احمد عبید اللہ یاسر قاسمی
دنیا ایک شور زدہ بازار بن چکی ہے، جہاں سچ و جھوٹ، خیراو شر اور علم و فتنہ ایک ہی آواز میں گڈمڈ ہو چکے ہیں۔ اس شور میں سب سے طاقتور ہتھیار ’’میڈیا ‘‘ ہے جو بظاہر اطلاع رسانی کا ذریعہ ہے مگر درحقیقت رائے سازی، ذہن سازی اور فکر سازی کا سب سے مؤثر ہتھیار بن چکا ہے۔میڈیا کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے، کیونکہ انسانی سماج میں اطلاعات کی ترسیل، افکار کی ترویج اور رائے عامہ کی تشکیل ہمیشہ سے ایک بنیادی ضرورت رہی ہے۔ جس دور میں تحریر، خطبے اور منبر و محراب ذریعۂ ابلاغ تھے، آج کے دور میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے وہی کردار جدید انداز میں سنبھال لیا ہے،لیکن موجودہ دور میں میڈیا صرف ایک اسکرین پر چلنے والا منظر نہیں رہا۔ یہ محض خبریں دینے یا تفریح فراہم کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ اب ذہنوں کی تشکیل، افکار کی تخریب اور شعور کی سمت متعین کرنے والا سب سے طاقتور ہتھیار بن چکا ہے۔ آج میڈیا وہ بھی ہے جو براہِ راست نظر نہیں آتا، مگر خاموشی سے دل و دماغ میں پروپیگنڈوں، افواہوں، شبہات، خوف اور نفرت کے زہر بھر رہا ہے۔ یہ ’چھوٹا پروپیگنڈہ‘ (micro propaganda) آج امتِ مسلمہ کے لئےسب سے خاموش، مگر سب سے تباہ کن چیلنج بن چکا ہے جو بغیر کسی اعلان کے فکری، تہذیبی اور ایمانی سرحدوں پر حملہ آور ہو رہا ہے۔
پروپیگنڈہ ایک مشہور اصطلاح ہے جو عام طور پر منفی مفہوم میں استعمال ہوتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ کسی جھوٹ یا گمراہ کن خیال کو اس قدر بار بار دہرایا جائے کہ سننے والے اسے حقیقت سمجھنے لگیں۔ ماہرین ابلاغیات کے مطابق، جب کسی نظریے کو بار بار مختلف انداز سے پیش کیا جائے تو عوام کی سوچ دھیرے دھیرے اسی رُخ پر ڈھلنے لگتی ہے، چاہے وہ نظریہ درست ہو یا غلط۔ اسی اصول پر مبنی ایک جدید اور خفیہ حکمت عملی کو’’چھوٹا پروپیگنڈہ‘‘ (Micro Propaganda) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جس میں دشمن اپنی بات براہ راست بیان نہیں کرتا بلکہ غیر محسوس انداز میں ذہنوں کو متاثر کرتا ہے۔
مثلاً بچوں کے کارٹونز میں اسلامی علامات کا مذاق اُڑانا، فلموں میں علماء کو دقیانوسی، انتہا پسند یا غیر عقلی بنا کر پیش کرنا، باحجاب خواتین کو مظلوم اور قیدی دکھانا اور خبروں میں معمولی باتوں کو بڑھا چڑھا کر مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنا، — یہ سب ’’چھوٹے پروپیگنڈے‘‘کی واضح مثالیں ہیں۔ ان کا مقصد کسی ایک واقعے پر لوگوں کی رائے بنانا نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ایک مخصوص نظریہ ذہنوں میں بٹھانا ہوتا ہے کہ اسلام ایک پسماندہ، پُرتشدد اور غیر مہذب مذہب ہے۔ یہی وہ خاموش ذہنی جنگ ہے جو امت مسلمہ کی فکر، تہذیب اور تشخص کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے۔اسی طرح آج کی فلمی دنیا میں بیشتر فلمیں کسی نہ کسی مخصوص ایجنڈے پر مبنی ہوتی ہیں، جن کے پیچھے خالص سیاسی، مذہبی، تہذیبی اور فکری مقاصد کارفرما ہوتے ہیں۔ فلمیں اب صرف تفریح کا ذریعہ نہیں رہیں بلکہ یہ جدید میڈیا کی ایک بااثر شاخ بن چکی ہیں جو رائے عامہ کی تشکیل، جذبات کی سمت دہی اور نظریات کی تبدیلی کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔
