۔ 3فروری کی دوپہر کو ہوٹل گرینڈ ممتاز میں ایک ’’گول میز‘‘ مباحثہ ہواجس کا اہتمام حمیدہ نعیم، عبدالمجید زرگر، شکیل قلندرو غیرہ پر مشتمل ایک سول سوسائیٹی گروپ ’’کشمیر سینٹر فار سوشل اینڈ ڈیولپمنٹ سٹڈیز‘‘نے کیا تھا۔عنوان تھا ’’کشمیرمیں فوجی انخلا کی ضرورت‘‘۔ایسی محافل میں بڑی کام کی باتیں ہوتی ہیں، لیکن ان کی تفصیل چند سطور میں شایع ہوجاتی ہے۔ موضوع کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے آج ہم اس مباحثے کی تفصیل نقل کرکے موجودہ حالا
ت کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
آغاز میں گریٹر کشمیر کے سینئر ایڈیٹر ہلال میر نے دس سال قبل کی گئی اپنی ایک تحقیق کے تراشے بیان کرتے ہوئے کشمیر میں فوجی جماوڑے کا منظرنامہ پیش کیا۔مانسبل میں مویشیوں کے وسیع وعریض تشخیصی مرکز پر فوجی قبضہ کی طویل داستان کے ذریعہ ہلال نے ایک اجمالی خاکہ کھینچا اور یہ دلیل پیش کی کہ کشمیر کا سیاسی یا انتظامی سٹرکیچر درحقیقت فوج کشی کے عمل کا ہی ایک پوشیدہ پہلو ہے۔پروفیسر گل وانی نے اپنی تقریر میں بھارت میں ہندوتوا کے اُبھار کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں اکثر لوگ کانسپریسی تھیوری یعنی سازش کے نظریہ پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر معاملہ میں سازش کو سونگنے کی روایت ترک کرکے قومی تعمیر کا ہدف مقرر کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔’’اقوام متحدہ میں قراردادیں ہیں، ٹھیک ہے۔ ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ ہم کرکیا رہے ہیں، ہم ان قراردادوں کے پیچھے پڑے ر ہیں یا ہم قومی تعمیر میںاپنی توانائیاں صرف کریں۔کانسپریسی تھیوری سے کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ پروفیسر صاحب کی مختصر تقریر پرکسی نے اعتراض تو نہیں کیا، لیکن جب وہ بول رہے تھے تو اکثر شرکاء کی ناک بھوں چڑھی ہوئی معلوم ہوئی۔
بعد ازاں مباحثے کے دوران بتایا گیا کہ کشمیر میں فی الوقت 17ڈویژنوں اور 61برگیڈوں پر مشتمل خالص فوج کی تعداد 4لاکھ 81ہزار 576ہے ، بی ایس ایف کی تعداد 37347، سی آر پی ایف 7500، سی آئی ایس ایف 7000، آئی آر پی 5500، آئی ٹی بی پی 3000 اور اسکے علاوہ جموں کشمیر پولیس ایک لاکھ 14ہزار جبکہ وی ڈی سی و ایس پی اوز کی تعداد 27ہزار کے قریب ہے۔ملٹری انٹیلی جینس، آئی بی اور ’’را‘‘ کے اہلکاروں کی مجموعی تعداد بھی 920بتائی گئی۔ اسطرح جموں کشمیر میں سبھی فورسز کی کل تعداد 7,50,981 بنتی ہے۔
پروفیسر نور احمد بابا نے کشمیرمیں اختیارات کی مساوات یعنی پاور اکویشن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں لوگوں کو صدیوں سے پاور کا احساس تک نہیں، ان کے اختیار میں کچھ نہیں ہے اور گزشتہ ستائیس برس کے دوران فوج کشی سے یہ احساس مزید گہرا ہوگیا ہے۔صحافی پرویز بخاری نے 2008سے کشمیری نوجوانوں میں اُبھرے نئے مزاحمتی جذبے کا تجزیہ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ نوجوانوں نے انگریزی زبان میں کہانیاں تحریر کرکے دنیا کو بیدار کردیا ہے۔ ’’عالمی ٹی وی چینلوں پر اب اینکرز بھارتی حکام سے تیکھے سوالات بھی کرتے ہیں، ایسا پہلے نہیں ہوتا تھا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اپنی تاریخ اور اظہار کی صلاحت دو ایسے وسائل ہیں جن کی بدولت نوجوان اپنی قوم کی آواز بن سکتے ہیں۔
