ش۔شکیل
میں اکثر اُس کے مضامین ‘افسانے اور افسانچے مقامی اخبار میں پڑھا کرتی تھی۔مجھے اُس کی تحریریں پسند آتی تھیں۔ میں نے ایک دن اُس قلم کارنی سے ملنے کی ٹھانی اور ملاقات بھی کی۔میرے ساتھ قلم کارنی کا رویہّ بالکل دوستانہ رہا۔میری اور قلمکارنی کی دوستی ’’جگری دوستی ‘‘میںتبدیل ہو گئی۔ایک دن قلمکارنی مجھے اپنے دل کی بات بتاتے ہوئے کہی’’میں ایک مشہور معروف مصّنفہ بننا چاہتی ہوں۔‘‘مجھے اس طرح سے قلم کارنی کا اظہار کرنا بہت پسند آیا۔میں خوشی اور مسرت سے دل کھول کر قلم کارنی کی تعریف کرتے ہوئے کئی اُردو کی مصنفائوں اور ادیبائوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہی’’تم بھی ایک دن انہیں کی طرح مشہور ومعروف ادیبہ کہلائوگی۔‘‘میرے اس طرح اظہار پر اُس کی آنکھیں چھلک گئیں شکریہ کہتے ہوئے اُس کی آوا زگلو گیر ہو گئی تھی۔
ایک دن ایسا آیا کہ میں قلم کارنی کی تحریر پڑھنے کے لئے بے چین و بے قرار ہو گئی اور وہ مقامی اخبارات سے ایسے غائب ہو گئی جیسے گدھے کے سر سے سنگ۔میں قلمکارنی کے بارے میں اچھا بُرا سوچنے لگی۔دیکھتے ہی دیکھتے سات آٹھ سال کا عرصہ بیت گیا۔اس دوران میری شادی ہوگئی اور قلمکارنی میرے لاشعور میں کہیں کھوگئی۔
ایک بار میں شادی کی ایک تقریب میں اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ شریک ہوئی۔کھانا ہوجانے کے بعد میں اپنے شوہر اور بچوں کو تلاش کرنے کی غرض سے اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر نکل آئی تو اُس وقت سامنے سے آتی ہوئی عورت سے میری آنکھیں چار ہو گئیں اور مجھے دیکھ کر وہ بھی ٹھٹھک گئی۔مجھے نوز پیس کے اوپر سے جھانکتی آنکھیں جانی پہچانی لگ رہی تھیں۔میں فرحت سے تقریبًا چیختی ہوئی کہی’’کیسی ہو ادیبہ‘‘؟وہ اپنی نظریں مجھ پر ٹھہرا کر ڈھلے ڈھالے انداز میں بولی’’کہاں کی ادیبہ؟کہاں کی مصنّفہ؟وہ تو کہیں کھو گئی ہے ! ‘‘ مجھے اُس کے الفاظ میں نا اُمیدی مایوسی صاف جھلکتی ہو ئی معلوم ہوئی۔جو اُس کا ’’مشہور ومعروف ادیبہ ‘‘کا شیش محل چکنا چور ہوکر کرچیوں میں بکھرتا ہوا صاف دیکھائی دے رہا تھا۔ وہ آگے بولی ’’اب میں صرف ایک گوشت پوست کی ایک مورت ہوں۔۔۔ تمہیں یاد ہے؟ایک بار تم میری تحریروں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہی تھی میں ایک دن ـضرور مشہور ومعروف ادیبہ بنوگی۔لیکن اب یہ تم کیسے کہوگی کہ میں ایک فرمانبردار بیوی اورمثالی ماں ضرور بن پائونگی‘ کیونکہ نہ تم میرے شوہر کو دیکھی ہو نہ میرے بچوںکو اور نہ ہی سُسرال والوں سے ملی ہو۔۔ کیسے کہوگی بتائو؟ ‘‘ ادیبہ کی نوز پیس کے اوپر سے جھانکتی ہوئی آنکھوں میں آنسوئوں کا لا متناہی سمندر میں تیرتا ہوا سوال مجھے صاف دیکھائی دے رہا تھا۔لیکن اُس کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔وہ اپنے آنسوئوں کو چھپانے کی غرض سے جھٹ پلٹ گئی اور بُرقعہ پوش عورتوں میں کھو گئی۔اب مجھے ہر بُرقعہ پر ایک ایک سوا ل اُبھرتا دیکھائی دے رہا تھا۔جس کے جوابات میرے پاس نہیں تھے۔جو خود ہی سوال بنی بُرقعہ پوش ہے تو وہ دوسرے سوالیہ بُرقعہ پوش کے کیا جوابات دے پائے گی۔!
’’کسے ڈھونڈ رہی ہو؟‘‘ میں میرے شوہر کے سوال پر چونک گئی۔میں اپنے شوہر پر ایک اُچٹتی نظر ڈال کر بولی’’اپنے آپ کو‘‘شوہر میری طرف چونک کر دیکھتے رہے اُن کی آنکھوں میں حیرت اور تعجب کا سمندر لہریں مارتا دیکھائی دیا۔میں مسکراکر بولی’’کیوں حیرت زدہ ہو رہے ہو؟ایک عورت ابھی میرے سامنے گذری ہے۔ اُس کی آنکھیں مجھے جانی پہچانی لگی تھیں میں سوچ رہی تھی میں نے وہ کہاں د یکھی تھی۔لیکن یاد نہیں آرہا ہے۔۔۔۔چلو چلتے ہیں‘‘کہہ کر میں موٹر سائیکل کی طرف بڑھ گئی۔چھوٹے بچے کو شوہر کے پیچھے بیٹھا دیا بڑا بچہ سامنے بیٹھ گیا‘اور ہم ہماری دُنیا میں آگئے۔جہاں پر میں اکثر اپنے آپ سے کچھ اس طرح کے سوالات کیا کرتی ہوں۔ کیا میرا شوہر مجھے دل و جان سے چاہتا ہے؟کیا میں میرے بچوں کی نظر میں ایک مثالی ماں ہوں؟ کیا اپنے سُسرال والوں کے دل میں جگہ بنائی ہوں؟ اس طرح کے سوالات کے سمند ر میں ہر روز ڈوبتی اُبھرتی رہتی ہوں۔ کبھی کبھار اپنے سے یہ سوال بھی پوچھتی ہوں۔ کیا میرا شوہر بھی کسی سوال کے سمندر میں ڈوبتے اُبھرتے رہتا ہے۔؟ اس سوال میں غوطہ زن ہو کر خود سے جواب ڈھونے کی نا کام کوشش کرتی رہتی ہوں۔
���
اورنگ آباد(مہاراشڑ)
موبائل نمبر؛9529077971