اِکز اقبال
گلی میں بڑی بھیڑ تھی۔ اس نے ایک ہاتھ میں مضبوطی کے ساتھ اپنا مائک تھاما تھا اور دوسرے ہاتھ میں موبائل فون کا کیمرہ ۔ اور وہ معصوم لڑکی شہر کی اُس گلی کی بھیڑ میں اپنا چہرہ اپنے ارد گرد لوگوں سے اور اپنے اوپر تنے کیمرہ سے چھپا رہی تھی۔
’’ آپ اپنا چہرہ چھپا کیوں رہی ہے۔‘‘ اس نے مائک آگے کرکے الزام بھرے لہجے میں پوچھا۔ ’’ آپ اپنے حصے کی کہانی کیوں نہیں بتانا چاہتی۔‘‘
’’ مہ۔ میں۔۔ مجھے اکیلے چھوڑ دو۔‘‘وہ ہکلا رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں درد کے آنسوں تھے۔ ’’ میں نے کچھ غلط نہیں کیا ‘ میں بے قصور ہوں ۔‘‘
مگر وہ چلا چلا کر بول رہا تھا ، اُس نے اپنا کیمرہ اُس کے چہرے پر لگایا تھا، اُس کا لہجہ ڈراونا تھا۔ وہ لڑکی سے عجیب عجیب سے سوال کر رہا تھا ، اُسے اس لڑکی کی معصومیت شاید نظر نہیں آرہی تھی، اُسے صرف اپنی چینل کے لیے مواد چاہیے تھا ۔
آس پاس کے لوگ حیران و پریشان دیکھ رہے تھے ، وہ اُسے روکنا چاہتے تھے مگر روک نہیں پا رہے تھے۔ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے صحافت کا جنازہ اُٹھتا دیکھ رہے تھے۔
اُنکی آنکھوں کے سامنے صحافت کا گلا گھونٹا جا رہا تھا۔
وہ ابھی بھی چلا رہا تھا۔ لڑکی اپنا چہرہ چھپائے رو رہی تھی۔ اُس نے ویڈیو بنالی اور کل یہ ویڈیو وائرل ہوکر ساری دنیا دیکھنے والی ہے۔
میرے ذہن میں کئی سوال گونجنے لگے :
کیا یہی اصل صحافت ہے ؟
کیا صحافت اپنا وقار کھو چکی ہے؟
سوشل میڈیا پر خود ساختہ صحافیوں نے صحافت کے اصول کہیں اپنے پاؤں تلے روند تو نہیں دیے ہیں ؟
صحافت کو ایک عظیم اور مقدس پیشہ سمجھا جاتا ہے ۔ صحافت اتنی ہی قدیم ہے جتنی کرہ ا رض پر انسانی زندگی کی داستان۔صحافت کی داغ بیل اسی دن ڈالی جا چکی تھی جب انسان نے اپنے خیالات کو اشاروں، رنگوں ،روشنیوں اور تصویروں کی شکل میں دوسروں تک پہنچانے کی کوششوں کا آغاز کردیا تھا۔ صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے ۔
صحافی ہمیشہ سے سچائی کے پاسدار رہے ہیں۔ عوام کی رہنمائی ‘ عوامی مسائل اور نظریات کی ترویج میں صحافت کا اہم کردار ہے۔ قوموں کے عروج و زوال میں صحافت کا اہم رول ہوتا ہے۔عوامی ذہن سازی اور فکر سازی میں صحافت کے کردار کوکبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔
لیکن انٹرنیٹ اور خاص طور پر سوشل میڈیا کی آمد کے بعد صحافت کی تعریف ہی بدل چکی ہے۔ کوئی بھی شخص صحافت کے اصول و ضوابط کو جانے اور سمجھے بغیر ہی خود کو صحافی مان لیتا ہے۔ کوئی بھی شخص ہاتھ میں مائیک پکڑ کر اور موبائل یا کیمرہ اُٹھا کر کسی بھی جگہ پہنچ جاتا ہے اور بنا کسی اختیار و حق کے لوگوں کو تنگ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان خود ساختہ صحافیوں کی بھرمار ہے۔ آئے دن نئے نئے صحافی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان خود ساختہ صحافیوں نے صحافت کا معیار گرانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ صحافت کے اقدار سے بے خبر یہ خود ساختہ صحافی کہیں بھی مائک لے کر کسی کے بھی عزت و وقار کو ٹھیس پونچاتے ہیں۔
یہ خود ساختہ صحافی کسی بھی جگہ اپنا مائک اور کیمرہ لیے بنا اجازت کے پونچھ جاتے ہے ۔دکان، دفتر ‘ بازار، حتیٰ کہ گھر میں بھی گھس کر لوگوں سے ایسے سوال جواب کر رہے ہوتے ہیں جیسے پولیس بھی نہیں کرتی ۔ صحافت کے اصولوں سے بےخبر یہ کسی بھی راہ چلتے شخص کو پکڑ کر اس کی ذات کی دھجیاں بکھیرنے کے قائل ہیں اور اپنے آپ کو اس کا اہل سمجھتے ہیں۔
