موجودہ گلوبل ورلڈ میں ہر کوئی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی سے بھرے نظامِ زندگی سے اس طرح منسلک ہوگیا ہے کہ اس کے بغیر زندگی کا تصور کرنا محال ہے۔ زندگی کا ہر ایک حصہ ٹیکنالوجی سے منضبط ہو گیاہے۔آج کا انسان زیادہ سہولت پسند اور عیش و عشرت کا طلب گار بن گیاہے۔ ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا رجحان سماج کے کسی ایک طبقے تک محدود نہیں بلکہ اس نے انسانی زندگی کے ہر ایک شعبے کو اپنی لپیٹ میںلیا ہوا ہے۔ موبائیل اور اسمارٹ فونز کی وجہ سے نہ ہی دنیا کے کسی بھی کونے سے اپنوں پرایوں سے سیکنڈوں میں بات کی جاسکتی بلکہ روبرو شکل و صورت کے ساتھ ہم کلام ہوا جاسکتا ہے۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے تعلیم و تربیت گھر بیٹھے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ موجودہ وقت کا ترقی یافتہ انسان اس کرۂ ارض کا تقریباََہر ایک ذریعہ استعمال کررہا ہے۔ سماجی رابطہ کی ویب سائٹس سے اپنے دوستوں سے چوبیسوں گھنٹہ رابطہ قائم کئے ہوئے ہے۔دنیا کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار بنا کسی محنت کے کئے جاسکتے ہیں لیکن اس کے بالمقابل جہاں ٹیکنالوجی کو آسانی و سہولیات بہم پہنچانے کا آلہ سمجھا جاتا ہے ، وہیں اس کے غیر ضروری استعمال سے زندگی اجیرن بن گئی ہے ۔ قانون قدرت ہے کہ ایک مشکل رفع کرتے ہوئے دوسری مشکل اپنا سراُبھارتی ہے۔ چناںچہ ذاتی طور اپنے قرابت داروں کا خیال کرنے کے بجائے اب اس کا حق ایک SMS ٰیا فون کال کرنے سے سار احق رسماً ادا کیا جاتاہے۔نتیجہ یہ کہ سماجی رابطہ اور جسمانی کسرت محض نام کی چیز رہ گئی ہے ۔سماجی رابطہ کی ویب سائٹس پر آن لائن ایسے تعلقات بھی جڑ جاتے ہیں، جن کا نہ کوئی معنیٰ ہوتا ہے نہ کوئی نتیجہ، بلکہ بساا وقات وہ بہت ساری ذہنی بیماریوں کا باعث بن جاتے ہیں۔
دنیا کے بدلتے حالات کے تناظر میں انسان کو بے شک اَپ ڈیٹ رہنے کی ضرورت ہے، لیکن اُس کے لئے ایسے ذرائع کا استعمال کرنا جہاں انسان کو انفارمیشن کے بدلے دشمنی، عداوت، ذہنی تنائو ، سماجی رابطے کا سکڑائو، والدین سے دوری، بہن بھائی سے لا تعلقی وغیرہ نصیب ہو جائے وہاں انسان کو سوچنا چاہے کہ وہ کس سمت میں جارہا ہے۔ ایک نوجوان گھر میں اپنے والدین کے سامنے ظاہراََ توموجود ہوتا ہے لیکن اس کا دماغ کہیں اور سرگوشیاں کر رہا ہوتا ہے،اپنی ہی دنیا میں مگن اپنے آپ سے ہنستا کھیلتا ہے۔ ماں پاپ ترس رہے ہوتے ہیں کب ہمارا بچہ اپنی تخیلاتی دنیا سے نکل کر حقیقی دنیا میں قدم رکھے کہ ہم سے دو چار باتیں کر لے۔ ایک دوست دوسرے دوست کی توجہ کا طلب گار ہوتا ہے، لیکن دوسرا دوست سامنے بیٹھے انسان کو نظر انداز کر کے اپنے فون کی جانب کھنچا رہا ہوتا ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مارے وہ ہر کسی کا اسٹیٹس چک کر رہا ہوتا ہے، لیکن اپنی حقیقی زندگی کے تئیں اس سے جو انفار میشن چاہے تھی ،اس سے وہ بالکل ہی غافل نظر آتا ہے۔اس سلسلے میں یہ کہنا بھی حماقت ہوگا کہ سوشل میڈیا کا استعمال ہی بند کیا جائے۔ اصل میں یہ سوشل میڈیا کا ہی قصور نہیں ہے بلکہ یہ اس ذہنیت کی پیداور ہے جس سے انسان یہ سمجھ بیٹھا کہ سوشل میڈیا کے استعمال سے میں بالکل ہی سوشل ہو گیا۔ وہی دوسری طرف اکثر صارفین کا سوشل میڈیا کا استعمال انفارمیشن کے لئے نہیں بلکہ تفریح و ٹائم پاس کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہے کہ سوشل میڈیا پر انسان کا برتائو کئی گنا زیادہ اِس سے مختلف ہوتا ہے جس کا مظاہرہ وہ حقیقی یا عملی زندگی میں کرتاہے۔ ان حالات و کوائف کے ساتھ سوشل میڈیا کا ایسااستعمال کہ انسانی رشتے رابطے متاثرہوں، یہ تہذیب انسانی کے لئے انتہائی نہایت ہی بد شگونی ہے۔ صارف کو پہلے یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال وہ کن مقاصد کی خاطر کر رہا ہے۔ اگر وہ مقصد کسی اور ممکنہ ذرائع سے پورے نہیں ہوتے تو ہی اس سے سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چاہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ سوشل میڈیا سے عوامی ردِ عمل کو ترتیب و تلخیض کی جاسکتی ہے لیکن اس کے لئے بھی دن میں ایک گھنٹے سے زیادہ وقت کا لگانا معیوب ہے۔اپنے وقت کا صحیح استعمال کر کے انسان کو سوشل میڈیا کا استعمال اپنے اور دوسروں کے مفاد کی خاطر کرنا چاہے۔ چنانچہ سوشل میڈیاکی وساطت سے غائبانہ دنیا میں بسا اوقات ایک دوسرے کو سمجھنے میں غلط فہمیاں یا خوش فہمیاںبھی لا حق ہو جاتی ہیں ۔ انسان ایک بات کہنے کا مقصد رکھتا ہے لیکن پڑھنے والا کچھ اور ہی مطلب نکالتا ہے ، اس لئے بہتر یہی ہے کہ انسانی معاملات کو نبھانے میں حد درجہ ان ممکنہ ذرائع کا انتخاب کیا جائے جہاں انسان کا انسان سے واقعاتی دنیا میں میل ملاپ ہو۔
مغربی ممالک میں آج کل ایسے سینٹروں( counselling centers, therapy centers, social rehabilitation centers, support groups) میں اضافہ ہوتا جارہاہے جہاں سے کوئی تعلیم یا تربیت تو حاصل نہیں کی جاتی بلکہ لوگوں سے فیس وصول کرکے آپس میں بات چیت کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس چیز کو اہل مغرب سماجی روابط سکڑ نے کی مہلک بیماری کا علاج سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سماجی مخلوق ہونے کی فطرت پر پیدا کیا ہے، اگر وہ اپنی اُس فطرت سے منہ موڑ لے تو ضرور پریشانی و بیماری میں مبتلا ہوگا۔ مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں ، انہیں روزانہ پانچ وقتوں کی نمازیں اپنے ہی دوسرے بھائیوں کے ساتھ مسجد میں ادا کرنی ہوتی ہے، جہاں وہ ایک دوسرے کا حال چال بھی پوچھتے ہیں، ایک دوسرے سے محبت کا اظہار بھی کرتے ہیں اور اگر ضرورت ہو کسی سماجی خدمت میں اپنا حصہ ادا کرتے ہیں۔ اسلام میں ہمسایوں اور رشتہ داروں سے قریبی رابطہ استوار کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کی خوش خبری سناتا ہے، ایک نیک اور سچا دوست اللہ کا انعام ہے، محنت کی کمائی میں زیادہ برکت کا وعدہ دیا گیا ہے اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہنے اور کام کرنے کو کامیابی کے راز کا بتایا گیاہے ۔ اس لئے بہ حیثیت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم موجودہ دنیا کے ایجاد کردہ سوشل میڈیا جیسے نت نئے وسائل سے پیدا شدہ مسائل کا آسان شکار بننے کے بجائے حقیقت شنا سی سے کام لے کر ان سے اُسی حد تک مستفید ہو جائیں جس سے ہمارے سماجی اور کانگی روابط کی مٹھاس کھو نہ جائے ۔
رابطہ9622939998,ای میل [email protected]