سید مصطفیٰ احمد ۔بمنہ، بڈگام
اخلاق انسان کا سب سے بہترین زیور ہے۔ جو چیز ایک انسان کو دوسرے مخلوقات سے ممیز کرتی ہے وہ ہے اخلاق۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اخلاقیات کا دامن علم کے دامن سے وسیع ہیں، دوسرے الفاظ میں اخلاق ہمیشہ علم پر سبقت لے جاتے ہیں۔ بچپن میں ہمیں پڑھایا گیا تھا کہ شیطان کے پاس علم کی کوئی کمی نہیں تھی مگر وہ اخلاق سے عاری تھا۔ اُس کے پاس ہر چیز کی جانکاری تھی لیکن وہ اُس شئے سے لاعلم تھا ،جس سے پر اُس کا وجود کھڑا تھا۔ اُس کا ناقص علم اس کے کسی بھی نہ آیا۔ اللہ نے اس کو اس کے اخلاق سےخالی وجود کو عرش سے فرش پر پھینک دیا اور ملعون کے صفوں میں شامل کردیا۔ اس نے کڑوی زبان سے نازیبا الفاظ نکالے جو اللہ کے دربار میں اخلاقیات اور اصولوں کے منافی تھے۔ اس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ کیسے اخلاق ہماری زندگیوں کا جز لا ینفک ہے۔
اس واقعہ سے ہم سب کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے تھیں لیکن ہم نے اس کے برعکس بے ادبی اور گالم گلوچ کو اپنا شیوہ بنایا ہے۔ اس کی زندہ مثال سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر دیکھی جاسکتی ہے کہ کیسے ایک انسان دوسرے انسان کی مٹی پلید کررہا ہے۔ ذی حس انسان ان حالات کو دیکھ کر دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور ہوگیا ہے کہ کیا ہم واقعی وہ مخلوقات ہیں جن کو اللہ نے سب سے اونچے مقام سے نوازا ہے۔ ذی شعور انسان اس وقت حیران ہوجاتا ہے جب ایک قوی انسان جو شکل و صورت سے خوبصورتی کے اونچے مقام پر فائز ہے، کھلم کھلا دوسروں کی عزت کو تار تار کر دیتا ہے۔ ہاں! اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ سوشل میڈیا پر عام طور پر غیر ضروری باتیں اور مواد پایا جاتا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اخلاقی ضوابط کو روندتے ہوئے بداخلاقی کا ثبوت پیش کرے۔ تواریخی کتابوں میں ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کیسے لاکھ اختلاف کے باوجود لوگ مخالف گروہوں کی تعظیم کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کیسے غیر ضروری کاموں اور باتوں میں اپنا وقت ضائع کرنے والے اشخاص کی تربیت کے سامان مہیا کئے جاتے تھے۔ نصیحت برائے تعمیر ہوا کرتی تھی۔ بغض اور عناد کی ذرا سے بھی رمق لوگوں کی نصائح میں نہیں پائی جاتی تھی۔ لوگ ایک دوسرے کو سدھارنے کی کوششیں تنہائی میں کیا کرتے تھے۔ اس سے ان کا مقصد اس شخص کو صحیح راستے پر لانا ہوتا تھا۔ نصیحت کے بعد راہ راست سے بھٹکے ہوئے انسان کا ذکر گلی گلی اور کوچے کوچے میں نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ معاملہ ایسے تھا کہ رات کے اندھیرے میں دائیں ہاتھ نے کوئی چیز بائیں ہاتھ کے حوالے کی ہو۔ اس سے بھٹکا ہوا بندہ خود ہی راہ راست پر آتا تھا اور اپنے گناہوں پر پچھتاوا کرتا تھا۔ اللہ کے حضور ندامت کے آنسوؤں بہاتا تھا۔ لیکن آج کسی کی غلطیوں کو اچھالنے کا معقول ذریعہ فراہم ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی کے گناہ کو اس انداز سے اپلوڈ کیا جاتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی لوگ سانس لے رہے ہیں ،وہ اس خطاکار اور گناہگار شخص کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔ اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ اس کو اپنی نظروں سے گرا دیتے ہیں۔ ہاں! چلو یہ بھی ہم مان لیتے ہیں کہ کسی کو سدھارنے کے لئے اس کی سرعام بےعزتی کی جاتی ۓ تاکہ وہ سبق سیکھے اور اس گناہ سے دور رہے۔ لیکن اس کام کو انجام دینے کے دوران جو چوک سماج سدھارکوں سے ہوتی ہیں وہ یہ کہ وہ لوگ حقیقت اور جھوٹ کے درمیان فیصلہ نہیں کرپاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ اس شکل میں نکل کر آتا ہے کہ نصیحت برائے تعمیر، نصیحت برائےتباہی کا روپ اختیار کرتی ہے۔ آنکھوں سے دیکھی ہوئی اور کانوں سے سنی ہوئی باتوں پر سو فیصد بھروسہ کرنے سے پرہیز کیا جانا چاہیے۔ کبھی آنکھوں پر نہ دکھنے والی پرتوں کے انبار ہوتے ہیں جو حقیقت کو دیکھنے سے روکتے ہیں، تو کبھی کانوں میں اتنا شور ہوتا ہے کہ بات آدھی دیکھی اور سنی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ایک معمولی بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔ اس کے بعد ان داناؤں کی باری آتی ہے جو پھر ایک بات کے ساتھ سو باتیں جوڑ کر طوفان بدتمیزی کھڑا کرتے ہیں۔
اس طوفان کو روکنے کے لئے ہم سب کو دانائی اور ہوشیاری کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔ اس دنیا میں ہر کوئی خطاکار ہے۔ کسی گناہگار کی عیب پوشی کرنا سب سے بڑا جہاد ہے۔ ہمیں یہ حق نہیں بنتا ہے کہ کسی کی بے عزتی خلوت یا محفل میں کرے۔ سب سے ضروری بات جو اس ضمن میں عملائی جاسکتی ہے ہو یہ کہ ہر کوئی اپنے گریبان کے اندر جھانکے کہ میں کہاں کھڑا ہوں۔ کہیں شیطان کی طرح میں اپنے آپ کو پاک دامن اور علم سمجھنے کی خیالی دنیا میں رہ کر اصل دنیا سے ہی ذلت کی موت نہ مرجائو۔ حکومت کو ان لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آنا چاہیے جو دوسروں کی عزت سوشل میڈیا سائٹس پر اُچھالتے رہتے ہیں۔ ان کے خلاف قانونی کارروائیاں کی جانی چاہئیں۔ ان پر جرمانہ عائد کیا جانا چاہیے تب جاکر کچھ تبدیلیاں رونما ہونے کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔
سوشل میڈیا سائٹس کی رحمتوں کو کچھ گندی حرکتوں کی نذر کرنا بڑا جرم ہے۔ سوشل میڈیا زندگی کو آسان اور آرام دہ بنانے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا ایک عالمی گاؤں بن گیا ہے۔ لیکن اس عالمی گاؤں میں آن کی آن میں افواہیں اور سچائیاں دنیا کے اس کونے سے دوسرے کونے تک پہنچتی رہتی ہیں۔ آج سمارٹ فون ہر کسی کے ہاتھ میں ہے۔ اس سے افواہیں پھیلنے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اَن پڑھ لوگ ہر خبر کو cross-check کے مراحل سے نہیں گزارتے ہیں۔ توڑ مروڑ کر پیش کئی گئی باتوں کو من و عن مان لیا جاتا ہے۔ جتنا ہوسکے سوشل میڈیا پر ہر روز اخلاقیات کے اُٹھتے ہوئے جنازے کو اب روکنا ہوگا۔ شائستگی اور انسانیت کے اوصاف کو کس کر پکڑنا ہوگا۔ خود بھی اور دوسروں کو بھی سدھرنے کے مواقع فراہم کرنے ہونگے۔ سب سے اہم کام ہے کہ خود پر زیادہ محنت کرکے دنیا کے بدکاروں سے ایک فرد کا نام گھٹا دینے کی کوششیں کرنی ہوگی اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔
[email protected]