میڈیا خواہ وہ نیوز چینلز ہوں، سوشل میڈیا ہو یا فلمی صنعت سب ایک مربوط نظام کے تحت کام کرتے ہیں، جس کا ہدف صرف معلومات دینا نہیں بلکہ سوچ کو مخصوص سانچے میں ڈھالنا ہے۔ فلموں کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف نفرت، اسلام سے بیزاری اور اسلامی شعائر سے اجتناب جیسے پیغامات انتہائی چالاکی سے دئیے جاتے ہیں۔ محض ایک کہانی یا کردار کی آڑ میں پوری نسل کے دل و دماغ پر اثر انداز ہونے کی منظم کوشش کی جاتی ہے۔کئی فلموں میں ہند و پاک کے تنازعات کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکائے گئے۔ کئی فلموں میں مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کیا گیا، کیونکہ ایک طویل عرصے تک برصغیر پر مسلمانوں کی حکمرانی رہی، جس میں انہوں نے عدل، مساوات اور دین داری کا مظاہرہ کیا۔ لیکن ان کے وقار کو ختم کرنے کے لیےکئی فلمیں بنائی گئیں،جن میںمسلمان بادشاہوں کو ظالم، عورت پرست یا متعصب بنا کر پیش کیا گیا۔ کئی ایسی فلمیں بھی بنائی گئیں،جن کا مقصد صرف تفریح نہیں بلکہ شعوری طور پر اسلام کے خلاف ذہن سازی ہے اور پھر یہی فلمیں انتخابات سے عین قبل ریلیز کی جاتی ہیں تاکہ عوامی جذبات بھڑکائے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آج واٹس ایپ، فیس بک اور ایکس (سابقہ ٹوئٹر) جیسے پلیٹ فارمز معلومات کے ذرائع سے زیادہ افواہوں، جھوٹے پروپیگنڈے اور ذہنی گمراہی کے مراکز بن چکے ہیں۔ یہاں سچائی دبائی جاتی ہے، حق کو مشتبہ بنایا جاتا ہے اور جھوٹ اتنے تسلسل سے پھیلایا جاتا ہے کہ وہ سچ کا روپ دھار لیتا ہے اور تو اور آج ہر ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے اور ہر انگلی سوشل میڈیا پر خبریں نشر کرنے میں مصروف ہے، چاہے وہ سچی ہوں یا جھوٹی۔المیہ یہ ہے کہ جو سچ بولے، جو مظلوموں کی حمایت کرے یا جو دستور و انصاف کی بات کرے، اُسے غدار کہہ کر جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ناقابلِ ضمانت دفعات لگا کر ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سچ کی آواز کو سازش کا نام دے کر خاموش کر دینا اب ایک چلن بن چکا ہے۔اس فکری انتشار میں ایک نیا کردار اُبھر کر سامنے آیا ہے: ’’واٹس ایپ یونیورسٹی‘‘ کے فارغ التحصیل افراد۔ یہ وہ طبقہ ہے جو بغیر تحقیق، بغیر تصدیق اور بغیر کسی علمی یا اخلاقی ذمہ داری کے، ہر پیغام کو آگ کی طرح پھیلاتا ہے۔ فیک نیوز ہو یا مذہبی نفرت، فرضی ویڈیوز ہوں یا ایڈیٹ شدہ انٹرویوز ،— یہ سب اسی’’نری معلومات‘‘ کی دنیا میں حقائق بن کر گردش کرتے ہیں۔میڈیا اور سوشل میڈیا کا یہ نیا چہرہ صرف خبروں کی ترسیل نہیں کرتا بلکہ سوچ کی سمت طے کرتا ہے، عوامی رائے بناتا ہے اور فکری حملوں کے ذریعے نظریات کو مسخ کرتا ہے۔ یہ وہ’’نرم جنگ‘‘ ہے جس میں گولیاں نہیں، الفاظ چلتے ہیں، بارود نہیں، افواہیں پھٹتی ہیں اور لاشیں نہیں، شعور دفن ہوتے ہیں۔
افواہ، یعنی سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے پھیلانا، نہ صرف ایک معاشرتی برائی ہے بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ ایک سنگین گناہ اور فتنہ انگیزی کا ذریعہ ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا دو، پھر اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔‘‘(سورۃ الحجرات، آیت 6)یہ آیت کریمہ ایک واضح اصول دے رہی ہے کہ کسی بھی خبر کو تحقیق کے بغیر آگے بڑھانا انتہائی خطرناک عمل ہے، جو پچھتاوے اور نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ آیت آج کے سوشل میڈیا کے تناظر میں نہایت مؤثر ہے، جہاں ہر شخص ایک’’خبر رساں ایجنسی‘‘ بن چکا ہے۔نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کر دے۔‘‘(صحیح مسلم)۔یہ حدیث ان تمام لوگوں کے لیے تنبیہ ہے جو بغیر تحقیق ہر بات کو شیئر کرتے ہیں، خواہ وہ کسی کی بدنامی کا باعث ہو، کسی گروہ کے خلاف ہو یا معاشرے میں خوف و فتنہ پھیلانے والی ہو۔افواہیں پھیلانا کئی بار فتنہ و فساد، قتل و قتال، بدگمانی، اور قوموں کی بربادی کا ذریعہ بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں ایک جھوٹی خبر نہ صرف خاندانوں کو توڑتی ہے بلکہ فرقہ وارانہ نفرت، مذہبی کشیدگی اور ملکی امن کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔افواہ، ایمان کے منافی عمل ہے۔ ایک مسلمان کا شیوہ تحقیق، سچائی اور خیر خواہی ہونا چاہیے، نہ کہ جھوٹ پھیلانا اور دوسروں کو نقصان پہنچانا۔
