ایک صدی قبل مدھیہ پردیش کے جبل پور میں پیدا ہوئے مہاریشی مہیش یوگی ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں بہت مشہور ہوئے۔انہیں آرٹ آف لِونگ یا فنِ حیات کا گرو کہا جاتا ہے۔ انگریزی راک بینڈThe Beatlesکے جان لینان نے ایک گانا کمپوز کیا اور اسے مہیش یوگی کے ساتھ منسوب کرکے اس کا عنوان مہاریشی رکھنے کا فیصلہ کیا، لیکن گانا ریلیز ہونے سے قبل انہیں پتہ چلا کہ یوگی جی نے آشرم میں فنِ حیات کے ایک کورس کے دوران ماریہ ڈی لارڈیس نامی امریکی اداکارہ کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی۔ یہ سن کر جان نے گانے کا عنوان مہاریشی سے بدل کر ’’سیکسی سیڈی‘‘ رکھا۔
اسی مہاریشی کے بھگت اور شاگرد سوامی روی روی شنکر ہیں۔ انہوں نے ’’آر ٹ آف لِونگ‘‘ نام سے جو این جی او بنائی ہے اس کا بڑا نام ہے۔ انہیں اکثر ٹی وی پر دیکھا جاتا ہے۔شری شری روی شنکر کو بھارتی میڈیا میں سپریچول گُرو یا روحانی پیشواکے طور متعارف کیاجاتا ہے۔وہ یوگا کے برانڈ ایمبیسڈر ہیں، اور روح و بدن کی تشخیص و تطہیر کے گُر جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔اس مقصد کے لئے وہ کئی آشرم چلاتے ہیں اور کئی ممالک کے دورے کرچکے ہیں۔
5مارچ کو شری روی روی شنکر نے حیدرآباد میں بابری مسجد تنازعہ سے متعلق ایک تقریر میں کہا کہ عدالت نے رام مندر بنانے کی اجازت نہیں دی تو ملک کے ہندو یہ برداشت نہیں کرپائیں گے اور یہاں شام سے بھی بدتر حالات ہوجائیں گے۔ان کا کہنا تھا،’’ایودھیہ مسلمانوں کی کوئی مقدس جگہ نہیں ہے، ہم رام کی جنم بھومی کہیں اور قائم نہیں کرسکتے۔‘‘ 8مارچ کو شری شری کے خلاف حیدرآباد پولیس نے مذہبی مفافرت پھیلانے کا مقدمہ درج کرلیا، اور 10مارچ کو سوامی جی نے سرینگرمیں جھیل ڈل کے کنارے واقع شیرکشمیر انٹرنیشنل کنوینشن سینٹرمیں ایک مجمع سے خطاب کے دوران کشمیریوں کو یہ نصیحت کرڈالی کہ ’’ماضی کو بھول کرنئے ولولے اور عزم کے ساتھ آگے بڑھیں‘‘۔ حیرت کی بات ہے کہ چند ہی روز قبل حیدرآباد میں ماضی کا پٹارہ کھول کر مسلمانوں کو مجروح کرچکے سوامی جی نے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ کشمیریوں کو کہہ ڈالا کہ تم لوگ ماضی کو بھول جاؤ۔
اگر واقعی ماضی کو بھولنا اصل آرٹ آف لِونگ ہے، تو انہیں رام جنم بھومی کی فکر کیوں ستا رہی ہے؟ اگر انہیں بابری تنازعہ کی بات کرنا تھی، تو حیدرآباد میں بھی عوام سے کیوں نہیں کہا کہ ’’ماضی کو بھول کر نئے جوش کے ساتھ آگے بڑھیں‘‘، اس میں مسلمانوں کو شام کے قتل عام کی دھمکی دینے کی کیا ضرورت تھی اور وہ بھی ماضی کی بات کو لے کر!