گریٹر کشمیر کے شعبہ تبصرہ سے وابستہ سینئرایڈیٹر اور کالم نگار محمود الرشید نے مباحثہ کے دوران اہم سوال یہ اُٹھایا کہ کشمیریوں کی مزاحمت کا طریقہ کار کس طرح بدلا جائے تاکہ مزاحمت قوم کی ہی تباہی کا باعث نہ بنے۔ان کا کہنا تھا: ’’اس میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ کشمیر میں فوج کی موجودگی زندگی کے لئے موزون نہیں ہے، سب چاہتے ہیں کہ یہ حالت بدل جائے۔ اسی حالت کو بدلنے کے لئے ہم نے کبھی الیکشن لڑے، کبھی بندوق اُٹھائی اور کبھی سڑکوں پر جان دی، لیکن اب تک کچھ نہیں ہوا۔ ہمیں ٹھنڈے دماغ سے یہ سوچنا ہوگا کہ ہمیں کس طرح آگے بڑھنا ہے۔ـ ‘‘ محمود صاحب کے اس براہ راست سوال پر خوب بحث ہوئی، یہاں تک کہ ایک جوشیلے صحافی وسیم خالد نے اُن سے پوچھا ’’اگر پندرہ فوجی آپ کے گھر میں گھس کر اسے دھماکہ سے اُڑا دیں تو آپ کیا کریں گے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’اُسوقت سب اپنی بساط کے مطابق اگلے قدم کا انتخاب کرتے ہیں۔‘‘
ہلال میر نے مداخلت کرکے اس بظاہر متنازعہ سوال کا سلیس کرتے ہوئے کہا: ’’یہ سوالات طویل مدت سے اُٹھتے رہے ہیں۔ ہم سوچتے رہے ہیں کہ الیکشن بھی راستہ ہے، اسمبلی میں جایا جائے، لیکن اسمبلی ہے کہاں، اختیار تو دلی کے پاس ہے۔ رہی بات سرینڈر کی، سب جانتے ہیں کہ ہم نے سرینڈر بھی کیا تو ہمارے ساتھ وہی ہوگا جو ہورہا ہے۔ہم یہ کرسکتے ہیں کہ اپنے حالات کو بہتر اور سچے پس منظر میں سمجھیں اور سمجھائیں۔‘‘
حاصل بحث یہ ہے کہ کشمیر کے حساس حلقوں میںاب یہ اتفاق پایا جاتا ہے قوم نہایت کٹھن دور سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف نوجوانوں کو جوشیلا طبقہ ہے جو ظلم ستم کے تھپیڑوں میں پروان چڑھا ہے، اور اپنی آنکھوں سے استحصال اور قہرسامانیوں کے مناظر دیکھ رہا ہے، تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق نوجوان انتہائی راستوں کا انتخاب کررہا ہے، بڑی تعداد میں نوجوان اعلی تعلیم کے حصول اوراعلیٰ سماجی مرتبہ کے لئے بھی دن رات ایک کررہے ہیں، لیکن ایک غیرمتناسب جنگ ہے جو عوام اور انڈین سٹیٹ کے درمیان جاری ہے۔ اس جنگ میں سماج کا ہر طبقہ پس رہا ہے۔ تحریک کی فعالیت ہلاکتوں اور ان ہلاکتوں کے خلاف ردعمل سے عبارت ہے، نہ کہ حاصل ہونے والی تذویراتی یا سیاسی رعایات سے۔ ایسے میں یہ سوالات حق بجانب لگتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ نہیں ہے کہ کرنا کیا ہے، کیونکہ اس پر قوم کا اجماع ہے، بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ کیسے کرنا ہے۔ ’’کیا‘‘ پر قوم مجتمع ہے، لیکن ’’کیسے‘‘ پر قومی اجماع وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘سرینگر