Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

سوال وجواب افسانہ

Mir Ajaz
Last updated: April 13, 2024 11:15 pm
Mir Ajaz
Share
8 Min Read
SHARE

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی

وہ ایک غیر معروف اینکر تھا۔اُس کی طبعیت میں ظرافت اور دل ودماغ میں مزاح کی چاشنی کچھ زیادہ ہی گھل مل گئی تھی ۔اُس کا نام خوش کن تھا ۔جو کوئی بھی اُس سے ملتا وہ اپنی مزاحیہ باتوں سے اُسے خوش کردیتا۔اُس کا اس بات پہ کامل یقین تھا کہ جب انسان کے دل ودماغ پہ غموں اور اُلجھنوں کا بوجھ سوار ہوتا ہے تو زندگی بے مز ہ اور تلخ بن جاتی ہے اس لئے انسان کی زندگی میں ہنسنے اور ہنسانے کی اہمیت وافادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ایک دن اُسے یہ معلوم ہوا کہ اُس کے شہر کے ایک بڑے میدان میں غیر سیاسی شخصیات کا ایک اجتماع ہونے جارہا ہے جس میں ہر محکمے کے بڑے عہدے دار ،عالم وفاضل اور صاحب ثروت لوگ شرکت کررہے ہیں ۔تب اُس کے دماغ میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ اکیسویں صدی میں انٹر نیٹ اور سائنسی وتکنیکی ترقی نے انسانوں کے لئے معلومات کے دروازے کھول دیے ہیں ۔ہر شخص اپنے آپ کو قابل ،ذہین اور ہنر مند سمجھتا ہے ۔اس لئے کیوں نہ کچھ اہم شخصیات کی ذہانت اور قابلیت کو پرکھا جائے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ لوگ کتنے حاضر دماغ ،دُور اندیش اور تفکر وتدبر سے کام لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔وہ کچھ دیر تک یہ سوچتا رہا کہ وہ اجتماع میں اُن اہم شخصیات سے کون سے ایسے دو سوال پوچھے جن کا جواب دینا اُن کے لئے کسی حد تک مشکل ہوجائے ۔سوچتے سوچتے اُس کے دماغ میں دوسوال پیدا ہوئے وہ خوش ہوا اسے یہ تسلی ہوئی کہ ان دونوں سوالوں میں کسی حد تک ابہامیت موجود ہے۔
دوسرے دن خوش کن اپنے شہر کے اُس بڑے میدان میں اپنی چھوٹی سی ڈنڈا نُما مائک لے کر پہنچ گیا ۔میدان میں تقریباً دو ہزار آدمی موجود تھے ۔سامنے اسٹیج پر چار اہم شخصیات بڑی چمکدار کرسیوں پر ترتیب وار براجمان تھیں ۔داہیں طرف سے شہر کے کروڑپتی رسوخ سنگھ ،محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر فطرتِ صدف،میونسپل کمیٹی کے چیرمین چمنی لال اور اصلاح معاشرہ کے سرپرست درمیان احمد بیٹھے ہوئے تھے ۔خوش کن نے سب سے پہلے پورے مجمع میں سے ایک آدمی کو ہاتھ کے اشارے سے تھورا ساالگ لے جاکر پوچھا
’’آپ کاکیانام ہے؟‘‘
’’صندل داس‘‘
’’بھائی صندل داس ہم آپ سے دو سوال پوچھنا چاہتے ہیں۔کیا آپ جواب دیں گے؟‘‘صندل داس لمحہ بھر کے لئے خاموش رہا پھر کہنے لگا
’’پوچھئے کیا سوال ہیں؟‘‘
’’ پہلاسوال یہ ہے کہ ہم جو کھاتے ہیں وہ کہاں سے نکلتا ہے؟‘‘
صندل داس نے سوال سُنا تو اُس کے ہونٹوں سے ہنسی چھوٹ گئی پھر وہ پل بھر کے لئے خاموش رہا ۔اُس نے سوال دوہرایاہم جو کھاتے ہیں وہ کہاں سے نکلتا ہے۔۔۔؟
’’میں کچھ کہہ نہیں سکتا‘‘
خوش کن نے دوسرا سوال پوچھا
’’صندل داس آپ پہلے سوال کا جواب نہیں دے پائے۔میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ کون ساجاندار ہے جو انڈے بھی دیتا ہے اور دُودھ بھی؟‘‘
صندل داس نے دوسرا سوال سُنا تو اُس کی حیرت کی کوئی انتہانہ رہی ۔اُس نے ادھر اُدھر کی تُک بازی کی لیکن وہ صحیح جواب نہیں دے پایا۔اُس نے حیرت سے کہا
’’آخر وہ کون سا جاندار ہے جو انڈے بھی دیتا ہے اور دُودھ بھی۔۔۔۔!‘‘
خوش کن نے مجمع میں بیٹھے تین اور افراد سے باری باری یہی سوال پوچھے لیکن کسی نے بھی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔اُس کے بعد وہ اسٹیج پہ تشریف فرما اہم شخصیات کی طرف بڑھا۔اُس نے سب سے پہلے آداب بجالاتے ہوئے رسوخ سنگھ کی طرف مائک بڑھایا اور کہنے لگا
