جی ہاں۔پانچ کام جو سب کرنا چاہتے ہیں لیکن کوئی ایک بھی نہیں کر پارہا۔بات راتوں رات ارب پتی بننے ، شادیاں رچانے، دنیا فتح کرنے، مریخ پر مکان بنانے یا پانی کا متبادل ایجاد کرنے کی نہیں۔ بات کشمیرکی ہے۔غالب اکثریت چاہتی ہے کہ اِن سے پوچھا جائے کہ وہ چاہتے کیا ہیں۔ لیکن اسی غالب اکثریت کے الگ الگ ہمدرد اور وکیل الگ الگ باتیں کرتے ہیں۔مزاحمتی خیمہ ہو، عسکری قیادت ہو، اقتدارنواز ٹولہ ہو، سول سوسائیٹی کے خودساختہ رہنما ہوںاور وکلا ، دانشور یا قلمکار ہوں۔ سب چاہتے ہیں کہ کشمیر میں خونریزی کا دور ختم ہوجائے لیکن اس کے لئے نسخے الگ الگ تجویز کئے جاتے ہیں۔
مزاحمتی قیادت کہتی ہے کہ خونریزی کا ذمہ دار بھارت ہے، کشمیری تنگ آمد بہ جنگ آمد موت کو گلے لگا رہے ہیں، مسلہ کشمیر حل نہ ہوا تو جنوب ایشیاراکھ ہوجائے گا وغیرہ وغیرہ۔قیادت کا استدلال ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے احترام میں رائے شماری کرائی جائے اور اگر اس میں دشواری ہے تو بھارت اور پاکستان اور کشمیر کی قیادت سہ فریقی مذکرات کا سلسلہ شروع کرے تو خون خرابہ کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔یہ مطالبہ مبنی بر حق و انصاف ہے اور اسے اکثریتی عوام کی حمایت حاصل ہے، لیکن اگر رائے شماری کا متبادل سہ فریقی مذاکرات ہیں تویہ بیانیہ پیچیدہ بن جاتا ہے۔ مذاکرات کا بنیادی اصول مطالبہ پر نظرثانی ہوتا ہے، مذاکرات کچھ لو کچھ دو کے فارمولے پر ہوتے ہیں۔دوسری جانب اقتدار نواز ٹولہ اسی ٍلہجے میں اُنیس بیس کے فرق کے ساتھ دلی والوں سے کہتا ہے کہ پاکستان سے بات کرو، کشمیریوں سے بات کرو، راستے کھولو، اٹانومی دو، سیلف رُول دو وغیرہ وغیرہ ۔باقی رہا ہمارا تھِنکِنگ کلاس یعنی وکلا، دانشور، قلمکار اور سول سوسائیٹی کارکنان۔ اُن کا لہجہ اِن دونوں لہجوں کا آمیزہ ہے۔ وہ گول مول انداز میں کہتے ہیں کہ مسلہ حل کرو۔
حکومت ہند کا بھی ایک سٹینڈ ہے۔ وہ یہ کہ پاکستان لوگوں گمراہ کررہا ہے، نوجوان تشدد ترک کرکے مین سٹریم میں آجائیںوغیرہ وغیرہ۔ اس کا مطلب آپ کو معلوم ہی ہے۔لیکن صورتحال کا اہم پہلو یہ ہے کہ اگر قوم ایک، تاریخ ایک، مسلہ ایک تو ظاہر ہے ہمیں جوحکمت عملی بنانی ہے وہ پانچوں طبقوں کے لہجوں کا گہرائی سے تجزیہ کرکے بنانی ہوگی۔ویسے یہ سوال بھی پیچیدہ ہے۔ گلگت بلتستان کے باسی خود کو الگ قوم کہتے ہیں، لداخی خود کو الگ قوم کہتے ہیں، ڈوگرے خود کو الگ قوم کہتے ہیں۔ محض مذہبی عقیدے کی بنیاد پرگلگت سے کرگل، مظفرآباد سے نیلم ویلی اور وادیٔ چناب اور وہاں سے لیکر وادی ٔکشمیر تک لوگ خود کوایک قوم سمجھتے ہیں، حالانکہ ان تینوں کے درمیان بھی زبان، تمدن ، ثقافت اور سماجی روایات اور سیاسی وفاداریوں کے اعتبار سے کافی فرق ہے۔یہ تمہیدی وضاحت خدانخواستہ کوئی کنفیوژن پیدا کرنے کے لئے نہیں بلکہ معاملہ فہمی کے عمل کو آسان بنانے کے لئے ہے۔ اور پھر ایسے وقت جب نہایت فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزاحمتی قیادت نے اصحاب ِ فکرودانش سے مشاورت کے لئے آمادگی کا اظہار کیا ہے، معاملہ کی تہہ تک جانا حساس حلقوں کا فرض اولین ہے۔