کشمیریوں کی سیاسی خواہشات کا علم سوامی جی کو بخوبی ہے، انہیں معلوم ہے کہ وہ انصاف مانگ رہے ہیں۔ 1947 میں استصواب رائے ٹالنے کے ظلم کا انصاف اور بعد میں سالہاسال تک اُسی انصاف کی دہائی دینے کے عوض ڈھائے گئے قہر کا انصاف۔اگر واقعی ماضی کو فراموش کرنا مسائل کا حل ہے تو انہیں بی جے پی سے کہنا چاہیے کہ ماضی بھول جائیں۔ بی جے پی تو اب ملک میں تاریخ کو سرنو مرتب کرکے ایک نیا ماضی تراش رہی ہے، بلکہ یوں کہیے کہ اسی اختراع شدہ ماضی کے آئینے میں ہر بھارتی کو اپنا نیا چہرہ دیکھنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اگر ماضی میں کچھ نہیں رکھا تو کیا فرق پڑتا ہے کہ الاو الدین خلجی نے پدماوتی کے ساتھ کیا کیا تھا۔اگر ماضی سے فرق نہیں پڑتا تو کیا حرج ہے کہ دلی کی شاہراہوں کے نام مسلم حکمرانوں کے نام پر ہوں۔ اگر ماضی میں کچھ نہیں دھرا تو سب کو ہندو کہلوانے میں کیا رکھا ہے۔
کئی سال پہلے کی بات ہے ، سوامی جی کی طرح ہی بھارت کے معروف صحافی مصنف اور سیاستدان ایم جے اکبرنے کشمیر یونیورسٹی میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ساٹھ سال میں کشمیریوں کو وہ نہیں ملا جو وہ مانگ رہے ہیں، اب کیسے ممکن ہے۔‘‘ اپنے زعم میں مسٹر اکبر نے نہایت منطقی بات کہہ دی تھی، لیکن ایک زیرک طالب علم نے درجواب کہا ، ’’اکبرصاحب! ساٹھ سال میں بھارت کوکشمیر میں وہ نہیں ملا جو وہ چاہتاہے، اب کیسے ممکن ہے؟ ‘‘
جب سے کشمیر میں مسلح شورش شروع ہوئی اور عوامی احتجاج کی لہر نے تمام سیاسی افکار پر غلبہ حاصل کرلیا تب سے وقتاً وقتاً بھارت کی سول سوسائیٹی، ریٹائرڈ فوجی، صحافی، این جی او نمائندے اورتجارتی و مذہبی رہنما کشمیریوں کی ’’کونسلنگ‘‘ کرنے یہاں آتے رہے ہیں۔ مزاحمتی رہنما یاسین ملک نے دوٹوک الفاظ میں اِن کاوشوں کو ایک دھوکہ قرار دیا جب انہوں نے کہا کہ’’آج وہ لوگ کہاں ہیں جو ہم سے کہتے تھے کہ بندوق چھوڑ دو اور سیاسی جدوجہد کرو، وہ لوگ دراصل بھارت کے لئے فائر فائٹرس یعنی آگ بجھانے والی گاڑیوں کا کام کرتے تھے۔‘‘
عجیب بات ہے کہ کشمیر میں ایک بڑی آبادی دنیا کی بہت بڑی ریاست کے ساتھ نظریاتی اور سیاسی سطح پر نبردآزما ہے اور اس جنگ میں تشدد اور قتل و غارت کا دیانتدارانہ تخمینہ لگائیں تو غالب کردار بڑے فریق کا ہوگا۔ افرادی قوت، بندوقیں، قانونی تحفظ اور وسائل سب کچھ حکومت کے پاس ہوتے ہیں، ’’باغی‘‘ آبادی کے پاس عوامی حمایت کے سوا کچھ نہیںہوتا۔ اور پھر عوامی خواہشات کو دبانے یا انہیں کوئی نیا رُخ دینے کی کوششیں کرنے میں جو جرائم ریاست سے سرزد ہوجاتے ہیں اُن کی باپت اصل کونسلنگ تو ریاست کی ہونی چاہیے نہ کہ مظلوم عوام کی۔
ستم یہ ہے کہ لہوکشمیری کا بہتا ہے، جیل کشمیری جاتا ہے، مستقبل کشمیری کا تباہ ہورہا ہے، نونہالوں کے جنازوں کوکشمیری ہی کاندھا دے رہا ہے اور اب سیاسی رویہ درُست کرنے کے پندو نصائح بھی کشمیری کو ہی سننا پڑتے ہیں۔دوہری ستم ظریفی یہ ہے کہ ان سبھی ’’فائر فائٹرس‘‘ کو اچانک نمودار ہونے والی کشمیری انجمنیں ہی سرینگر مدعو کرتی ہیں، مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اقتدار کے گلیاروں تک ان کی رسائی ممکن ہوسکے۔ جموں کشمیر کارڈنیشن کمیٹی جو بھی ہے، عوام یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ اور ’’فائرفائٹر‘‘کو مدعو کرنے کا درپردہ مقصد کیا تھا۔
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘سرینگر