اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
یہ شعرکشمیرمیں انٹرنیٹ اورشوشل میڈیاپرقدغن پرمنیرنیازی کا شعرپوری طرح صادق آتاہے ۔جب عوام سے کٹے مقتدر قوتوں کامزاج اس حدتک بگڑجائے کہ وہ اپنے کرتوت اور زمینی حقائق کوچھپانے کے لئے ذرائع ابلاغ کے جدیداور نئے ذرائع نٹرنیٹ اورسوشل میڈیاکوبیڑیاں پہنادیں تواس پرکہیں سے کوئی آوازبلندنہ سکے توسمجھ لیناچاہئے کہ اجتماعی ضمیرکاسینسرناکارہ ہوچکاہے۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا کی بڑی اہمیت ہے۔ سوشل میڈیا سے مراد انٹرنیٹ بلاگز، سماجی روابط کی ویب سائٹس، موبائل ایس ایم ایس اور دیگر ہیں، روایتی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی اور دیگر کاروباری افراد معلومات کو عوام تک پہنچانے کے لیے بڑی تعداد میں سوشل میڈیا سائٹس جیسے فیس بک، ٹوئٹر، مائی اسپیس، گوگل پلس، ڈگ اور دیگر سے جڑے ہوئے ہیں۔سوشل میڈیا الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے بھی زیادہ تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ میڈیا کے ذریعے معلومات کا ذخیرہ آپ تک خودبخود بذریعہ ای میل اور انٹرنیٹ بلاگ پوسٹس پہنچ جاتا ہے، ایک چھوٹی سے چھوٹی خبر کو مقبول کرنے کے لیے کسی بھی سوشل سائٹ میں صرف ایک پوسٹ شیئر کرنے کی ضرورت ہے، پھر یہ خودبخود ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے فرد تک پہنچ جائے گی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے انسان کو اتنا ترقی یافتہ بنادیا ہے کہ وہ اپنا وقت ضائع کیے بغیر کہیں بھی بیٹھے بیٹھے پوری دنیا سے سوشل میڈیا کے ذریعے میل جول رکھ سکتا ہے۔
فیس بک پر موجود لوگوں کو اگر ایک ملک کی آبادی کے مطابق جانچا جائے تو یہ دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے اور سوشل میڈیا ویب پر حاوی ہے۔ جب کہ جسٹن بیبر، کیٹی پیری اور لیڈی گاگا کے ٹوئٹر فالوورز جرمنی، ترکی، جنوبی افریقہ، ارجنٹائن، مصر اور کینیڈا کی آبادی سے زیادہ ہیں۔سوشل میڈیا تجارتی، پیشہ وارانہ، ذاتی اور تنظیمی برانڈ سازی کے لیے زبردست امکانات رکھتا ہے۔سوشل میڈیا پر ہر قسم کی بات کی جاسکتی ہے اور لوگ اپنی پسند کے مطابق ہر نسل اور رنگ کے لوگوں سے رابطہ کرسکتے ہیں، جن سے وقت کے ساتھ ساتھ ایک تعلق اور دوستی کا رشتہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ فیس بک کے ساتھ ساتھ ’’ٹوئٹر ‘‘ایک مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ہے جس کی تعریف سے ظاہر ہے کہ یہ مختصر طور پر اظہارِ رائے کی جگہ ہے۔ اس ویب سائٹ پر آپ اپنی رائے کا اظہار ایک سو چالیس حروف میں کرتے ہیں۔ یہ دنیا میں ہونے والے حالات و واقعات پر نظر رکھنے کا سب سے بہتر ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ بعض لوگ ٹوئپس اور ٹوئپلز کے ناموں کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ ٹوئٹر پر آپ کو مختلف لوگ جو آپ کی باتوں، کام یا دلچسپیوں سے ہم آہنگی رکھتے ہیں یا پسند کرتے ہیں، فالو کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ جو بات بھی ٹوئٹر پر لکھیں گے وہ ان تک پہنچے گی۔اگر آپ کسی صحافی،، سیاستدان، ادارے، چینل، اخبار یا کسی بھی شخصیت کو پسند کرتے ہیں اور ان کی باتوں یا کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ٹوئٹر آپ کو یہ سہولت دیتا ہے کہ آپ ان کو فالو کرکے ان تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔
باقی تمام ذرائع کی نسبت ٹوئٹر پر جلدی جواب دیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کی کہی ہوئی بات زیادہ افراد تک جائے گی۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے سو فالوورز ہیں اور ایک ہزار فالوورز رکھنے والی کوئی شخصیت آپ کی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتی ہے تو آپ کی لکھی ہوئی بات گیارہ سو ٹوئٹرز تک پہنچ جاتی ہے۔آپ کسی بھی شخصیت یا ٹوئٹر کا اکاونٹ رکھنے والے شخص کو ٹیگ کرسکتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ آپ اس تک اپنی بات پہنچا سکتے ہیں جو اس کے کنیکٹ یا انٹریکشن کے صفحے پر ظاہر ہوگی۔ اس ذریعے سے بہت سارے افراد مختلف سیاستدانوں اور صاحبان الرائے افراد تک اپنی بات پہنچاتے ہیں اور اکثر اس کا جواب بھی دیتے ہیں۔اس بحث میں شامل لفظ کا استعمال اہم ہے۔ٹوئٹر پر ٹرینڈ ایک ملک کی سطح یا پوری دنیا میں کیا جاسکتا ہے ۔انٹرنیٹ پربلاگ اور فورم وغیرہ پر لکھا محفوظ رہتا ہے۔ آپ لکھنا چھوڑ بھی دیں تو آپ کی پرانی تحریروں سے لوگ فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔ مواد تلاش میں آسان ہوتا ہے، اور سب سے بڑھ کر سرچ انجن بلاگ کو صرف منہ ہی نہیں لگاتے بلکہ بلاگ سرچ انجن کا چہیتا ہے۔لوگوں میں آگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ فیس بک جس کام کے لیے بنی ہے اس سے وہی کام لیں بلکہ اچھی طرح لیں، مگر سستی اور عارضی شہرت و حوصلہ افزائی کے پیچھے نہ بھاگیں اور اصل بات کو سمجھیں۔ اپنی قیمتی تحریروں کو مناسب جگہ پر رکھیں تاکہ لوگ آسانی سے اور دیر تک ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اس طرح انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے مظلوم ومغلوب عوام کو وسیلۂ اظہار کی زبان دی ہے اور محکوم عوام اپنے جذبات کاترجمان بنا۔انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ظالم قوتوں اورطاقتور حلقوں کے استحصال کا شکار عوام کے لئے امید کی نئی کرن بھر کر ابھرا ہے اور لوگ بھرپور طریقے سے اس کو اظہار خیال کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔مظلوم کی آہوں اورسسکیوں کودنیاتک پہنچانے کے لئے طاقتور سوشل میڈیا نے ہی ممکن بنایا ۔ جب روایتی میڈیانیٹ ورک کشمیر،شام،برما اوردیگر مظلومین کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرنے سے قاصر تھا تو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بدولت ہی یہ ممکن ہوا کہ’’ نیویارک ٹائمز‘‘نے بیروہ بڈگام کے فاروق احمد ڈار کو ۹ ؍ اپریل کو عین نام نہاد پولنگ کے دن انسانی ڈھال بنانے کے دل خراش واقعہ کے لئے اپناادارتی صفحہ مختص کرڈالا ۔ کشمیر ہو یا شام وفلسطین اور دیگر خطہ ہائے مخاصمت میں شہید یا زخمی ہونے والوں کی ویڈیوز اور تصاویر منٹوں میں انٹرنیٹ پر پھیلا دی جاتی رہی ہیں جس سے ان قوموں پر مسلط مقتدرقوتوں کی بڑے پیمانے پر تنقید یںہونے سے ان طاقتوں کو ہوش کے ناخن لینے کی فہمائش بھی ہوتی مگر دلی نے سماجی رابطہ اور انٹرنیٹ پر سنگینوں کے پہرے بٹھاکر کشمیر کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں اصلاح کر نے کے مواقع کو کنوادینے کی قسم کھائی ہے ۔ دلی کے دل میں کشمیرکے حوالے سے کیاماکولات ہیں ،انٹرنیٹ نے اس کاالٹراسائونڈکرکے سب کے سامنے پیش کردیتا۔بدقسمتی سے تحریک کشمیرکوعالمی سطح کے کسی میڈیاکی سپورٹ حاصل نہیں رہی ۔ لے دے کرصرف اورصرف پاکستان کامیڈیااس کے ساتھ کھڑارہامگریہاں بھی ایک بدقسمتی شامل حال ہے کہ وہ بھی اس انتظارمیں رہتاہے کہ جب کشمیری مرجائیں ، کٹ جائیں توتب ہی وہ کہیںکشمیرکی کرب ناک تصویرسامنے لاتاہے ورنہ وہ بھی مسلسل سکوت و خاموشی کی لحاف تلے دبک جاتا ہے!!! اگریہ کہاجائے کہ سری نگرعالمی میڈیاکی نظروں سے اوجھل ہے تودُرست ہے ۔سری نگرمیں کوئی آزادالیکٹرانک میڈیاموجود ہی نہیں ہے اور جو مقامی صحافی اپنی جان پر کھیل کر اپنے پیشے کا تقدس ہر حال میں برقرار رکھنے کے لئے میدان عمل میں ہیں ،ان کی راہ کے روڑے کتنے ہیں ،ان کا شمار بھی ناممکن العمل ہے۔وادی میںصرف بھارت کے وہ میڈیاچینل آزاد ہیں جووہی کچھ دکھاتے اور بتاتے پھر تے ہیں جودلی کی کشمیر پالیسی کی پذیرائی میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی وسیع تر تشہیری مہم خاص سے میل کھائے اور ہندی بیلٹ کے مائنڈ سیٹ سے ہم آہنگ ہو ۔ سری نگرمیںخبروں کی ترسیل واشاعت کاانحصارصرف اخبارات پر ہے لیکن یہاں سے شائع ہونے والے چندایک اخبارات کوچھوڑکر زیادہ ترمقامی صحافی دبائو کاشکارہیں۔جب پریس سرکاری دبائومیںہوتویہ ایک بدیہی امرہے کہ سری نگرسے شائع ہونے والے اکثر اخبارات کا انداز بیان پن نئے صحافتی رجحانات کا ساتھ دینے کی صلاحیت سے تہی دامن ہیں۔ صحافتی برادری میں بعض دوست سرکارکی سخت گیریت اوربھارتی فوج کے کڑے تیورکے پیش نظرذاتی تحفظ کے احساس سے پھوٹنے والی حکمت عملی اختیارکرتے ہوئے سرکار کی سیاسی صورت حال کے حوالے سے کارکر دگی پر کوئی ایک تنقیدی لفظ بھی نہیں لکھ پاتے کہ جو پیشہ ٔ صحافت تقاضا کرتاہے۔ادھردلی کازعفرانی میڈیاماینڈسیٹ پہلے ہی تحریک کشمیرکے خلاف مورچہ زن ہوکرزہراگل رہاہے مگرظلمت کے ایسے عالم میں بعض شیردل کشمیری صحافی سچائی لکھنے سے قاصر نہیں بلکہ وہ سری نگراور دلی دونوں سرکاروں کوکشمیر کی زمینی حقیقتوں کے بارے میں حتی المقدور آئینہ دکھارہے ہیں۔مجموعی طورپرمیڈیاکی غیر جانب دارعدم دستیابی اورعدم تعاون کے عالم میں گذشتہ دوتین برسوں کے دوران انٹرنیٹ اورشوشل میڈیاسرکاری عتاب کا شکار بنا رہا مگر زمانے کی الٹی گردش دیکھئے کہ کے لئے یہ جبری اہتمام اینٹی کلائیمکس ثابت ہوا کہ اربابِ اقتدار کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ چونکہ ا نٹرنیٹ اورشوشل میڈیا میڈیاہی وہ واحدذریعہ تھاجوکشمیرمیںفورسزکی بربریت کاپردہ چاک کرتے ہوئے کشمیر اورکشمیریوں کے درپیش حالات پر سچائی سامنے لاتارہا اورکشمیرکاکے حوالے سے ولولہ انگیزوارفتگی کاماحول پیداکرتارہا۔