کشمیر ایک ایسا کم نصیب خطہ ہے جہاں عوام پر مختلف اقسام کے اوچھے ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں ،انہیںمظالم کی گھٹائیں اور مصائب کی بارشیں مسلسل برس رہی ہیں۔ کشمیر کا قصور یہ ہے کہ یہ ایک حل طلب سیاسی مسئلے کا پُر امن اور قابل قبول حل چاہتا ہے مگر اس ایک ’’جرم ‘‘ کی پاداش میں اس کا گلا گھونٹا جارہاہے ،اس کے بشری حقوق کو جبر وزیادتیوں تلے سلب کیا جارہاہے ، اس کی شہر ی آزادیاں چھینی جارہی ہیں،اس کے شہر ودیہات میں مقبرے سجائے جارہے ہیں ، اسے جیل اور عقوبت خانوں کی ناقابل بیان سزائیں دی جارہی ہیں ۔اس ساری صورت حال کے بارے میں دنیا ئے انسانیت بہ حیثیت مجموعی بے خبر ہے ،البتہ اسے چھن چھن کر بعض ناقص ونامکمل معلومات سماجی سائٹس کے ذریعے مل جاتی تھیں،اس پر بھی حکومتی قدغن لگانے سے یہ کھڑکی بھی بند پڑی ہے ۔ ہردور کے اپنے تقاضے اور مطالبے ہوا کرتے ہیں۔ ماضی میں لوگ عالمی حالات سے آگاہ ہونے کے لئے ریڈیو کا سہارا لیا کرتے تھے ،پھر بعد میں ٹی وی متعارف ہوا جس نے انٹرٹینمنٹ اور خبروں کی دنیا میں کچھ مدت کے لئے اپنی چھاپ چھوڑ دی۔رفتہ رفتہ انسان ترقی کے زینوں کو سر کرتا ہوا آج اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں انٹرنیٹ کی دھوم مچی ہوئی ہے کہ اس کے بغیر جدیدانسان کا گزارہ نہیں چل سکتا ۔ نیٹ کی وجہ سے ریڈیو اور ٹی وی ذہنوں کے کینواس سے اُتر گیا اور اس کی جگہ سوشل میڈیا نے لے لی اور آج حال یہ ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے بغیر زندگی کا کوئی تصور ہی نہیں۔یہ بات شک وریب سے ماوراء ہے کہ آج کے دور جدید میں جب زندگی کی رفتار حد سے زیادہ تیز دوڑ رہی ہے، ایسے میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی اہمیت و افادیت سے کسی کو انکار کی گنجائش نہیں ہے ،کیونکہ انٹرنیٹ ہی کی بدولت پوری دنیا سمٹ کر ایک واحد گاؤں کی شکل اختیار کرچکی ہے ،جہاں رسوئی سے لے کر حکومتی سطح تک کی تمام جانکاریاںچند سیکنڈوں میں دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچ جاتی ہیں ۔ یہ اسی نیٹ کا جادوئی کمال ہے کہ مشرق و مغرب کی تقسیموں اور مسافتوں کا تصور چند ثانیوں کے لئے ذہن سے محو ہوجاتا ہے اور یہ انٹرنیٹ ہی کی دین ہے کہ آج وائٹ ہاوس سے لے کر کشمیرتک ،موجِ حوادث کی تھپیڑوں سے لے کر بحراحوال کی کیفیات تک ہر کس وناکس پر واضح ہے اور پل پل کی خبر اورخبر کے پیچھے اس کے پس منظر اور پیش منظر سے کوئی فرد بشر زیادہ دیر بیگانہ نہیں رہ پاتا۔ الغرض آج کی ترقی یافتہ دور اور بھاگ دوڑبھری زندگی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے بغیر مفلوج اور اپاہج ہے ۔چونکہ انٹرنیٹ حالات و واقعات کو لوگوں کے سامنے لانے کا تیزترین ذریعہ ہے اور یہ چند لمحوں میں کسی بھی ملک کی تعمیرو ترقی، امن وآشتی، بناؤ وبگاڑ اور حکومت کا بننا اور بگڑناعالمگیر سطح پر ایکسپوز کرنے کا بہترین اور فائدہ مند ہتھیار ہے ۔لہٰذا اس کے ذریعے سے دنیا کے نقشے پرجہاں کہیں بھی کوئی واقعہ رونما ہوا وہ آناً فاناًانٹرنیشنلیز ہوا اور ہر امیر غریب، عوام خواص، گورا اور کالا اس کی حقیقت سے روشناس ہوا۔