شبیر احمد مصباحی
یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں، بس سات آٹھ سال پہلے کی، جب میں نے “سوشلستان” نامی ایک تحریر لکھی تھی۔ احباب نے اسے پذیرائی بخشی مگر وقت کا پہیہ گھوما اور سوشلستان کے رنگ بدل گئے۔ وہی لوگ، وہی پلیٹ فارم مگر مزاج اور ترجیحات سب کچھ بدل چکا ہے۔ آج کے سوشلستان میں کیا کچھ نیا ہے، کیا کچھ کھو چکا ہے، یہی سب آج میں آپ کی عدالت میں پیش کر رہا ہوں۔
تب سوشلستان میں لوگ سنجیدہ ملتے تھے، گفتگو میں شائستگی تھی، تحریریں پڑھنے کا رجحان تھا اور اصلاح کی روایت بھی موجود تھی مگر آج؟ آج تحریریں پڑھنے کا رواج کم، اور سرسری دیکھنے کا رجحان زیادہ ہے۔ لوگ صرف مشہور ناموں کی پوسٹ پر حاضری دینا ضروری سمجھتے ہیں اور تبصرہ بھی زیادہ سے زیادہ “بہت خوب” “خوبصورت”یا “واہ کمال” جیسے رٹے رٹائے الفاظ تک محدود رہتا ہے، چاہے پوسٹ پڑھی ہو یا نہیں۔
تصویریں اور سیلفیاں، ان پر تو لائکس اور کمنٹس کی بہار رہتی ہے۔ ان کے ذریعے کم از کم یہ سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے کہ پوسٹ کرنے والے اور دیکھنے والوں کی ذہنی کیفیت کیا ہے۔
اتنے برس سوشلستان میں گزارنے کے بعد میں ایک بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں: یہاں جو لوگ خود کو پیش کرتے ہیں، حقیقت میں وہ ویسے نہیں ہوتے۔
سوشلستان کی ایک بڑی آبادی اب “واٹس ایپ وادی” میں بسیرا کر چکی ہے مگر وہاں بھی حالات مختلف نہیں۔ اب یہ محض پیغام رسانی کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ ایک بے معنی شور بن چکا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائیدہ یہ ہے کہ آپ کسی کو بھی، جو آپ کی باتوں سے عاجز آ چکا ہو، زبردستی کسی گروپ میں شامل کر سکتے ہیں اور اسے اپنی “ہفتاد” سننے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
اس وادی میں تبصرے اور ردعمل شخصیت دیکھ کر کئے جاتے ہیں، مواد کی بنیاد پر نہیں۔ یہاں چند “چمچے” ہمیشہ موجود رہتے ہیں جو ہر حال میں اپنی محبوب شخصیت کی تعریف کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ ان کے پاس بھی تعریف کے لئے مخصوص الفاظ ہوتے ہیں: “لاجواب” “کمال” “عمدہ”چاہے وہ پوسٹ میں لکھی ہوئی بات کو سمجھیں یا نہ سمجھیں۔
ایک اور دلچسپ روایت اگر آپ دس گروپوں میں شامل ہیں تو ایک ہی پوسٹ دس بار دیکھنے کو ملے گی، کیونکہ “بھکت” اپنے محبوب کی ہر بات کو “فرضِ منصبی” سمجھ کر ہر جگہ شیئر کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اب سرکاری اور نیم سرکاری ادارے بھی سوشلستان اور واٹس ایپ کے محتاج ہو چکے ہیں۔ پہلے سرکاری اطلاعات کے باضابطہ ذرائع ہوتے تھے مگر اب دفاتر کے احکامات اور ہدایات بھی واٹس ایپ گروپوں کے ذریعے دیئے جاتے ہیں۔ یعنی دفاتر کی میزوں کا کام بھی سوشلستان کے کندھوں پر آ چکا ہے۔ اس وادی کا استعمال کچھ لوگ اپنی قابلیت کا سکہ جمانے کے لئے بھی کرتے ہیں۔ بس چند ناسمجھ لوگوں کے ساتھ چند بے بس افراد کو زبردستی کسی گروپ میں شامل کر لو، پھر وہاں اپنی سطحی اور بے معنی باتیں پوسٹ کر دو۔ گروپ میں موجود چاپلوس اور بے سوچے سمجھے داد دینے والے فوراً اسے “لاجواب تحریر” قرار دے دیں گے لیکن اگر کوئی دوسرا شخص اپنی کتنی ہی عمدہ اور معیاری تحریر شیئر کرے، تو یہی لوگ فوراً اسے “نامکمل” اور “سڑک چھاپ” کہنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔
غرض یہ کہ ہماری غیر ذمہ دارانہ حرکتوں نے ہر کارآمد چیز کو بگاڑنے میں اپنا اثر چھوڑا ہے۔ ترقی یافتہ قومیں شاید ابھی سوشلستان کے اس طرح کے استعمال سے نابلد ہیں مگر ہم نے اسے بے مقصدیت کی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ سوشلستان کا بے جا استعمال کرنے کے بعد بھی لوگ اسی کو قصوروار ٹھہراتے ہیں، یعنی “کارِ بد خود کریں، لعنت کریں شیطان کو۔”
لیکن میری رائے اس سے مختلف ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر سوشلستان کے خالق کا تعلق میرے مذہب یا فرقے سے ہوتا، تو اسے جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا ہوتا کیونکہ یہ ان افراد کے لئے ایک پناہ گاہ ہے جو سماج میں نظرانداز کر دیئے جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنے دکھ درد کسی سے کہہ نہیں سکتے، سوشلستان میں کچھ دیر کے لئے ہی سہی، مگر خود کو تنہائی اور سماجی الجھنوں سے آزاد محسوس کرتے ہیں۔ اور ویسے بھی، آج کے زمانے میں کس کے پاس وقت ہے کہ وہ کسی اور کے درد کو سنے؟ ایسے میں اگر کوئی شخص سوشلستان میں کھو کر اپنے غم کو بھولنے کی کوشش کرے تو کیا اس کا کریڈٹ سوشلستان کے خالق کو نہیں جاتا؟۔
لوگ کہتے ہیں، “ہر کوئی اسی میں مصروف ہے!” تو بیزی (Busy)نہ ہو کر کیا کریں؟ عمدہ تعلیم امیروں کا حق ہے اور غریبوں کے لئے سرکاری اسکول کافی ہیں۔ یہی سرکاری اسکول اگر واقعی تعلیم کے سرچشمہ ہیں تو اساتذہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں کیوں بھیجتے ہیں؟ روزگار اگر صرف ٹھیلے پر پکوڑے تلنے کا نام ہے تو پھر آئی اے ایس اور آئی پی ایس کے بجائے ٹھیلوں سے ہی ایڈمنسٹریٹر کیوں نہیں چنے جاتے؟ سال میں دس بیس ہزار کمانے والا اگر غریب نہیں ہے، تو پھر سیاستدانوں اور سرکاری ملازمین کو مہنگائی بھتہ کے نام پر اضافی مراعات کیوں دی جاتی ہیں؟ جو امیر ہے، وہ مزید امیر ہو کر بھی قرض معافی کا حق دار بن جاتا ہے اور جو غریب ہے، وہ قرضوں کے بوجھ تلے دب کر خودکشی کر لیتا ہے تو پھر بینک غریبوں کو قرض دیتے ہی کیوں ہیں؟
جب سماج میں زندگی گزارنے کے پیمانے الگ الگ مقرر کئے جائیں، تو ایسے میں کوئی شخص سوشلستان میں کھو کر اپنے غم ہلکے نہ کرے، تو کیا کرے؟ کیا تم چاہتے ہو کہ وہ زہر کھا لے؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اکثر کے پاس تو زہر خریدنے کے بھی پیسے نہیں ہوتے۔
معاشرہ اگر کسی کو جینے کا حق نہ دے، تو وہ کہاں جائے؟ اگر کوئی سوشلستان میں آ کر اپنے زخموں پر مرہم رکھ لیتا ہے تو کیا یہ جرم ہے؟
یہی سوچنے کی بات ہے، مگر سوچنے کے بجائے شاید آپ بھی بس “بہت خوب!” کہہ کر آگے بڑھ جائیں گے۔
���
کرگل، لداخ ،موبائل نمبر؛8082713692