خورشید ریشی
آج تقریباً تمام لوگ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں اور زیادہ تر وقت اسی پر گزارتے ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سماج میں سدھار لایا جا سکتا ہے اور سماج میں پھیلی مختلف برائیوں کی نشاندہی کرکے انکے سدباب اور نقصانات سے عوام کو باخبر کرایا جاسکتا ہے، مگر سوشل میڈیا پرہماری سرگرمیاں کیا اور کیسی ہیں ،یہ ہر کوئی اپنے گریبان میں جھانک کر بتا سکتا ہے ۔ہماری پسند کا معیار کیا ہے اس بات کا جواب بھی ہم خود ہی جانتے ہیں۔ ہم کن لوگوں کی حوصلہ افزائی سوشل میڈیا پر کرتے ہیں اور ہم کس مواد کو پسند اور کس کو نا پسند کرتے ہیں ،یہ بھی ہم سب جانتے ہیں ۔پچھلے کئی سال سے سوشل میڈیا پر ایک نیا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے۔کئی لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے  اپنی طاقت،اپنے اثرو رسوخ اوراپنی موجودگی کا احساس دلا کر دوسروں پر دباؤ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ میری رائے سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں مگر آج میں قارئین کو ایک اہم اور حساس موضوع کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہا ہوں۔جب بھی ہمارے یہاں سول یا پولیس انتظامیہ میں تبادلے کے حکم نامے جاری ہوتے ہیں تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ حکم نامے جنگل کی آگ کی طرح سوشل میڈیا پر گردش کرتے نظر آتے ہیں، جس سے کوئی اعتراض یا اختلاف ہرگزنہیں کیا جاسکتا، لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوتا رہتا ہے، اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ کیونکہ تبادلے کے حکم نامے کے ساتھ ہی جس طرح سوشل میڈیا پر لوگ نئے اور رخصت ہو رہے آفیسرز کو الوداع اور خیر مقدم کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں،وہ بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے۔لیکن دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر تصویروں کی بوچھاڑ دیکھنے کو ملتی ہے اور لوگ اپنی تصویروں کے ساتھ ان اعلیٰ پولیس اور سول آفیسرز کی تصویر اَپ لوڈ کرتے ہیں، یہ فوٹو گراف انہوں نے ماضی میں کسی مجلس کے دوران دانستہ یا نادانستہ طور پر کھینچی ہویا کسی محفل میں یا کسی کھیل کود کے ایونٹ میں اُن سے سرٹیفکیٹ حاصل کی ہو، تو اُنہی تصاویر کو سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کرکے اُن کو الوداع یا خیرمقدم کرتے ہیں۔ حالانکہ ان تصاویر کے علاوہ نہ اُنہوں نے کبھی ان کے ساتھ ہاتھ ملایا ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی اُن سے بات کی ہوتی ہے، لیکن ان کے ساتھ اس لی ہوئی تصویر کو وائرل کرکے دوسروں پر دباؤ جمانے کی محض ایک حقیر کوشش ہوتی ہے اور اس تصویر کے ذریعے ایسے افراد یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے اس آفیسر کے ساتھ تعلقات گہرے ہیں، ہماری اس کے ساتھ جان پہچان ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اتنا ہی نہیں جنم دن کی مبارکباد اور اس دن پر نیک تمنائیں اور دعائیں بھی ان لوگوں کی سوچ کے مطابق قبول نہیں ہوتی، جب تک نہ انکے ساتھ لی ہوئی تصویر کو سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ نہ کیا جائے۔ لہٰذا ایسے افراد جو یہ کام انجام دیتے ہیں، کو سوچنا چاہیے کہ اُن کی اس حرکت سے لوگوں کو تکلیف کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔باقی جو دباؤ آپ دوسروں پر ایسی سرگرمیوں کے ذریعے ڈالنا چاہتے ہیں، آپ کو کس حد تک کامیابی حاصل ہوتی ہے، اس بات سے بھی آپ بخوبی واقف ہیں کیونکہ یہ جو پبلک ہے سب جانتی ہے۔ اس کے لئے کوئی اور راستہ دریافت کریں کیونکہ ایسا کرکے آپ لوگوں کی نظروں میں اپنا قد بڑھانے کے بجائے گھٹا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کا استعمال انسانی فلاح و بہبودی کے لئے کریں نہ کہ خوشامد کرنے کے لیے کریں۔
[email protected]
������������������
 
								 
			 
		 
		 
		 
		 
		 
		 
		