جموں کشمیر جس کی گھمبیرتا نے اس وقت پوری دنیا کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے اور عالمی طاقتوں کو اس سنگین مسئلے پر غوروخوض کرنے کے لئے سرجوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کردیا،بھی ’’ستی سر‘‘ کی تاریخ کو فراموش کر کے بڑی آن بان اور شان کے ساتھ دنیا کے نقشے پر براجمان ہوا اور پھر ’’پتھر کے زمانے‘‘ کو پائے ترقی سے روند کر سائنس و ٹیکنالوجی کی حدوں کو چھونے لگا۔انٹرنیٹ و سوشل میڈیا کی سہولیت نے یہاںکی نوجوان نسل کو عالمی چیلینجز قبول کرنے کی تحریک دی اور یہی وجہ ہے کہ0 7 سال کی بدترین دور کی چشم دید گواہ کشمیر کی نسل نو اپنی ذہنی پریشانی کے باوجود دنیا کے نوجوانوں کے برابر کھڑی ہے مگر اسے نوجوانانِ کشمیر کی بدقسمتی سے تعبیر کیا جائے یا اپنوں کی سازش اور سوداگری کا شاخسانہ ہے کہ اس پر وہ طاقت مسلط ہوگئی جس نے وقت وقت پر اس نسل کو فالج زدہ بنانے کے لئے مخلف حربے اپنائے جس کی وجہ سے ان کا تعلیمی کیرئیر،روزگار کے مواقع اور عالمی چیلینجوں کا سامنا کرنے کی خدادادصلاحیت پر کاری ضرب پڑگئی اور وہ چند قدم باقی ملکوں کے نوجوانوں سے بچھڑ گیا۔ اس کشمیری قوم کے معمار کا قصور اور جرم صرف اتنا ہے کہ وہ برملا اور بلاخوف وتردد کے اپنی رائے کا اظہارکرنے میں باک نہیں سمجھتا ہے اور اپنے پیدائشی حق کی جستجو کے لئے اُن ذرائع کا استعمال کرتا ہے ،جس کا اسے آج کے جمہوری دور نے سند ِجواز عطا کیا ہے ۔ یہ تاریخ کا بے داغ سچ ہے کہ جموں کشمیر کی 70؍سالہ طویل غلامی کا سینہ چاک کرنے کے لئے جہاں کشمیری قوم نے مختلف ذرائع استعمال کئے ،وہیں اس قوم کی نوجوان نسل نے اپنی آواز کو بین الاقوامی سطح پر پہنچانے کے لئے اور عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں منظم کرنے کے لئے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا اور اپنی داستانِ غم والم دنیائے عالم کے سامنے صوتی وصورتaudio video) ( حالت میں رکھ دی اور یہی وجہ ہے اس طویل المدتی مسئلہ نے 60؍سالوں میں عالمی سطح پر اتنی تشہیر و توجہ نہیں پائی، جتنی پچھلے 10؍سالوں میں اسے پذیرائی ملی۔سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کی وجہ سے ایک طرف بھارت کا چہرہ دنیا کے سامنے اپنی اصلی صورت میں آگیااور اسے نہتے کشمیریوں پر ظلم وجبرڈھانے، اَدھ کھلے پھولوں کو مسلنے کا طرزعمل،بلٹ وپیلٹ کی قہرسامانیاں اور اَفسپا اور پی ایس اے کی ننگی تلوار معصوموں کی گردنوں پر رکھنے سے بزمِ عالم میں بے نقاب ہونا پڑا ؤہی دوسری طرف عالمی برادری کو یہاں کی بے بصارت آنکھوں، چھروںکی بوچھاڑ سے نہتے جسموں کے بہتے لہواور بے بس و بے کس ماؤں بہنوں کی جگرسوز اور فلک شگاف چیخوں نے جھنجوڑ کردیا جس نے انہیں بھارت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کا حوصلہ دیا کہ بھارت جلد از جلد مسئلہ کشمیر کو حل کرے اور آج ہم بسروچشم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ہندوستان دبی زبان میں ہندوستان اپنے موقف میں لچک لاتا ہوا نظر آتا ہے اور کشمیر حل کے آگے جھکتا ہوا محسوس ہوتا ہے یہ اور بات ہے کہ اپنی انا، ضد اور نشۂ قوت میں چور ہندوستان فرار کے راستے پر گامزن ہے اور اَٹوٹ انگ کا زنگ زدہ ہتھیار استعمال کررہا ہے۔ چونکہ ہندوستان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ حقیقت ِکشمیر دنیا کی نظروں سے اوجھل رہے ،اس لئے اس نے وہ تمام راستے مسدود کرنے کی کوشش کی جس کے ذریعے سے کشمیریوں کی آواز دنیا تک پہنچتی تھی ۔سوشل میڈیا بھی کشمیریوں کا ایک ایساہی وسیلہ تھا جس کے ذریعے سے کشمیر کی تھوڑی بہت روداد بھی اندرونی سطح ا وربیرونی عوام کے سامنے افشاں ہوا۔ اس لئے اس پر پابندی لگانا بھارت کی اولین ترجیح اور مجبوری بن چکی تھی اوراس مجبوری کو باضابطہ عملی جامہ تب پہنایا گیا جب عسکریت کے بڑھتے رحجان، فوج اور پولیس کی زیادتیوں سے تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق طلبہ کاسڑکوں پر نکل آنا اور سرینگر ضمنی پارلیمانی انتخابات میں ’’کلین سوئپ‘‘ ملنے پر بھارتی دعوں کی پول کھل گئی اور اس کی پوزیشن مضحکہ خیز بن گئی۔ بہرحال کشمیری قوم کا سوشل میڈیا کو اپنے حق میں موثرطریقے اور تیکنکی اندازسے استعمال کرنے کی وجہ سے بھارت اور ریا ستی آلہ کاربوکھلا گئے اور اسی بوکھلاہٹ میں انہوں نے سوشل میڈیا پر مکمل پابندی کا فیصلہ صادر کیا۔عسکریت پسندوں کے دوگروپوں کی وائرل ویڈیوز کو بنیاد بنا کر یونیفائیڈ کمانڈ کونسل میں اس معاملے پر ایک دورازکا ر آئیڈیا تعمیر کیاگیا جس کے بعد ریاستی وزارت داخلہ کے سیکریٹری آر کے گوئیل کے ہاتھوں اس کی سنگ بنیاد ڈال کر تمام ٹیلی کام کمپنیوں کو دعوت نامہ ارسال کیا گیا،جس میں بتایا گیا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ شرپسند عناصر افواہیں پھیلا کر نوجوانوں کو سڑکوں پر نکال کر احتجاج منظم کروا نے کے ساتھ ساتھ فیس بک اور ٹویٹر کا غلط طریقے سے استعمال کررہے تھے ۔اس وجہ سے انہوں نے وادی میں عوامی تحفظ اور امن وآشتی میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی تھی، وہیں اس بات کو بھی محسوس کیا گیا کہ 2016 ء کی ایجی ٹیشن کے دوران کچھ عناصر نے سوشل میڈیا کا غلط استعمال کر کے لوگوں کو اُکسایا اور اس کے نتیجے میں وادی میں حالات خراب ہوئے۔چند بے حقیقت اور غیرمنطقی باتوں پر یونیفائیڈکمانڈ کونسل کے فیصلے اور وزارت داخلہ کے حکم نامے پر غوروخوض کرنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا پر قدغن لگانے کے جو بہانے اپنائے گئے وہ ہمالیہ جیسے جھوٹ اور دھوکے پر مبنی ہے بلکہ یہ تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف بھی ہے ۔ یہ اقدام چند چبھتے سوالات کو جنم بھی دیتا ہے کی ۲۰۱۰ء میں سرینگر کے تاریخی عیدگاہ میں دس لاکھ سے زائد لوگوں کا اجتما ع اور ٹی آر سی چلوکے کامیاب پروگرام کے تحت تقریباََاسی تعداد کے برابر لوگوں کے اژدھام تھا ،وہ بھی تب جب سوشل میڈیا اتنا عام نہیں تھا، ان لوگوںکو کن’’ شرپسند عناصر‘‘ نے جمع کیا؟ ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ان نوجوانوں کو سڑکوں پر احتجاج کے لئے کون نکال رہا ہے جن کے کندھوں پر کتابوں کے بستے ، ہاتھ میں پتھر اور لب پہ نالے ہوتے ہیں ؟ ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ یہ جلسے جلوس اور احتجاج سوشل میڈیا کے آنے سے ہوئے یا 70 سال سے کشمیر کی سڑکیں، گلی کوچوں میں جو صدائیں کیونکر بلند ہوئیں؟ ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ عوامی تحفظ اور امن وآشتی کو کن ہاتھوں نے درہم برہم کیا، بقول ان کے میڈیائی’’ شرپسند عناصر ‘‘نے یا دس لاکھ فوجیوں نے؟ ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ 2016 کی عوامی ایجی ٹیشن کو سوشل میڈیا پر بیٹھے چند عناصر نے لوگوں کو اکسا یا یا ایک سو سے زائد معصومین کے خونِ ناحق نے جوش مار کر اسمبلی سے پارلیمنٹ تک کو لرزہ براندام کردیا؟ ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ حالات خراب کرنے کے پیچھے سوشل میڈیا کے چند’’ شرپسند عناصر‘‘ ہیں یا پوری قوم ’’شرپسند‘‘ بن کر پچھلی سات دہائیوں سے حالات بگاڑنے کے جرمِ عظیم میں ملوث ہے جب سوشل میڈیا کا کوئی وجود نہیں تھا۔تعصب کی عینک اتار کر اور طاقت کے خمار سے نکل کر جب یہ دیکھیں گے تو ضرور ان کی عقلوں کی گرہیں کھلیں گی اور حقیقت ان کی رہنمائی کرتے ہوئے اس بے داغ سچ سے روشناس کرائے گی کہ بھلے ہی دلی اور اس کے ریاستی گماشتے آج کے جدید دور میں جب انٹرنیٹ زندگی کا ناقابل تنسیخ حصہ بن چکا ہے ،کشمیر میں’’ انٹرنیٹ کرفیو ‘‘ لگا کر اس ستی سر کو پتھر کے زمانے کی طرف دھکیلنے کی کوشش ضرور تو ہے مگر اس سے مسئلہ کشمیر کی نوعیت پر کچھ بھی فرق پڑنے والا نہیں ہے اور نہ ہی سانسوں پر قدغن لگانے سے یہ مسئلہ دبنے والا ہے کیونکہ فطرت کا ایک اصول ہے کہ جس چیز کو جتنی زور سے دبانے کی کوشش کی جائے گی اس سے زیادہ زوردار انداز سے وہ چیز ابھر کر سامنے آتی ہے ۔اسی لئے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرنا خود کو حسین دام فریب میں رکھنے کا ایک بہلاو اہوسکتا ہے مگر مسئلہ کشمیر کا حل نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ سے فرار کا راستہ اختیار کرنا ہے کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ کشمیری قوم نے اقبال کے دئے گئے لقب ’’چرب دست و تردماغ‘‘کی عملی تفسیر بن کر اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے میں کبھی غفلت سے کام نہیں لیا ، ماضی ٔقریب میں انٹرنیٹ تھا نہ فیس بک اور ٹویٹر کی سہولیت میسر تھی، واٹس ایپ کے گروپ بھی نہ تھے مگر اس قوم نے فرداََ و اجتماعاََ اپنے پیدائشی حق کو پانے کی جدوجہد میں انحراف یا سمجھوتہ بازی سے کام نہیں لیا بلکہ تیز وتند بادِ مخالف میں بھی اس قوم نے اپنی ٹوٹی پھوٹی سفینوں کو جوڑ کر طوفان پار کر نے کی کوششیں کیں ۔ لہذا سوشل میڈیا پر قدغن لگانے سے یہ اخذ کرنا بے وقوفی کی انتہا ہے کہ اس سے کشمیریوں کی خواہشات، اُمنگوں اور آرزؤں کو زک پہنچائی جاسکے اور انہیں اس منزل سے ہمکنار ہونے سے باز رکھا جائے، جس کے لئے پچھلے سترسال سے کشمیری عوام عذاب و عتاب کی چکی میں پستے رہے۔ بہتر یہ ہے کہ اوچھے ہتھکنڈوں اور ناکام حربوں سے کام لینے کے بجائے حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے اورحقیقت شناس کی مثال پیش کی جائے اور کشمیری قوم کی دکھتی رَگ پر ہاتھ رکھ کر محسوس کیا جائے کہ قوم کس خواب کی تعبیر کا تقاضہ کررہی ہے ،مگر اس کے لئے نباض بن کر سوچئے ۔۔۔۔۔۔۔کہ یہ قوم کیا چاہتی ہے؟
رابطہ :منزگام، اہرہ بل،کولگام۔۔۔۔۔۔۔9070569556