ایک دور یہ بھی گزرا ہے کہ لالو یادوکے بغیر بہار کی سیاست کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔یہ واقعہ بھی مشہور تھا کہ کتے کے گلے میں لالٹین لٹکا کر اگر اسے الیکشن میںامیدوار بنا دیا جائے تو وہ جیت جائے گا۔لالو کاطوطی اس قدر بولتاتھا کہ ایک پندرہ روزہ انگریزی رسالے نے اپنے صفحۂ اول (کور پیج) پر یہ سرخی لگائی تھی کہ’’آفٹر لالو۔۔۔ہُو؟یعنی ’’ لالو کے بعد ،کون؟‘‘ ۔دنیا نے دیکھا کہ نتیش کمار آئے اور وزیر اعلیٰ کی تیسری باری میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ پھر سے لالو کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے اور اُن کے جا نشین بہار کی سیاست میں دخیل ہو چکے ہیںلیکن اب بہار کے لئے یہی بات نہیں کہی جا سکتی کہ ’’آفٹر نتیش۔۔ہُو؟‘‘آج سے ۳۰؍ برس پہلے بہار کی سیاست پر لالو کا اثر اس قدر بڑھ گیا تھا کہ میڈیا کو یہ لکھنے اور بتلانے پر مجبور ہونا پڑا کہ بہار میں ٹینا(TINA) ٖفیکٹر کام کررہا ہے یعنی کہ There is no alternative،مطلب (لالو کا)کوئی مدّ مقابل نہیں ہے ۔ اس ٹینا فیکٹر کا اچھا خاصا فائدہ لالو کو ملااور وہ اور اُن کی پارٹی ۴؍ٹرم چُن کر آئے۔اگرچہ اُس وقت سوشل میڈیا پیدا بھی نہیں ہوا تھا لیکن جو بھی میڈیا تھا اُس نے لالو کے لئے یہ تو گڑھ ہی لیا تھاجس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔
کچھ یہی حال مودی جی کے لئے بھی میڈیا انجام دینے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ ’’آفٹر مودی۔۔۔ہُو؟‘‘۔کھل کر تو یہ جملہ نہیں کہہ رہا ہے لیکن جو سروے اور رپورٹ ٹی وی، سوشل میڈیا اور اخبارات میں پیش کی جا رہی ہیں، اُن تمام کا مطلب ایک ہی ہے کہ مودی جی کے مقابلے میں آج کی تاریخ میں ہندوستان بھر میں کوئی لیڈر نہیں ہے جو ان کو چیلنج پیش کر سکے یعنی وہی ٹینا فیکٹر دہرانے کی کوشش کی جارہی ہے جو لالو کے وقت کی گئی تھی۔اُس وقت واقعتاً ایسا تھا کہ لالو کے مقابلے میں کوئی دور دور تک دکھائی نہیں دیتا تھا ،نتیش کمار تو غلطی سے (by default) رونما ہوگئے تھے لیکن یہاں میڈیا کو ایک مدّمقابل رہتے ہوئے بھی دکھائی نہیںدے رہا ہے ،یہ بڑے افسوس کا مقام ہے۔اس مدّ مقابل کو میڈیا بتاتا بھی ہے تو اُس کی شبیہ اور قابلیت کو نیچا کر کے ۔سوشل میڈیا پر تو اسے ’پپو‘ کے خطاب سے نوزا گیا ہے اور بھکتوں نے اس کی اتنی رٹ لگائی ہے کہ ممکن ہے راہل گاندھی اپنا اصلی نام تک بھول گئے ہوں۔اس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اس ایک نام کو اتنا دہراؤ ،اتنا دہراؤ کہ حقیقت میں ایسا لگنے لگے اور مد مقابل میدان چھوڑ کر بھاگ جائے۔جس طرح سے مودی بھکت راہل کی بے عزتی کرتے ہیں اور خود وزیر اعظم اکثر و بیشتر چٹکی لیتے رہتے ہیں،وہ کسی بھی طرح سے مناسب نہیں ہے اور وزیر اعظم کے وقار کے بالکل ہی منافی ہے۔بہرحال راہل ڈٹے ہوئے ہیں کیونکہ اُنہیں ’سیاست‘ کرنی ہے اور اسی میں جینا اور مرنا ہے۔اُن کے صبر کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔یہ تو اچھا ہوا کہ الیکشن کمیشن نے اس ’پپو ‘ لفظ کا سخت نوٹس لیا اور گجرات میں پوسٹروں سے اِس لفظ کو ہٹوادیالیکن بی جے پی پھر بھی باز نہیں آئی اوراس نے پپو کی جگہ پر’یووراج‘ پرنٹ کروا دیا۔بہر کیف یہاں دیکھیں تو پپو کے معاملے میں بی جے پی کو کافی ہزیمتیں اٹھانی پڑی ہیں۔