’’جناب میں آپ سے دو سوال پوچھنا چاہتا ہوں اگر آپ کی اجازت ہوتو سوال عرض کردوں؟‘‘
رسوخ سنگھ نے کہا
’’ہاں پوچھئے کیا سوال ہیں ؟‘‘
جناب میرا پہلا سوال یہ ہے کہ ہم جو کھاتے ہیں وہ کہاں سے نکلتا ہے ؟‘‘
رسوخ سنگھ نے سوال سُنا توخفیف سی ہنسی اُن کے ہونٹوں سے نکل گئی ۔پھر کہنے لگے
’’ارے یہ تو سب جانتے ہیں کہ ہم جو کھاتے ہیں وہ کہاں سے نکلتا ہے ۔یہ کوئی سوال ہے کیا‘‘
خوش کن نے کہا
’’جناب آپ اس سوال کاجواب تو دیجیے‘‘
رسوخ سنگھ خاموش رہے ۔اُن سے کوئی بھی جواب نہیں بن پڑا تو خوش کن نے اُن سے دوسرا سوال پوچھا
’’اچھا جناب یہ بتائیے کہ وہ کون سا جاندار ہے جو دُودھ بھی دیتا ہے اور انڈے بھی؟‘‘
رسوخ سنگھ نے دوسرا سوال سُنا تو حیرت سے ہکا بکا رہ گئے ،کہنے لگے
’’ارے ! ایک ایساجاندار جو دُودھ بھی دیتا ہے اور انڈے بھی۔۔۔۔۔!‘‘
خوش کن نے بقیہ تین اہم شخصیات سے بھی باری باری یہی سوالات دوہرائے لیکن اُس کو کسی سے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا،وہ نفی میںسر ہلاتا رہا،پہلا سوال سُن کر ہر ایک ہنستا رہالیکن دوسرے سوال نے اُن کو حیرت میں ڈال دیا ۔وہ خوش کن کو بہت حدتک اناڑی سمجھ رہے تھے اور دل ہی دل میں اُس کی اس حرکت کو مضحکہ خیز اور لایعنی سمجھ رہے تھے اُن کی علمیت،اُن کے دبدبے اور اُن کے شعور وادراک نے آج دم توڑ دیا تھا لیکن ساتھ ہی وہ چاروں اہم شخصیات، خوش کن کی زبانی اُس کے پوچھے گئے سوالات کا جواب سُننے کے لئے بھی بے تاب تھے ۔خوش کن نے پورے مجمع پر نظر دوڑائی پھر اُس کے ہونٹوں پہ مسکان پھیل گئی۔ اُس نے اسٹیج پہ براجمان چاروں اہم شخصیات سے بآواز بلند پوچھا
’’ کیا آپ میں سے میرے ان دو سوالوں کا جواب ابھی بھی کوئی دینا چاہتا ہے؟‘‘سب نے نفی میں سر ہلایا۔تب خوش کن نے کہا
سُنیے میں نے آپ سے دو سوالوں کے جواب پوچھے تھے لیکن آپ میں سے کسی نے بھی میرے ان سوالوں کے جواب نہیں دیئے ۔اب میں خود ان کے جواب آپ کے گوش گزار کرنا چاہتاہوں۔میںنے پہلا سوال آپ سے یہ پوچھا تھا کہ ہم جو کھاتے ہیں وہ کہاں سے نکلتا ہے؟اس کا جواب ہے ہم جوکھاتے ہیں وہ زمین سے نکلتا ہے۔میں نے دوسرا سوال آپ سے پوچھا تھاکہ وہ کون سا جاندار ہے جو دُودھ بھی دیتا ہے اور انڈے بھی ؟اس کا جواب ہے دُکان دار‘‘
خوش کن کے سوالوں کے جواب سُن کر پورے مجمع میں شامل لوگ ہنس پڑے لیکن اسٹیج پہ براجمان اہم شخصیات کے چہروں پر پشیمانی کے آثار صاٖ ف نظر آرہے تھے۔

���
سابق صدر شعبہ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی
راجوری( جموں وکشمیر)
موبائل نمبر؛7889952532

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
جموں و کشمیر میں امن قائم مودی حکومت کے 11سال سنہری دور کے عکاس
صفحہ اول
جموں ہیٹ ویو کی لپیٹ میں ،درجہ حرارت 43.9 سرینگر میںپارہ 33.3ڈگری سیلسیس ریکارڈ
صفحہ اول
دہشت گردی کے خدشات دور ہونے تک سندھ طاس معاہدہ پر کوئی بات نہیں ہوگی پاکستان نے متعدد بار رابطہ کیا، فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست
صفحہ اول
رونالڈو کی شاندار کارکردگی پُرتگال یوای ایف اے نیشنز لیگ خطاب پر قابض
سپورٹس

Related

ادب نامافسانے

افسانچے

May 31, 2025
ادب نامافسانے

بے موسم محبت افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

قربانی افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

آئینہ اور ہاشم افسانچہ

May 31, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?