گزشتہ چند برسوں کے دوران ہمارے معاشرے میںسوشل میڈیا کے چلن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، مگر جس طرح ہر چیز کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہوتے ہیں،اُسی طرح سوشل میڈیا کا بھی حال ہے۔ جہاں سوشل ویب سائٹس انفرادی اور گروہی سطح پر باہمی رابطوں کا ذریعہ ، اطلاعات اور خبروں کی ترسیل کا مؤثر ترین و سیلہ بن چکا ہے، وہیں ان کی وجہ سے معاشروںمیں بہت سی اخلاقی ، سماجی اور جسمانی خرابیوں نے بھی فروغ پایا ہے،جن سے ہمارے نوجوان نسل کی ایک بڑی تعدادبُری طرح شکار ہورہی ہے۔ خصوصاً ہماری نئی نسل پر جو مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں،اُنہیں دیکھ کر یہی ظاہر ہورہا ہے کہ ہمارا نوجوان اپنی بنیادی ذمہ داریوں اور تخلیقی صلاحیتوں سےسے دور ہوتا چلاجارہا ہے۔ ٹوئٹر، فیس بک وغیرہ جیسی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ساتھ بے جا مشغول و مصروف رہنے کی وجہ سے نوجوانوںکی زیادہ تعداد تنہائی پسندبن گئی ہے اور الگ تھلک زندگی گذارنے کو ترجیح دینے لگی ہے۔ظاہر ہے کہ دن میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ سوشل میڈیا کے استعمال سے کوئی بھی فر د سماج سے الگ تھلگ نہیں ہوسکتا ۔ لیکن روزانہ تین چار گھنٹے سوشل میڈیا کے ساتھ گذارنے والے فرد کے لئے سماج سے الگ تھلگ ہونے کےامکانات بہت بڑھ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ حقیقی دنیا سے دور ہوجاتا ہےاور پھر تنہائی محسوس کرنے لگتا ہے۔سماجی طور پر الگ تھلگ ہونے کی اصطلاح ایسے افراد کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو اپنے گھروالوں، رشتہ داروں،اقرباء اوراحباب ،یہاں تک اپنے ہمسایوںسے بہت کم رابطے میں رہتے ہوں۔دیکھنے میں اب یہ بھی آرہا ہےکہ ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق ، گپ شپ ،غور و فکر یا سنجیدہ بحث و مباحثہ جیسے مناظر اب دورِ ماضی کی باتیں ہو چکی ہیں۔ اب عموماًہمارے نوجوان اپنی جیب سے موبائل نکال کر گردن جُھکائے اِنٹر نیٹ کی دنیامیںکھو جاتے ہیں۔یہ سلسلہ ایک فکر انگیز معاملہ ہے کیونکہ دماغی صحت کے مسائل اور سماجی تنہائی ہمارے نوجوانوں میں بڑے پیمانےپر پھیل رہی ہے۔ماہرین ِ نفسیات کے مطابق سوشل میڈیا کا تواتر کے ساتھ استعمال خاص طور پر فیس بک کا استعمال انسان کے خیالات اور جذبات پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے،جس کی وجہ سے وہ معاشرے سے دور ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے نئی نسل سماجی تعلقات بنانے سے قاصر ہو رہی ہےاور اُسے لوگوں سے میل جول اور تعلقات بنانے میں دلچسپی نہیں رہتی ہے۔اگرچہ وہ آن لائن سینکڑوں دوست بنا لیتے ہیں لیکن حقیقی زندگی میں وہ تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیںاور خاندان کے افراد کے ساتھ بھی اُن کامیل ملاپ نہیں رہتا ہے۔یہی صورت حال اُنہیں مختلف نفسیاتی مسائل سے دوچار کردیتی ہے۔ اس لئے ہمیں اس غلط فہمی میں ہرگز نہیں رہنا چاہئے کہ سوشل میڈیا نے ہمیں ایک دوسرے سے باندھ کر رکھا ہے بلکہ حقیقت یہی ہے کہ یہ ہمیں اپنے حقیقی قرابت داروں سے دور کرکے تنہا کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر جتنے زیادہ طبقات، رہن سہن، طرزِ زندگی کے فرق نظر آتے ہیں، اُتنے ہی نوجوان احساسِ کمتری کےشکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ویب سائٹس پر پوسٹ کی جانے والی تصاویر نوجوانوں کی زندگیوں پر گہرے اثرات ڈالتی ہیں۔ اکثرنوجوان ایسی تصاویر یا پوسٹ شئیر کرتے ہیں ،جن سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک انتہائی حیرت انگیز اور بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ جسے دیکھ کر اکثر نوجوان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جیسے اُن کی زندگی میں خوشی کی کوئی گھڑی ہی نہیں ہےاور وہ دوسروں کے مقابلے میں کمتراور پست زندگی جی رہے ہیں ،گویا وہ اپنے آپ کو دوسروں سے بہت پیچھے تصور کرتے ہیں۔چنانچہ یہی سوچ و فکراُنہیں تنہائی پسند بنا دیتی ہے،یہ صورتِ حال جب بیماری کی شکل اختیار کرلیتی ہے تووہ اُنہیں ذہنی و جسمانی طور پر مفلوج کرڈالتی ہے۔تحقیق کے مطابق سماجی میل جول نہ رکھنا اور تنہائی اختیار کرنا، عمر بڑھنے کے ساتھ صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہا جائے، اپنی تنہائی کو سوشل میڈیا پر بانٹنے کی بجائے اصل زندگی میں کسی کے ساتھ شیئر کیا جائے۔ سوشل میڈیا کو اضافی چیز سمجھا جائے نہ کہ اسے سماجی تعلقات کا متبادل مانا جائے۔آنے والا وقت ٹیکنالوجی کی کیا نئی نئی اور حیرت انگیز ایجادات پیش کرے گا، ہم شاید اس کا تصور بھی نہ کرسکیں ،لیکن ایک بات یقینی ہے کہ اگر بر وقت اقدامات نہیں کئے گئے تو ٹیکنالوجی سے ہونے والے نقصانات دن بہ دن بڑھتے ہی جائیں گے۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک اس سمت میں ہم کچھ نہیں کر پاتے،جبکہ نوجوان ہمارا سرمایہ ہے اور ہمیں نوجوانوں کی توانائی اور صلاحیتوں کو صحیح سمت دینے کی ضرورت ہے ۔اگر ہمارا نوجوان صحیح سمت پر چل پڑا تو سمجھیں کہ ہماری معاشرہ صحیح راستے پر ہے ۔ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کا استعمال کریں لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کے نقصانات کو بھی نئی نسل کے سامنے پیش کریں اور انھیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ کریں۔