اب وہ پانچ کام جو سب کرنا چاہتے ہیں۔ پہلا یہ کہ سب لوگ مسلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں، لیکن حل کی الگ الگ تعبیر ہے۔ دوسرا یہ کہ سبھی حلقے کشمیریوں کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں ، لیکن خوشحالی کی تاویل الگ الگ ہے۔ تیسرا یہ کہ کشمیر کی غالب اکثریت بچوں کی تعلیم و تربیت کی خاطر جان و مال لٹانے پر آمادہ ہے، لیکن موجودہ حالات اس انوسٹمنٹ کے خلاف ہیں اور بچے اعلیٰ تعلیم کے بعد بھی موت کی راہ کے مسافر ہیں۔چوتھا یہ کہ سب چاہتے ہیں قربانیوں کی لاج رہے اور کوئی تو رعایت ملے جس سے بچوں کے جنازوں کو کاندھا دینے والوں کی دلجوئی ہو، لیکن کسی بھی قبیل کا سیاسی ٹولہ کوئی رعایت حاصل نہیں کرپارہا۔ اور پانچواں یہ کہ کشمیری ایک خطرناک زلزلہ یا نیوکلیائی جنگ چاہتے ہیں(میں نے خود کئی سنجیدہ لوگوں کو یہ خواہش کرتے سنا ہے) لیکن بھارت اور پاکستان اس پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔
اِن ہی پانچ خواہشات کے بیچ ہماری سیاست، معیشت، معاشرت ، ثقافت، علم و دانش اور مزاحمت پس رہی ہے۔طالب علمی کے زمانے میں ایک نوجوان سرکاری افسر کو غدار سمجھتا ہے اور چند سال بعدغم ہائے روزگار کے لئے خود اسی سٹرکچر کا حصہ بن جاتا ہے۔ سماجی کارکن خوب سرخیاں بٹورنے کے بعد نجی محفلوں میں الگ بولی بولتے ہیں اور دو چار پریس کانفرنسوں کے بعد وزراء کی کوٹھیوں پر دستک دیتے نظر آتے ہیں۔ مزاحمتی قیادت بھی قدغنوں، مجبوریوں اورعوامی توقعات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ اقتدارنواز ٹولہ تو خیر یک نکاتی فارمولہ پر کاربند ہے، انہیں اقتدار چاہیے اور بس۔حالات بدلیں تو کیسے؟
یہ نہایت خوشگوار تبدیلی ہے کہ جے آر ایل نے مشاورت کا آغاز کیا ہے۔ بادی النظر یہ ایک مخلصانہ کوشش معلوم ہوتی ہے ،اور قیادت نہایت دیانتداری کے ساتھ بالواسطہ یہ اعتراف کررہی ہے کہ لیڈرشپ کی سیٹ پر براجما ن ہوکر بھی اسے بہتر مشورو ں کی احتیاج ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ قیادت کے بڑھپن اور جمہوری مزاج کا برملاء ثبوت ہے۔مشاورت سے جو بھی نتیجہ نکلے ، لیکن فیصلہ سازوں کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ اُن کا چیلنج صرف یہ ہے کہ پانچ سوالوں کو محض ایک جواب میں کیسے کنورٹ کیا جائے؟ کیا ایسا کارنامہ کوئی کرسکتا ہے کہ گلگت سے لداخ ، وہاں سے نیلم ویلی اور وہاں سے چناب اور اُدھر سے وادی تک ایک ہی نعرہ مقبول کروائے؟
جب لوگ ایک نہیں ، دو نہیں ، تین نہیں ، چار نہیںبلکہ پانچ سمتوں میں سفر کررہے ہوں تو معتبرقیادت کا کام ہوتا ہے کہ عوام کو ایک ہی راہ پر گامزن کرے۔ یہ کام اقتدار نواز ٹولہ نہیںکرسکتا، لیکن غالب اکثریت کے جذبات کی نمائندگی کرنے والوں کا یہی کام ہے۔ کام مشکل ہے مگر فرضِ منصبی اُن کا یہی ہے کہ مشکل حالات میں مشکل کام انجام دیں۔ عوامی تحریکیں مذہبی عقائد سے ضرور انسپائر ہوتی ہیں، لیکن وہ خالص مذہبی عقیدہ نہیں ہوتیں۔یاد رکھئے اگر ہم نے اپنے پانچ سوالوں کا متفقہ جواب نہیں ڈھونڈا تو اغیار ہر بار ہمارے بنیادی اور مبنی برحق سوال کا من پسند جواب تھوپتے رہیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ پانچ سوالوں کو محض ایک جواب میں تشکیل دینے کی خاطر دیرینہ بیانیوں کی تراش خراش کرنا پڑے، اسکے لئے انفرادی طوراکثر حلقے آمادہ ہیں ، کیا اجتماعی طور بھی ہم اس پر راضی ہونگے ؟ چھٹا اور مشکل ترین سوال یہی ہے!
…………………..
( بشکریہ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)