ان عناصر کے لیے ’’صحافی‘‘ کا لفظ استعمال کرنے پر شرم آتی ہے۔ ہاتھ میں مائک لیے چلا چلا کر بات کریں گے لیکن خود کا یہ حال ہے کہ صحافت کے بنیادی اصولوں تک کی پاسداری کا رواج نہیں۔ بعض خوشامد کی معراج پاگئے اور بعضوں سے بھانڈ بھی شرمندہ ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایسے کچھ خود ساختہ صحافی بھی ریٹنگ لے رہے ہیں جو صحافتی زبان تو دور کی بات ‘ درست زبان بھی نہیں بول پاتے ، بلکہ نازیبا الفاظ اور غیر شائستہ زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ اخلاقیات اور اصول کا دامن چھوٹ جائے تو صحافتی اقدار اور معیار پاؤں تلے روند دیے جاتے ہیں ۔
بات یہ بھی سچ ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے کچھ با شعور پڑھے لکھے نوجوان بھی صحافت کی طرف راغب ہوئے اور اپنی صلاحیتوں سے صحافت کے معیار کو بلند کیا ہے۔ یہ اصول پسند صحافی ‘ گرچہ بہت کم ہے ‘ ،فلاح و بہبود اور عوامی مسائل کے حل میں اپنا کلیدی کردار انجام دے رہے ہے۔ مگر دوسری جانب خود ساختہ صحافی چلا چلا کر اور اپنا گلا پھاڑ پھاڑ کر صحافت کو بدنام کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ یہ خود ساختہ صحافی لوگوں سے عجیب و غریب سوال کر کے اپنے ویوز ( Views ) بڑھانے کے چکر میں ہوتے ہیں ۔یہ لوگ سستی اور فوری شہرت کے لیے رائی کا پہاڑ بنانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی کے کردار کی دھجیاں بکھیرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ قصور صرف ان خودساختہ صحافیوں کا ہی نہیں ہم قارئین اور ناظرین کا بھی ہے جو سچ اور حق پر مبنی خبروں کی بجائے چٹ پٹی مصالحے دار اور فحش خبروں کو زیادہ دیکھتے اور پسند کرتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہیں کہ صحافت کے اصول اور اقدار کی پاسداری کا ہر لحاظ خیال رکھا جائے۔ صحافی صحافت کے اصول و قواعد کی پاسداری کرتے ہوئے ایک صالح معاشرے کی تعمیر و تکمیل میں معاون بنے اور معاشرتی ناہمواریوں کو مٹانے میں اپنا احسن کردار اداکرے۔ ملک و قوم کے مفادات کوپیش نظر رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ صحافیوں کے زبان و قلم سے نکلے ہوئے الفاظ سے جہاں قوم کی تقدیر سنور سکتی ہے وہیں بگاڑ اور خرابی کا احتمال بھی لگا رہتا ہے۔ اسی لئے صحافیوں کو غایت درجہ احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔صحافت کی ذمہ داریوں کواللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت سمجھ کر اسے احسن طریقے سے اداکریں تاکہ روز قیامت اللہ کے حضور شرمندگی سے بچا جاسکے۔صحافی قلم و زبان کی اہمیت کو سمجھیں اس کی حرمت و عصمت کا پاس رکھیں اور خیال رکھیں ۔ لوگوں کی عزت کی حفاظت کریں ۔ کسی کے بھی کردار پر کیچڑ اچھالنا بند کریں ۔
حکومت ‘ سوشل میڈیا کے ایڈمنز اور صحافی برادری کو اس سلسلے میں کچھ قوانین بنانے چاہیے تاکہ یہ خود ساختہ صحافی کسی کی زندگی تباہ نہ کر سکیں۔ کسی بھی سوشل میڈیا اکاونٹ، چینل یا پوسٹ پر چیک اینڈ بیلنس ہونا ضروری ہے۔ اگر ارباب اختیار و اقتدار اس کام سے قاصر ہیں تو کم از کم ہمیں ایسے کسی بھی شخص کی رپورٹ کر کے اسے بلاک کروانے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔
صحافی ہو گیا مرحوم ‘ صحافت مر گئی کب کی
قلم اب جرأت اظہار رائے کو ترستا ہے
( مضمون نگار، مریم میموریل انسٹیٹیوٹ قاضی آباد میں ایڈمنسٹریٹر ہے)
رابطہ 7006857283
[email protected]