سبدر شبیر
رات کی تنہائی، کمرے کی خاموشی اور ایک روشن اسکرین۔ یہ آج کے نوجوان کی روحانی حقیقت ہے۔ جہاں دنیا سوتی ہے، وہاں ایک اور دنیا جاگتی ہے ۔ انسٹاگرام کی کہکشائیں، ٹک ٹاک کے جلوے، فیس بک کی نمائشیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں جذبات بھی تصویری فریم میں قید ہو جاتے ہیں اور حیا جیسے لفظوں پر صرف شاعری کی جاتی ہے۔
سوشل میڈیا کو ہم نے ابتدا میں ایک ذریعہ سمجھا تھا،معلومات حاصل کرنے کا، دنیا سے جڑنے کا، سیکھنے اورسکھانے کا۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ ہماری ذات پر، ہمارےاقدار پر، اور ہمارے دل و دماغ پر قابض ہوتا گیا۔ اب یہ ایک آئینہ ہے، مگر اس میں حقیقت نہیں، صرف نمائش ہے اور بدقسمتی سے اس نمائش کا سب سے مقبول رنگ ’’بے حیائی ‘‘بن چکا ہے۔
آج ایک نئی لڑکی اگر برقعے میں تصویر لگائے تو اسے لائک کرنے والے چند لوگ ہوں گے، لیکن اگر وہی لڑکی اگر خود کو نمایاں کرے، اپنے جسمانی خد و خال کو دکھائے تو ویوز، لائکس اور فالوورز کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا فریب ہے جو عزت کو شہرت کے نام پر نیلام کرتا ہے اور نوجوان اسے کامیابی سمجھ بیٹھتے ہیں۔
یہ محض انفرادی غلطی نہیں، بلکہ ایک اجتماعی ذہنی زوال ہے۔ سوشل میڈیا نے ہماری نگاہوں کو بے قابو کر دیا ہے۔ جس نگاہ کو قرآن جھکانے کا حکم دیتا ہے، وہی نگاہ سکرول کرتے ہوئے ہر دوسری ویڈیو میں بے حیائی کو دیکھتی ہے اور دھیرے دھیرے وہ ان مناظر سے مانوس ہو جاتی ہے۔ یہی مانوسیت پھر روحانی مردنی کا باعث بنتی ہے۔ وہ دل جو کبھی اذان پر کانپتا تھا، اب گانے پر دھڑکتا ہے۔ وہ انسان جو تنہائی میں اللہ سے بات کرتا تھا، اب انٹرنیٹ کی تنہائی میں ویڈیوز دیکھ کر جی بہلاتا ہے۔
اس بے حیائی نے صرف عورت کو نہیں بدلا، مرد بھی اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ لڑکے بھی ٹک ٹاک پر جلوہ گری کے فن میں مصروف ہیں۔ جسمانی نمائش کو ’’کانفیڈنس‘‘ کہا جاتا ہے، اور شرم کو ’’کمزوری‘‘۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں حیا ءدقیانوسی بن چکی ہے اور فحاشی آزادی۔
یہ تصور صرف دین سے ہٹنے کا نہیں بلکہ انسان کی خودی سے محرومی کا ہے۔ جب انسان اپنی عزت کو کلکس اور ویوز کے بدلے بیچنے لگے، تو وہ اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی دنیا صرف ظاہری چمک دکھاتی ہے، اصل میں یہ ایک گہری تنہائی، احساسِ کمتری اور عدم اطمینان کی دلدل ہے۔ ہم اسکرین پر جو دیکھتے ہیں، وہ لوگ اکثر دل سے ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ ہنستے ہیں، مگر وہ ہنسی پردہ ہوتی ہے اندر کی چیخوں پر۔
نوجوان نسل اس وبا ءکی سب سے بڑی شکار ہے۔ صبح کے وقت جو بچے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں، شام کو وہی بچے سوشل میڈیا پر فالوورز بڑھانے کے لیے حدیں پار کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ تبدیلی راتوں رات نہیں آئی، یہ آہستہ آہستہ ہمارے معاشرتی غفلت کے سبب پھیلی۔ والدین نے بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے موبائل تھما دیا اور خود کو بری الذمہ سمجھ لیا۔ اساتذہ نے تعلیم پر زور دیا، لیکن تربیت کو فراموش کر دیا۔ معاشرہ خاموش رہا اور سوشل میڈیا بے لگام ہوتا گیا۔