۱۔ تحقیق کے بغیر کوئی خبر نہ پھیلائیں:چاہے وہ پیغام کسی معتبر دوست کا ہو یا مشہور پیج سے آیا ہو، جب تک سچائی کی تصدیق نہ ہو، آگے بڑھانا خیانت کے مترادف ہے۔
۲۔’’واٹس ایپ یونیورسٹی‘‘سے احتیاط برتیں:ہر فارورڈ پیغام کو آسمانی صحیفہ مت سمجھیں۔ تحقیق کے بغیر افواہ پھیلانا جھوٹ بولنے جیسا گناہ ہے۔
۳۔ شکوک انگیز مواد سے پرہیز کریں:کسی بھی ویڈیو، تصویر یا خبر میں اگر اشتعال، نفرت یا فرقہ واریت ہو تو اُسے دو بار سوچیں، تین بار پڑھیں، اور بہتر ہو تو خاموش رہیں۔
۴۔ قرآن و سنت کی روشنی میں رائے بنائیں:میڈیا کی بنائی ہوئی رائے کو اپنی آخرت کی بنیاد نہ بنائیں، دین کا ترازو ہی سچ اور جھوٹ کا اصل معیار ہے۔
۵۔ سچائی کو فروغ دیں :اگر کوئی بات مسلمانوں کے حق میں ہے مگر سچ نہیں، تو اسے بھی نہ پھیلائیں۔ دیانت صرف مخالف پر لاگو نہیں، خود پر بھی فرض ہے۔
۶۔ سوشل میڈیا پر تبصرے سے پہلے تدبر کریں:سوچیں کہ جو کچھ آپ لکھنے جا رہے ہیں، کیا وہ دنیا میں خیر کا باعث بنے گا؟ کیا وہ آخرت میں نفع دے گا؟
امتِ مسلمہ آج جس فکری انتشار، اخلاقی انحطاط اور نظریاتی دباؤ سے دوچار ہے، اس کی ایک بڑی وجہ میڈیا کا بےمحابا غلط استعمال، افواہوں کی یلغار اور چھوٹے پروپیگنڈے کی زہریلی بارش ہے۔ یہ وہ فتنہ ہے جو قوموں کی جڑیں کاٹتا ہے، نسلوں کو الجھاتا ہے اور حق کو باطل کی دھند میں چھپا دیتا ہے۔ ایسے پرآشوب وقت میں امت کا ہر باشعور فرد ایک ذمہ داری کا حامل ہے۔
ہمیں اجتماعی سطح پر اس زہر کا تریاق بننا ہوگا۔ یہ تریاق علم، تحقیق، تقویٰ، ضبطِ زبان اور باہمی اتحاد و فہم پر مبنی شعور ہے۔ اگر ہم نے میڈیا کو صرف تفریح، افواہ اور تعصب کا کھلونا سمجھا تو ہماری آنے والی نسلیں صرف ہنستی کھیلتی، لیکن فکری طور پر بانجھ اور اخلاقی طور پر گمراہ نسلیں ہوں گی۔اب بھی وقت ہے کہ شعور کو جھنجھوڑا جائے، فتنوں کو پہچانا جائے اور زبان و قلم کا سخت احتساب کیا جائے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سچائی کو پھیلائیں، عدل کا ساتھ دیں اور دین کی روشنی میں ہر بات کو پرکھنے کا سلیقہ سیکھیں۔
امتِ مسلمہ اور ہر دردمند ذہن رکھنے والے کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ اس ذہنی استحصال، افواہوں کے سیلاب، اور فکری زہر کے خلاف علم، حکمت اور تدبر کے ساتھ کھڑے ہوں ، ورنہ کل تاریخ ہم سے ضرور سوال کرے گی:’’جب سچ قید تھا، اور جھوٹ آزاد، تم کہاں تھے؟‘‘
ہمیں اب خاموش تماشائی بن کر بیٹھنے کے بجائے، سچ کی نمائندگی، افواہ کے رد اور مثبت پیغام رسانی کا شعوری کردار ادا کرنا ہوگا۔ میڈیا کے زہریلے اثرات کا علاج صرف علمی بیداری، اخلاقی استقامت اور ایمانی بصیرت سے ممکن ہے۔ ہر فرد، خاص طور پر ہر مسلمان، ایک چراغ ہے جو اندھیروں میں روشنی بکھیر سکتا ہے ،شرط صرف یہ ہے کہ وہ خود جلنے کا حوصلہ رکھے۔دین ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم’’اللہ کے لیے کھڑے ہو جاؤ، عدل کے ساتھ گواہی دینے والے بنو‘‘ تو آئیے! اس سوشل میڈیا کے پرآشوب ماحول میں سچائی، دیانت اور فہم و شعور کے سپاہی بن کر اُٹھیں اور امت کے دل و دماغ کو محفوظ بنانے کے اس جہاد میں اپنا کردار ادا کریں۔
رابطہ۔ 8121832026
[email protected]