مودی جی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال خاص طور پر ’ٹویٹر‘ کا وہ ۶؍برسوں سے کررہے ہیں اور اُن کو فولو کرنے والوں کی تعداد تقریباً ۳؍کروڑ ۶۰؍لاکھ ہے اور دنیا بھر میں اُن کا نمبر دوسرا ہے۔پہلے نمبر پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہیںجن کو فولو کرنے والے ۴؍کروڑ ۲۸؍لاکھ افراد ہیں ۔ٹرمپ کے تعلق سے دنیا جانتی ہے کہ اُن کے جملوں کا معیار اور وقار جوہوتا ہے ،اُس سے اُن کے سنکی پن کی بو آتی ہے جب کہ مودی کے بارے میں ہندوستان تو جانتا ہی ہے کہ کس طرح وہ طنز کے تیر برساتے ہیں ،خاس طور پر راہل گاندھی اوران کی وراثت کے لئے۔یونیورسٹی آف مِشی گَن کے اسسٹنٹ پروفیسر جوائے جیت پال ۶؍برسوں پر مشتمل مودی جی کے تقریباً ۹؍ہزار ٹویٹر پیغامات (جملے)کا تجزیہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سوشل میڈیا پر مودی جی کا سب سے بڑا ہتھیار طعن و طنز ہے اوروہ جن مسائل کا احاطہ کرتے ہیں اُن میں سرِ فہرست راہل گاندھی ہیں ،پھر کرپشن ہے،اس کے بعد ترقی،خارجہ معاملات، ہندوازم اور سب سے بعد میں سائنس و ٹیکنالوجی کا نمبر آتا ہے۔اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ راہل گاندھی پی ایم مودی کے لئے کتنی اہمیت رکھتے ہیں اوروہ اس سے کتنا استفادہ کرتے ہیں۔ایک بات یاد آتی ہے کہ گجرات الیکشن کی مہم کے دوران کبھی مودی نے یہ کہا تھا کہ راہل گاندھی میرا ڈرائیور بننے کے لائق بھی نہیں ہیں۔ تھوڑی دیر کے لئے مان لیتے ہیں کہ الیکشن جیتنے کے لئے یہ حربے استعمال کئے گئے لیکن وزیر اعظم بن جانے کے بعد بھی اس سلسلے کو جاری رکھنا کیامودی کے لئے زیب دیتا ہے؟کیا اسے ایک اوچھی حرکت میں شمار نہیں کیا جائے گا؟لیکن مودی جی یہ کرتے رہیں گے اور شاید کرتے رہیں گے کیونکہ اس سے انہیں فائدہ مل رہا ہے اور شایداُن کے لوگوں کو مزہ بھی آرہا ہے۔اس سے ان کے حامیوں کی ذہنیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔
لیکن راہل نے اِدھر گجرات میں بی جے پی کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔وہ جہاں جاتے ہیں بھیڑ ان کا سواگت کرتی ہے، خواہ وہ پد یاترا ہو یا الیکشن ریلی۔ہر جگہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کا خیر مقدم کرتی ہے جن میں خاص طور پر بیوپاری طبقہ پیش پیش ہے۔گجرات کے ۳؍نوجوان لیڈر بھی راہل کا ساتھ دے رہے ہیں ۔یہ واضح رہے کہ وہ تینوں راہل کے پاس آرہے ہیں اوربار بار آرہے ہیں جس سے راہل کی لیڈرشپ میں نکھار آیا ہے اور شیشے کی طرح یہ دکھائی دے رہا ہے کہ راہل ،مودی کو نہ صرف چیلنج پیش کر رہے ہیں بلکہ ان کے تیوربھی جارحانہ ہو گئے ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ کانگریس دفاعی حالت میں ہوتی تھی لیکن آج گجرات میں بی جے پی دفاعی پوزیشن میں نظر آرہی ہے۔