یہی بے حیائی ہمارے خاندانی نظام کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ شوہروں کی نظریں اب حلال محبت سے زیادہ ’’ریلز‘‘ پر ٹکی ہوتی ہیں۔ بیویاں دوسروں کی “glamour life” دیکھ کر اپنی زندگی سے غیر مطمئن ہو چکی ہیں۔ ماں باپ کو اپنے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں کا علم نہیں اور بچے اپنی دنیا خود تشکیل دے رہے ہیں ۔ ایک ایسی دنیا جو فریب ہے، خوشنما ہے، لیکن اصل نہیں۔
اس ماحول میں اگر کوئی بچہ حیا کی بات کرے، تو مذاق کا نشانہ بن جاتا ہے۔ اگر کوئی لڑکی پردہ کرے، تو اسے ’’اوور ریلیجیس‘‘ کہہ کر مسترد کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہی وہ ’’شرم و حیاء‘‘ہے جو انسانیت کا بنیادی جوہر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حیا ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ اور ہم نے اسے کمرشلزم کی بھیڑ میں کھو دیا۔
اس مسئلے کا حل صرف ٹیکنالوجی کو بند کرنا نہیں بلکہ دلوں کو بیدار کرنا ہے۔ ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ ہمیں حیا کو فیشن بنانا ہوگا۔ ہمیں ان نوجوانوں کو سراہنا ہوگا جو حیا، کردار اور پاکدامنی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں سوشل میڈیا پر ایسے مواد کو فروغ دینا ہوگا جو اخلاق، دین اور علم کی روشنی پھیلائے۔
اعلی حکام کو چاہیے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فحش مواد کے خلاف مؤثر پالیسی مرتب کرے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ صرف روک ٹوک نہ کریں، بلکہ محبت کے ساتھ بچوں کو سکھائیں کہ عزت صرف جسم دکھانے سے نہیں، علم، کردار اور تقویٰ سے ملتی ہے۔ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ نصاب کے ساتھ تربیت کو بھی اہمیت دیں۔ اساتذہ کو محض علم نہیں، بلکہ روشنی بانٹنے والا چراغ بننا ہوگا۔ہمیں چاہیے کہ ہر دن سوشل میڈیا پر جانے سے پہلے یہ سوچیں کہ’’کیا میں وہ دیکھنے جا رہا ہوں، جو میرا رب دیکھنا پسند کرے گا؟‘‘
یہ ایک ایسا سوال ہے جو اگر ہر نوجوان کے دل میں جاگزیں ہو جائے، تو سوشل میڈیا ایک روحانی انقلاب کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ حیا کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے میں ان باحیاء چہروں کو رول ماڈل بنانا ہوگا، جو آن لائن بھی وہی ہوتے ہیں، جو آف لائن ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سوشل میڈیا ایک طاقت ہے ۔ مگر یہ طاقت ہمیں بنائے، بگاڑے نہیں۔
آخر میں، میں ان تمام والدین، اساتذہ اور نوجوانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس فکری جنگ کو سنجیدگی سے لیں۔ بے حیائی صرف ایک اخلاقی مسئلہ نہیں، یہ ایک روحانی زہر ہے جو آہستہ آہستہ ہمارے ایمان کو ختم کر رہا ہے۔
آج اگر ہم نے اپنی نسل کو حیا سکھا دی، تو کل وہ اپنے بچوں کو بھی وہی سکھائیں گے اور اگر ہم نے آج یہ جنگ ہار دی، تو آنے والی نسل ہمیں صرف ایک الزام دے گی کہ’’تم نے ہمیں موبائل تو دے دیا، مگر نظریں جھکانے کا سبق کیوں نہ دیا؟‘‘
یا اللہ! ہمیں وہ بصیرت عطا فرما جس سے ہم حق کو پہچان سکیں،وہ حیا عطا فرما جو دلوں کو پاک رکھےاور وہ ہمت عطا فرما کہ ہم سچائی کے علمبردار بن سکیں ۔آمین
[email protected]