سوشل میڈیا آن واحدمیں کشمیرمیں ہورہے ظلم وستم کی پل پل کی خبردیتارہا ۔سوشل میڈیا کی لائیوکوریج کے ذریعے سے کشمیریوں پربیت جانے والے زہرناک مظالم کاپتادیتارہاجسے کشمیرکے ناگفتہ بہہ صورتحال کااندازہ آسانی کے ساتھ لگ جاتاتھا۔
16؍اپریل سوموار کو وادی ٔکشمیر کے پلوامہ ڈگری کالج سے شروع کر کے کئی ایک تعلیمی اداروں میںبھارتی فوج اور نیم فوجی دستوںکی اشتعال انگیز اور قابل ا عتراض کارروائیوں کے خلاف طلبہ وطالبات میں احتجاجی مظاہرے بھڑک اٹھے اور ہر جانب ہاہاکار مچ گئی ۔ اس کے بعد ساتھ ہی حکومتی ہدایات کے تحت مواصلاتی کمپنیوں نے وادی کشمیرمیںتھری اور فور جی انٹرنیٹ سروس منقطع کردی لیکن جب سرکارکا جی نہ بھراتو26؍اپریل بدھ کودہلی سے مکمل طورپر انٹرنیٹ کی معطلی کاحکم جاری ہواور وادی کشمیر میں سوشل میڈیا پر ایک ماہ تک پابندی عائد کرتے ہوئے تمام مواصلاتی کمپنیوں سے اس پابندی پر عمل در آمد یقینی بنانے کیلئے کہا گیا۔بھارت کی وزارت داخلہ کی جانب سے بھارت کی تمام ٹیلی کام کمپنیوں سے کہاگیاکہ سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں پر پابندی عائد کی گئی ہے، اس لئے وہ فیس بک،وٹس ایپ ،ٹویٹر ، کیو کیو ، کیو زون ، ٹمبلر ، بیڈو ، سکائپ ،وائبر ،لائن ،سنیپ چیٹ، پنٹر سٹ، ٹیلی گرام ، ریڈٹ،سنیف فش، یو ٹیوب ،وائن ،زینگا ، ،فلیکر ، بزنیٹ، وی چیٹ،گوگل پلس کی سروسزکوبندکردیں ۔انہیں بتایا گیا ہے کہ ا حکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف متعلقہ قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔ ظاہر ہے سرکارنے دراصل اپنے امن و قانون کے نام پر وردی پوشوں کی انسا نیت سوز کارروائیوں کی اصل تصویر دنیا کی آنکھوں سے چھپانے کے لئے کشمیرمیں سوشل میڈیااورنٹرنیٹ سروس بندکردی مگر عذر لنگ یہ تراشا گیاکہ انٹرنیٹ اورسوشل میڈیاکشمیری نوجوانوںکو سڑکوں پرلانے کایہ واحدذریعہ ہے۔اس لئے اسے بندکیاجارہاہے۔ حالانکہ معاملہ اس کے بالکل الٹا پلٹ ہے اور واضح کر تاہے کہ وردی پوشوں کی جبروزیادتیوں سے حسب توقع کشمیر ی عوام میں ایک تیکھاردعمل پیدا ہوا جس نے مظاہروں ، احتجاججوں اور سنگ اندازیوں اک روپ دھارن کردیا۔
کشمیرمیں انٹرنیٹ کی بندش سے ایک بارپھرواضح ہواکہ کشمیرمیں آمریت کا راج نافذہے ۔آمریت میں ایساہی ہوتاہے کہ بادشاہ سلامت کے مزاج پرجوچیز گراں گذرے وہ کالعدم ہوتی ہے اور خلاف قانون قرارپاتی ہے ۔اسی اوٹ پٹانگ قانون کے تحت ہی انٹرنیٹ سروس اورسوشل میڈیا پر پابندی عائدکرکے دورِ جدید میں وادی کو اندھیروں میں دھکیلاگیا۔ پوری دنیاکی طرح کشمیری بھی رسل و رسائل ،کاروبار ، تعلیم ، پیشہ وارانہ سرگرمیاںاوردیگر امورکی انجام دہی کے حوالے سے انٹرنیٹ پر ہی انحصار کرتے ہیں، ایسے میںکشمیر کے لوگوں کو اس بنیادی ضرورت سے محروم رکھا جارہا ہے ، جو سراسر ناانصافی اور امتیازی سلوک کاعکاس ہے۔ وادی میں انٹرنیٹ خدمات کے منقطع رہنے سے لاکھوں صارفین مشکلات سے دوچار ہیں، کاروبار،تعلیم، رسل ورسائل اورپیشہ وارانہ سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوگئیں ہیں۔ کشمیرکے ڈاکٹرز عالمی سطح پر نئی تحقیق اورپروفیسر زنئی جانکاری لینے اور سٹوڈنٹس آن لائن فارم بھرنے اور مختلف محکمہ جات کی جانب سے فراہم کی گئی نوٹیفکیشنوں سے متعلق آگاہی حاصل کرنے سے بھی محروم ہیں یہی نہیں بلکہ شہر میں بیشتر میڈیا ، کارپوریٹ اور سرکاری دفاتربھی انٹرنیٹ پر پابندی کے نتیجے میں سخت مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جو وادی میں رہ کر ہی بیرون ممالک کی کمپنیوں کیے ساتھ کام کرکے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں لیکن انٹرنیٹ پر پابندی کے بعد ان میں سے بیشتر نوجوان اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ تاہم اب انٹر نیٹ پر پابندی کو جزوی طور نرم کیا گیا ہے مگربہت ساری نیٹ خدمات ابھی تک معدوم ومفلوج ہیں ۔
گذشتہ کئی برسوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ کشمیرمیں سوشل میڈیاپرقدغن روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ جسے دیکھ کریہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ کشمیرمیں انٹرنیٹ سروس اورسوشل میڈیاپرکرفیو کا نفاذ عمل میں لایاگیاہے۔2016 کی عوامی ایجی ٹیشن کے دوران 6ماہ تک انٹرنیٹ سروس اورسوشل میڈیا پر قد غن عائدرہی ۔اس طرح وادی میں انٹرنیٹ سروس اورسوشل میڈیاپر پابندیاں اب ایک تشویش ناک مسئلہ بن چکا ہے جس کے منفی اثرات صرف طلبا ء پر ہی نہیں بلکہ تجارتی شعبے پر بھی پڑ رہے ہیں جبکہ انٹرنیٹ پر بار بارقد غن سے عام لوگوں کو بھی بڑے پیمانے پر پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ای کامرس اور دیگرآن لائن تجارتی سرگرمیوں اس دوران ٹھپ ہو جاتی ہے ۔وادی میں 2012 سے اپریل 2017 تک 30 مرتبہ انٹرنیٹ سروس معطل رکھی گئی۔ دستیاب اعداد وشمار کے مطابق2012کے دوران3مرتبہ جبکہ 2013,، 2014 اور 2015کے دوران ہر مرتبہ5بار وادی میں انٹرنیٹ سروس منقطع کی گئی جب کہ سال2016کے دوران10مرتبہ 6ماہ کے لئے انٹرنیٹ سروس کو منقطع کیا گیا۔ 2016کی عوامی ایجی ٹیشن کے دوران19جولائی سے19نومبر تک انٹرنیٹ سروس کو 5ماہ تک منقطع رکھا گیا ۔16اپریل کوڈگری کالج پلوامہ میں طالب علموں کے خلاف بے تحاشا طاقت کے خلاف وادی کے کئی تعلیمی اداروں میں احتجاجی تحریک شروع ہونے کے پیش نظرانٹرنیٹ پر ایک بار پھر پابند ی عائد کی گئی جو مسلسل جاری رہی اور اب جزوی طور ہی اٹھائی گئی ہے ۔انٹرنیٹ سروس کی معطلی کے باعث وادی میں کاروباری طبقے ، پیشہ ور انہ افراد اور طالب علم ذہنی کوفت کاسامان کر رہے ہیں۔ بہر حال انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید دور میں الیکٹرانک کرفیو کا نفاذ عمل میں لانا دقیا نوسی ذہن اور اذیت پسند سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
���