یہ راہل کی بڑی کامیابی ہے۔ادھر انہوں نے سوشل میڈیا کا استعمال بھی شروع کر دیا ہے اور جس طرح کے ٹویٹر پیغامات وہ نشر کر رہے ہیں اس سے ان کی علمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ان کے طنز میں مزاح کا پہلو ہوتا ہے جب کہ مودی کے طنز میں طعن و تشنیع کا ۔یہی راہل کو مودی سے ممتاز کرتا ہے۔ گزشتہ دو مہینوں میں راہل کو ٹویٹر پر فولو کرنے والوں کی تعداد میں ۲۰؍ لاکھ کا اضافہ ہوا ہے جو برسر اقتدار حکومت اور بالخصوص مودی کے لئے فکر کا سامان بنا ہوا ہے۔
اسی لئے مودی اور حکومت کو یہ ضرورت پیش آئی ہے کہ کیوں نہ ایک ایسی سروے رپورٹ پیش کی جائے جو راہل کے اِن ترقیات کو زائل کر دے ،سو امریکہ کی پِیو(PEW) ریسرچ سینٹر کی رپورٹ منظر عام پر لائی گئی اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ مودی جی آج بھی ہندوستان میں پہلی پسند ہیں ۔۱۰۰؍ میں سے ۸۸؍ لوگ انہیں پسند کرتے ہیں جب کہ راہل کو ۵۸؍،سونیا گاندھی کو ۵۷؍ اور اروند کیجریوال کو ۳۹؍افراد۔اس سروے میں کیرلا،شمال مشرقی ریاستیںاورجموں کشمیرشامل نہیں ہیں اور ملک کے وہ حصے جو حساس ہیں اور جہاں پر تحفظ کا معاملہ درپیش ہے لیکن ان کی نشان دہی نہیں کی گئی ہے۔ہنسی کی بات تو یہ ہے کہ جنوبی ہند میں ۹۵؍فیصد لوگوں کی پسند مودی ہیں اور شمالی ہند تو ان کی جیب میں ہے۔ا سی طرح چند دنوں قبل عالمی بینک کی ہندوستان کے لئے ’اِیز آف ڈوئنگ بزنس ‘یعنی تجارت میں سہولت کی درجہ بندی جو ۱۳۰؍سے کھسک کر ۱۰۰؍ پر آگئی تھی ، کو بی جے پی نے بہت زور و شور سے بھنانا شروع کیا اور اس کے وزراء یہ تاثر دینے لگے کہ مودی جی کی پالیسی نے عالمی ادارے کو ایسی درجہ بندی کرنے پر مجبور کیا اور ہم کرپشن پر قابو پانے میں کامیاب ہیں لیکن وہ جانتے بوجھتے انجان بنتے ہیں کہ یہ درجہ بندی صرف ممبئی اور دہلی شہروں کوپرکھ کر کی گئی تھی۔ممبئی پہلے سے ہی سرمایہ داروں کی پہلی پسند رہا ہے اور گزشتہ کانگریس کی حکومتوں کے دوران بھی یہی نتائج تھے۔رہی دہلی کی بات تو وہاں کیجریوال کی حکومت ہے اور اُس حکومت کے پیدا کئے گئے انفرا سٹکچر کی وجہ سے ایسا ممکن ہو سکا۔پھر اس میں مرکزی حکومت کو اپنی پیٹھ تھپتھپانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے علاوہ امریکی ایجنسی ’مُوڈی‘ کی ہندوستان کی اقتصادی مثبت ریٹنگ بھی شک کے دائرے میں ہے کیونکہ یہاں زمینی حقائق کچھ اور ہی نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ ذرا سی بھی کامیابی دیکھ کر بی جے پی اور اس کے وزراء اسے تِنکا سمجھنے لگتے ہیں اور اسے کوئی عجوبہ سمجھ کر جھومنے لگتے ہیں ۔اسی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کتنے کچے ہیں ،اپنے ہوم ورک میں،اپنے کام میں اور اس کی ڈیلیوری میں۔۔۔۔لیکن عوام پھر بھی عوام ہے اور یہاں حکومت بھی جمہوری ہے!
…………………………
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883