھی موجود ہےجنہیں کھیتی میں جدت لانے پرایگریکلچر لیڈر ایوارڈ کے علاوہ ملک کے چوتھےسب سے اعلیٰ ترین شہری اعزاز پدم شری سے نوازا گیا ہے۔اس ترقی پسند کسان کا نام رام سرن ورما ہے جو بارہ بنکی ضلع صد ر مقام سے چند کلومیٹر ایک گائوں میں نہ صرف اپنی وسیع و عریض پر جدید کھیتی کررہا ہے بلکہ ہزاروں کسانوںکو اپنے ساتھ جوڑ کر خوشحالی کی راہ پر گامزن کرچکا ہے ۔وکست بھارت سنکلپ یاترا کے تحت لکھنو کے دورہ پر گئے جموںوکشمیر کے صحافیوںکے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے رام سرن ورما نے نہ صرف کھیتی کے جدید طریقوں سے صحافیوں کو روبرو کرایا بلکہ انہیں جدید کھیتی کے طریقوں اور منافع بخش کھیتی کے رموز بھی بتائے۔1968میں پیدا ہوئے تعلیمی اعتبار سے مڈل پاس سرن ورما کو اپنا تعلیمی سفر ابتدائی دنوں میں ہی چھوڑ کر کھیتی کی طرف رجوع کرناپڑا جو انکا پشتینی پیشہ تھا۔بین الاقوامی سطح پر اپنی چھاپ چھوڑ نے والے اور بنانا کنگ کہلانے والے رام سرن ورما نے آج تک ایک لاکھ سے زائد کسانوںکو جدید کھیتی کی تربیت دی ہے اور وہ ملک کی بیشتر زرعی یونیورسٹیوںکا دورہ کر چکے ہیںجبکہ50سے زائد ممالک کے لوگ اب تک ان کے زرعی فارم کا دورہ کرچکے ہیں اور ہر روز ان کے فارم ہائوس کا دورہ کرنے والوں میں کمی نہیں آرہی ہے جبکہ یوپی اور دیگر ریاستوںکے کم ازکم50کسان روزانہ ان کے فارم کا دورہ کرتے ہیں۔
کامیابی کا سفر
روایتی کھیتی کے طریقوںسے تنگ آکر رام سرن ورما نے اپنی کھیتی میں جدت لانے کا فیصلہ لیا تاکہ زیادہ سے زیادہ منافع ہوسکے۔اس کیلئے انہوںنے کھیتی کی جدید تکنیکوں سے آشنا ہونے کیلئے ملک کی مختلف ریاستوںکا سفر کیا۔واپسی پر انہوںنے ایک ایکٹر پلاٹ پر کیلے کی کاشت شروع کی اور پہلے ہی سال بہت زیادہ منافع کمایا۔انہوںنے کاشتکاری رقبہ کو وسعت دی اور کیلے کے ساتھ ساتھ نقد فصلوں جیسے ٹماٹر ،آلو،گیہوں وغیرہ کی کاشت کرنے لگے۔انہوںنے کھیتی کے اختراعی طریقوںکا استعمال شروع کیا جس میں فصلوںکی تبدیلی سب سے اہم تھی۔اس کے علاوہ انہوںنے فصل میں بہتر سپیسنگ ،بہتر کھادوں اور بہتر بیج کا استعمال شروع کیا۔انہوںنے کیلوںکے کئی انواع متعارف کرائے جو روایتی کیلوں سے بڑے اور لذیذ تھے۔آج وہ اسرائیل سے ٹشو کلچر کا کیلا بیج کیلئے منگاتے ہیں۔انہیںوراثت میں 6ایکڑ کھیتی ملی تھی۔روایتی کھیتی کرتے تھے۔اب دس ایکڑ زمین اپنی ہے جبکہ آج وہ120ایکٹرکرایہ کی زمین پر کھیتی کررہے ہیں اور پوری دنیا میں اپنی فصل بھیج رہے ہیںاور50ہزارلوگوںکے روزگار کا ذریعہ بھی بن چکے ہیں۔وہ سالانہ2کروڑ سے زائد کی کمائی کررہے ہیں۔درجنوں قومی،بین الاقوامی اور ریاستی اعزازات سے نوازے جانے کے علاوہ انہیں2019میں ملک کےچوتھے سب سے اعلیٰ ترین شہری اعزاز پدم شری سے بھی نوازا گیا۔انہوںنے اپنی اختراعی صلاحیتوں اور مسلسل لگن سے لاکھوں کسانوں کو کھیتی کی طرف دوبارہ مائل کیاہے کیونکہ اس کی اختراعی کھیتی کے طریقہ میںمنافع بہت ہے۔
جدت طرازی
انہوںنے کہا ’’میں نے گیہوں چاول کی جگہ پھل و سبزی کی کھیتی شروع کی ۔کھیتی کوڈائیورسفائی کیا۔فصل چکرایسا لگایا کہ لاگت کم ہوئی اور منافع زیادہ۔پہلے کیلا لگایا ۔وہ کاٹ کر آلو لگایا۔ کوئی کھاد استعمال نہیں کی بلکہ کیلوں کے پیڑوںکی باقیات کو نامیاتی کھاد کے طور استعمال کیا۔اس سے لاگت کم ہوئی اور منافع بڑھ گیا‘‘۔ورما کا کہناتھا کہ آلو کی پیداوار قریب 300کوئنٹل فی ایکڑ ہوگی۔پھر گیہوں لگائیں گے اور پھر کوئی کھاد نہیں لگے گی کیونکہ آلو کی باقیات کو نامیاتی کھاد کے طور استعمال کیاجائے گا‘‘۔انہوںنے مزید کہا’’پہلے روایتی کھیتی سے کسانوںکی آمدنی مشکل سے دس ہزار روپے فی ایکڑ ہوتی تھی ،آج جدید کھیتی کی بدولت ٹماٹر ،تربوز ،خربوز ،شملہ مرچ ،آلو کی کاشت کی وجہ سے فی ایکڑ کمائی 2سےاڑھائی لاکھ روپےہوگئی ہے‘‘۔رام سرن ورما کا مزید کہناتھا’’ہم دس بارہ قسم کے گیہوں لگا تے ہیں ،چار پانچ قسم کا آلو لگاتے ہیں۔کوئی کھاد نہیں دیتے ہیں۔سبز کھاد یعنی فصلوںکی باقیات سے بننے والی نامیاتی کھاد استعمال ہوتی ہے‘‘۔وہ کہتے ہیں’’گیہوں کی پیداوار اب 65سے70کوئنٹل فی ہیکٹر ہے ۔ پہلے یہ30سے
35کوئنٹل تھی۔فی ہیکٹرگیہوں کی آمدن 80سے90ہزار روپے ہے۔اسی طرح کیلے کی آمدن قریب 3سے3.5لاکھ روپے ،آلو کی ایک سے سو الاکھ روپے،ٹماٹر کی2سے اڑھائی لاکھ روپے فی ایکڑ ہے‘‘۔انہوں نے بتایا کہ کھاد بچا کر لاگت کم ہوئی ،فصل میں اضافہ بھی ہوا اور یوں دو طرح سے آمدنی بڑھ گئی۔
۔1000خاندان جڑے
انہوںنے بتایا کہ وہ 32سال سے کھیتی کا کام کررہے ہیںاور اس وقت 350ایکڑ پر کاشت کررہے ہیں کل ملاکرباقی کسانوںکے ساتھ ۔انہوںنے کہا کہ’’ منافع کسانوں میں برابر تقسیم ہوتا ہے۔3سے 4تحصیلوں میں کھیتی کررہے ہیں اوربراہ راست اور بالواسطہ 1000کنبوںکو اس کھیتی سے روزگار مل رہا ہے جبکہ50ہزار لوگ اس کھیتی سے جڑے ہوئے ہیںجو ان کی سربراہی میں جدید کھیتی کررہے ہیں‘‘۔انکاکہناتھاکہ آج مشرقی یوپی کے قریب50ہزار کسان جڑے ہوئے ہیںاورایک سال میں قریب 1
ہزارگھرانوںکو روزگار دے رہے ہیں۔
کشمیری کسانوں کو مشورہ
پدم شری ایوارڈ یافتہ رام سرن ورمانے کشمیری کاشتکاروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ موسم کے لحاظ سے اختراعی حکمت عملی کے تحت کاشتکاری کریں تاکہ موسم صورتحال کے دوران جو بہتر پیداواری فصل ہوگی اس پر توجہ دی جاسکے ۔ انہوںنے کہا کہ ہمیں صرف ایک قسم کی فصل پر توجہ نہیں دینی چاہئے بلکہ نئے نئے طریقے سے مختلف فصلوں کو اُگانے کی کوشش کریں ۔ ورما نے کشمیری کاشتکاروں اور کسانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ زرعی سیکٹر میں نئے تجربات کرتے ہوئے آگے بڑھیں ۔ انہوںنے بتایا کہ روایتی کاشتکاری سے ہٹ کراختراعی پالیسی اختیار کریں ۔ انہوں نے بتایا کہ ہم موسم کے لحاظ سے اُسی فصل پر زیادہ توجہ دے سکتے ہیں جو زیادہ پیداوار دے سکتی ہے ۔ ورما نے کہا کہ کشمیر کے کسانوں کو سرد موسم کی فصلوں پر توجہ دیتے ہوئے تنوع پر خصوصی توجہ دینی چاہیے ۔ ورماکہا کہ ایک کسان چار اقسام کی مختلف فصلیں اُگائے گا جو کہ موسمی کاشتکاری ہوگی تو اگر موسم کی صورتحال کی وجہ سے ایک فصل میں نقصان ہوگا تو دیگر تین فصلوں سے فائدہ ملے گا ۔ انہوںنے بتایا کہ کشمیر زر خیزعلاقہ ہے جہاں کی مٹی سونا دے سکتی ہے لیکن اس کیلئے نامیاتی اور غیر روایتی ذرائع استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ انہوںنے بتایا کہ موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ کاشتکاری کے تجربے کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے بتایا کہ مختلف اقسام کی کھاد اور دوائیاں استعمال کرنے سے زرعی اراضی کو نقصان پہنچتا ہے اس لئے نامیاتی طریقہ کار ہی بہتر ہے ۔انکا کہناتھا کہ انہوںنے وہ پیڑ سے بچوں کی طرح پیار کرتے ہیں۔پیڑوں سے باتیں کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں’’میں نے پودے سے ہی سیکھا ہے اور سیکھتے گئے اور آگے بڑھتے گئے‘‘۔