اے نبیؐ ! مومن مردوں سے کہئے کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے۔(سورۃ النور آیت نمبر :۳۰)
غَض کے معنی ہیں کسی چیز کو کم کرنے ، گھٹانے اور پست کرنے کے۔ غَضِّ بصر کا ترجمہ عام طور پر نگاہ نیچی کرنا یا رکھنا کیا جاتا ہے لیکن در اصل اس حکم کا مطلب ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہنا نہیں ہے ، بلکہ پوری طرح نگاہ بھر کر نہ دیکھنا ، اور نگاہوں کو دیکھنے کے لیے بالکل آزادانہ چھوڑ دینا ہے۔ یہ مفہوم ’’ نظر بچانے ‘‘ سے ٹھیک ادا ہوتا ہے ، یعنی جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو اس سے نظر ہٹا لی جا ئے، قطع نظر اس سے کہ آدمی نگاہ نیچی کرے یا کسی اور طرف اسے بچا لے جائے۔ مِن اَبصارِھِممیں ’’مِن‘‘ تبعیض کے لیے ہے ، یعنی حکم تمام نظروں کو بچانے کا نہیں ہے بلکہ بعض نظروں کو بچانے کا ہے۔ با لفاظ دیگر اللہ تعالیٰ کا منشا ء یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کو بھی نگاہ بھر کر نہ دیکھا جاے ، بلکہ وہ صرف ایک مخصوص دائرے میں نگاہ پر یہ پابندی عائد کرنا چاہتا ہے۔ اب یہ بات سیاق و سباق سے معلوم ہوتی ہے کہ یہ پابندی جس چیز پر عائد کی گئی ہے وہ چاہے مردوں کا عورتوں کو دیکھنا، یا دوسرے لوگوں کے ستر پر نگاہ ڈالنا، یا فحش مناظر پر نگاہ جمانا۔
کتاب اللہ کے اس حکم کی جو تشریح سنت نے کی ہے اس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں :
1 : آدمی کے لیے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے۔ ایک دفعہ اچانک نظر پڑ جائے تو وہ معاف ہے ، لیکن یہ معاف نہیں ہے کہ آدمی نے پہلی نظر میں جہاں کوئی کشش محسوس کی ہو وہاں پھر نظر دوڑاو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بد کاری سے تعبیر فرمایا ہے۔ آپ ؐکا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے تمام حواس سے زنا کرتا ہے۔ دیکھنا آنکھوں کی زنا ہے۔ لگاوٹ کی بات چیت زبان کی زنا ہے۔ آواز سے لذت لینا کانوں کی زنا ہے۔ ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کے لیے چلنا ہاتھ پاؤں کی زنا ہے۔ بد کاری کی یہ ساری تمہیدیں جب پوری ہو چکتی ہیں تب شرم گاہیں یا تو اس کی تکمیل کر دیتی ہیں ، یا تکمیل کرنے سے رہ جاتی ہیں (بخاری ، مسلم، ابو داؤد)۔ حضرت بُرَیدَہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا :’’ اے علی! ایک نظر کے بعد دوسرے نظر نہ ڈالنا۔ پہلی نظر تو معاف ہے مگر دوسری معاف ہیں ‘‘(احمد، ترمذی ، ابو داؤد ، دارمی)۔ حضرت جریر بن بد اللہ بَجَلِی کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا: اچانک نگاہ پڑ جائے تو کیا کروں؟ فرمایا فوراً نگاہ پھیر لو ، یا نیچی کر لو(مسلم، احمد، ترمذی، ابو داؤد ، نسائی)۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورؐنے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (ترجمہ) ’’ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے ، جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کو چھوڑ دے گا، میں اس کے بدلے اسے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا (طبرانی)۔ ابو امامہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : ’’ جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹا لے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کر دیتا ہے ‘‘ (مسند احمد)۔ امام جعفر صادق اپنے والد امام محمد باقر سے اور وہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاریؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حجتہ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زاد بھائی فضل بن عباسؓ (جو اس وقت ایک نوجوان لڑکے تھے ) مَشعِرَ حرام سے واپسی کے وقت حضورؐکے ساتھ اونٹ پر سوار تھے۔ راستے سے جب عورتیں گزرنے لگیں تو فضل ان کی طرف دیکھنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اسے دوسری طرف پھیر دیا (ابو داؤد)۔ اسی حجتہ الوداع کا قصہ ہے کہ قبیلہ خَثعَم کی ایک عورت راستے میں حضورؐ کو روک کر حج کے متعلق ایک مسئلہ پوچھنے لگی اور فضل بن عباسؓ نے اس پر نگاہیں گاڑ دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا منہ پکڑ کر دوسری طرف کر دیا۔ (بخاری، ابو داؤد ، ترمذی)۔
2: اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ عورتوں کو کھلے منہ پھر نے کی عام اجازت تھی تبھی تو غضِّ بصر کا حکم دیا گیا، ورنہ اگر چہرے کا پردہ رائج کیا جا چکا ہوتا تو پھر نظر بچانے یا نہ بچانے کا کیا سوال۔ یہ استدلال عقلی حیثیت سے بھی غلط ہے اور واقعہ کے اعتبار سے بھی۔ عقلی حیثیت سے یہ اس لئے غلط ہے کہ چہرے کا پردہ عام طور پر رائج ہو جانے کے باوجود ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں ،جب کہ اچانک کسی عورت اور مرد کا آمنا سامنا ہو جائے اور ایک پردہ دار عورت کو بھی بسا اوقات ایسی ضرورت لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ منہ کھولے اور مسلمان عورتوں میں پردہ رائج ہونے کے باوجود بہر حال غیر مسلم عورتیں تو بے پردہ ہی رہیں گی۔ لہٰذا محض غضِّ بصر کا حکم اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کو مستلزم ہے اور واقعہ کے اعتبار سے یہ اس لئے غلط ہے کہ سورہ احزاب میں احکام حجاب بازل ہونے کے بعد جو پردہ مسلم معاشرے میں رائج کیا گیا تھا، اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں اس کا رائج ہونا بکثرت روایات سے ثابت ہے۔ واقعہ افک کے متعلق حضرت عائشہ ؓ کا بیان جو نہایت معتبر سندوں سے مروی ہے، اس میں وہ فرماتی ہیں کہ جنگل سے واپس آکر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے تو میں بیٹھ گئی اور نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ وہیں پڑ کر سوگئی۔ صبح کو صفوان بن معطلؓ وہاں سے گزرا تو دور سے کسی کو پڑے دیکھ کر ادھر آ گیا۔ ’’وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا کیونکہ حجاب کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا۔ مجھے پہچان کر جب اس نے انا للہ و انا لیہ راجعون پڑھا تو اس کی آواز سے مری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے منہ ڈھانک لیا‘‘۔ (بخاری، مسلم، احمد، ابن جریر ، سیرت ابن ہشام)ابو داؤد ’’ کتاب الجہاد ‘‘میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک خاتون اُم خلّاد کا لڑکا ایک جنگ میں شہید ہو گیا تھا۔ وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں ، مگر اس حال میں بھی چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی۔ بعض صحابہؓ نے حیرت کے ساتھ کہا کہ اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے ؟ یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا، اور تم اس اطمینان کے ساتھ با پردہ آئی ہو۔ جواب میں کہنے لگیں : ’’ میں نے بیٹا تو ضرور کھو یا ہے مگر اپنی حیا تو نہیں کھودی‘‘۔ ابو داؤد ہی میں حضرت عائشہ ؓکی روایت ہے کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو درخواست دی۔ حضورؐ نے پوچھا یہ عورت کا ہاتھ ہے یا مرد کا؟ اس نے عرض کیا عورت ہی کا ہے۔ فرمایا :’’ عورت کا ہاتھ ہے تو کم از کم ناخن ہی مہندی سے رنگ لیے ہوتے ۔‘‘ رہے حج کے موقع کے واقعات ، وہ عہد نبویؓ میں چہرے کا پردہ نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے، کیونکہ احرام کے لباس میں نقاب کا استعمال ممنوع ہے۔ تاہم اس حالت میں بھی محتاط خواتین غیر مردوں کے سامنے چہرہ کھول دینا پسند نہیں کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ’’ حجتہ الوداع کے سفر میں ہم لوگ بحالت احرام مکہ کی طرف جا رہے تھے۔ جب مسافر ہمارے پاس سے گزرنے لگتے تو ہم عورتوں اپنے سر سے چادریں کھینچ کر منہ پر ڈال لیتیں اور جب وہ گزر جاتے تو ہم منہ کھول لیتی تھیں ‘‘ (ابو داؤد )۔
3 : غضّ بصر کے اس حکم سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کیس عورت کو دیکھنے کی کوئی حقیقی ضرورت ہو۔ مثلاً کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہو۔ اس غرض کے لیے عورت کو دیکھ لینے کی نہ صرف اجازت ہے ، بلکہ ایسا کرنا کم از کم مستحب تو ضرور ہے۔ مغیرہ بن شعبہ ؓکی روایت ہے کہ میں نے ایک جگہ نکاح کا پیغام دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا تم نے لڑکی کو دیکھ بھی لیا ہے۔ میں نے عرض کیا نہیں، فرمایا :’’ اسے دیکھ لو۔ اس طرح زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ تمہارے درمیان موافقت ہو گی‘‘ (احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ ، دارمی )۔ ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے کہیں شادی کا پیغام دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’ لڑکی کو دیکھ لو، کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ خرابی ہوتی ہے‘‘(مسلم، نسائی، احمد)۔ جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ حضورؐنے فرمایا :’’ تم میں سے جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کا خواستگار ہو تو حتی الامکان اسے دیکھ کر یہ اطمینان کر لینا چاہیے کہ آیا عورت میں ایسی کوئی خوبی ہے جو اس کے ساتھ نکاح کی طرف راغب کرنے والی ‘‘(احمد ، ابو داؤد)۔ مسند احمد میں ابو حْمَیدَہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے اس غرض کے لیے دیکھنے کی اجازت کو :’’ فلاجناح علیہ ‘‘کے الفاظ میں بیان کیا، یعنی ایسا کر لینے میں مضائقہ نہیں ہے۔ نیز اس کی بھی اجازت دی کہ لڑکی کی بے خبری میں بھی اس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی سے فقہاء نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ بہ ضرورت دیکھنے کی دوسری صورتیں بھی جائز ہیں: مثلاً تفتیش ِجرائم کے سلسلے میں کسی مشتبہ عورت کو دیکھنا ، یا عدالت میں گواہی کے موقع پر قاضی کا کسی گواہ عورت کو دیکھنا، یا علاج کے لیے طبیب کا مریضہ کو دیکھنا وغیرہ۔
4 : غضِّ بصر کے حکم کا منشا یہ بھی ہے کہ آدمی کسی عورت یا مرد کے ستر پر نگاہ نہ ڈالے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : ’’ کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے ، اور کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو نہ دیکھے ‘‘ (احمد، مسلم، ابوداؤد، ترمذی )۔ حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ حضورؐنے مجھ سے فرمایا : ’’ کسی زندہ یا مردہ انسان کی ران پر نگاہ نہ ڈالو‘‘ (ابو داؤد، ابن ماجہ )۔
شرم گاہوں کی حفاظت سے مراد محض نا جائز شہوت رانی سے پرہیز ہی نہیں ہے بلکہ اپنے ستر کو دوسروں کے سامنے کھولنے سے پرہیز بھی ہے۔ مرد کے لیے ستر کے حدود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ناف سے کھٹنے تک مقرر فرمائی ہیں : ’’ مرد کا ستر اس کی ناف سے کھٹنے تک ہے ‘‘(دارقطنی بیہقی)۔ اس حصہ جسم کو بیوی کے سوا کسی کے سامنے قصداً کھولنا حرام ہے۔ حضرت جَرہداسلمیؓ، جو اصحاب ِ صفہ میں سے ایک بزرگ تھے ، روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں ایک دفعہ میری ران کھلی ہوئی تھی۔ حضورؐنے فرمایا : ’’ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ران چھپانے قابل چیز ہے ؟‘‘ (ترمذی، ابو داؤد ، موطاء)۔ حضرت علی ؓکی روایت ہے کہ حضورؐنے فرمایا : ’’اپنی ران کبھی نہ کھولو‘‘۔ (ابو داؤد ، ابن ماجہ)۔ صرف دوسروں کے سامنے ہی نہیں ، تنہائی میں بھی ننگا رہنا ممنوع ہے۔ چنانچہ حضور کا ارشاد ہے : ’’ خبر دار! کبھی ننگے نہ رہو کیونکہ تمہارے ساتھ وہ ہیں جو کبھی تم سے جدا نہیں ہوتے (یعنی خیر اور رحمت کے فرشتے )، سوائے اُن اوقات کے جب تم رفع حاجت کرتے ہو یا اپنی بیویوں کے پاس جاتے ہو، لہٰذا ان سے شرم کرو اور ان کا احترام ملحوظ رکھو‘‘ (ترمذی)۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا :’’ اپنے ستر کو اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا ہر ایک سے محفوظ رکھو‘‘۔ سائل نے پوچھا اور جب ہم تنہائی میں ہوں ؟ فرمایا : ’’ تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے ، ‘‘ (ابو داؤد، ترمذی ، ابن ماجہ)۔
عورتوں کے لیے بھی غض بصر کے احکام وہی ہیں جو مردوں کے لیے ہیں ، یعنی انہیں قصداً غیر مردوں کو نہ دیکھنا چاہیے ، نگاہ پڑ جائے تو ہٹا لینی چاہیے ، اور دوسروں کے ستر کو دیکھنے سے پرہیز کرنا چاہیے لیکن مرد کے عورت کو دیکھنے کی بہ نسبت عورت کے مرد کو دیکھنے کے معاملہ میں احکام تھوڑے سے مختلف ہیں۔ ایک طرف حدیث میں ہم کو یہ واقعہ ملتا ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓ اور حضرت میمونہؓ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھی تھیں ، اتنے میں حضرت ابن ام مکتومؓ تشریف لائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں بیویوں سے فرمایا:’’ ان سے پردہ کرو‘‘۔ بیویوں نے عرض کیا : ’’ یا رسول اللہؐ ! کیا یہ اندھے نہیں ہیں ؟ نہ ہمیں دیکھیں گے نہ پہچانیں گے ‘‘۔ فرمایا : ’’ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو ؟ کیا تم انہیں نہیں دیکھتیں ‘‘؟ حضرت ام سلمہؓ تصریح کرتی ہیں : ’’ یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جب پردے کا حکم آ چکا تھا۔ ‘‘ (احمد ، ابوداؤد، ترمذی)۔ اور اس کی تائید موطا ء کی یہ روایت کرتی ہے کہ حضرت عائشہ ؓکے پاس ایک نا بینا آیا تو انہوں نے اس سے پردہ کیا۔ کہا گیا کہ آپ ؓاس سے پردہ کیوں کرتی ہیں ، یہ تو آپ کو نہیں دیکھ سکتا؟ جواب میں ام المومنینؓ نے فرمایا:’’ میں تو اسے دیکھتی ہوں ‘‘۔ دوسری طرف ہمیں حضرت عائشہ کی یہ روایت ملتی ہے کہ 7 ھ میں حبشیوں کا وفد مدینے آیا اور اس نے مسجد نبویؐ کے احاطے میں ایک تماشہ کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود حضرت عائشہ ؓ کو یہ تماشا دکھایا (بخاری ، مسلم، احمد)۔ تیسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس ؓکو جب ان کے شوہر نے تین طلاقیں دے دیں تو سوال پیدا ہوا کہ وہ عدت کہاں گزاریں۔ پہلے حضورؐ نے فرمایا :اُم شریک انصاریہؓ کے ہاں رہو۔ پھر فرمایا: ’’ان کے ہاں میرے صحابہ بہت جاتے رہتے ہیں (کیونکہ وہ ایک بڑی مال دار اور فیاض خاتون تھیں ، بکثرت لوگ ان کے ہاں مہمان رہتے اور وہ ان کی ضیافت کرتی تھیں ،) لہٰذا تم ابن اُم مکتومؓ کے ہاں رہو، وہ اندھے آدمی ہیں۔
(بقیہ اگلے جمعہ شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)