سرینگر// مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دونوں اطراف سے غیر مشروط اور پائیدار مذاکراتی عمل شروع کرنے کی وکالت کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ یشونت سنہا کی قیادت والی5رکنی سیول سوسائٹی ٹیم نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ اس دورے کی رپورٹ حکومت ہند کو پیش کرنے کے علاوہ بھارت کے عوام کو اصل صورتحال سے آگاہ کریں گے۔ سابق وزیرخارجہ یشونت سنہااوراُنکے دیگر چار ممبران بشمول وجاہت حبیب اللہ، کپیل کاک، بھارت بھوشن اور سوشوبابا روے نے وادی کا 3روزہ دورہ سمیٹتے ہوئے جمعرات کو دہلی روانہ ہونے سے قبل سید علی گیلانی ، بار ایسو سی ایشن اور ریاستی گورنر کے علاوہ ٹور اینڈ ٹراولز ایسو سی ایشن کے ساتھ ملاقات کی۔ وفد کے تین ارکان نے مزاحمتی رہنما سید علی گیلانی سے دوسری بار ملاقات کی جس کے دوران وفد نے گیلانی کو بتایا کہ وہ طالب علموں کے حوالے سے انتہائی فکر مند ہیں اور تعلیم متاثر نہیں ہونی چاہئے جس کے جواب میں گیلانی نے وفد کو بتایا کہ وہ تعلیم کے خلاف تھے ،نہ آئندہ کبھی ہونگے تاہم موجودہ حالات کی تمام ترذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔انہوں نے امتحانات کو ملتوی کرکے طالب علموں کو تیاری کا موقعہ فراہم کرنے پر زور دیا تاکہ وہ اپنی قابلیت کے بل پر کسی رعایت کے بغیر اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکیں۔ بیان کے مطابق یشونت سنہا کی قیادت میں آئے ہوئے وفد کے تین ارکان دوبارہ سید علی گیلانی سے ملاقی ہوئے ۔ان میں سابقہ ائیر وائس مارشل کپل کاک، سینئر صحافی بھارت بوشن اور ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر آف دی سینٹر فار ڈائیلاگ اینڈ ریکنسی لیشن ششوبا باروے شامل تھے۔ وفد نے گیلانی کو بتایا کہ ہم ریاسست میں طالب علموں کے حوالے سے بہت فکر مند ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ان کا ایک تعلیمی سال ضائع نہ ہونے پائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سرکاری لوگوں سے ملے اُن کی بھی یہی رائے ہے کہ تعلیم متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ گیلانی نے وفد کو بتایا کہ ہم کبھی بھی بچوں کے تعلیم کے خلاف نہ تھے، نہ ہیں اور نا ہی آئندہ کبھی ہوں گے، اس وقت جو کچھ ریاست جموں کشمیر میں ہورہا ہے اس کی تمام تر ذمہ داری صرف اور صرف بھارت کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ گیلانی نے وفد کو بتایا کہ ہم پہلے بھی واضح کرچکے ہیں اور آج پھر یہ بات دہرارہے ہیں کہ کشمیر کا کوئی بھی انسان تعلیم کے نور کے خلاف نہیں ہوسکتا ہے اور ہم تو اس حوالے سے سب سے زیادہ فکر مند اور حساس ہیں۔گیلانی نے کہا کہ تعلیم کی افادیت کے ساتھ ساتھ اس بات سے بھی کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے پُرسکون ماحول میسر ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے اور وہ ماحول صرف وہی قائم کرسکتے ہیں جن کے اختیار میں 10؍لاکھ فوج ہو، ایک لاکھ کے قریب پولیس ہو اور پوری انتظامی مشینری کے ساتھ ساتھ وہ قوانین اور ضابطے بھی ہوں جن کو استعمال کرکے وہ ہرروز وادی کے کونے کونے کو عقوبت خانوں میں تبدیل کررہے ہیں۔ گیلانی نے وفد کو بتایا کہ مجھے تعجب ہورہا ہے کہ حکومتی لاؤ لشکر اور جاہ وحشمت کے باوجود یہ سرکار عام اور نہتے لوگوں سے امن قائم کرنے کی امید رکھتے ہیں۔گیلانی نے وفد کو بتایا کہ وہ بچہ اسکول کیسے جاسکتا ہے جس کا باپ، چاچا، بھائی، رشتہ دار، دوست، ہمسایہ حکومتی درندگی کی وجہ سے یا تو قبرستان میں موت کی ابندی نیند سو رہا ہے یا زخمی ہوکر کسی اسپتال کے بیڈ پر پڑا ہے یا پی ایس اے اور دوسرے کالے قوانین کے تحت جیلوں اور انٹروگیشن سینٹروں میں تشدد کا شکار بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر واقعی حکومت عوام اور خاص کر بچوں کے مستقبل کے حوالے سے ذرا بھی متفکر ہیں تو اس ظلم کے ماحول کو ختم کرکے تمام قیدیوں کو رہا کرے، ان کے خلاف درج کیسوں کو واپس لیں، مسلسل شبانہ چھاپوں پر روک لگائی جائے، نوجوانوں کا تعاقب کرنا بند کردے اور لوگوں کو پُرامن طور اپنی بات کہنے کا موقع فراہم کیا جائے، ،تاکہ بچے بھی خوشی خوشی اپنے اسکولوں کو جاسکیں۔گیلانی نے کہا کہ امتحانات کو ملتوی کرکے طالب علموں کو تیاری کا موقعہ فراہم کریں تاکہ وہ اپنی قابلیت کے بل پر کسی رعایت کے بغیر اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکیں۔سیول سوسائٹی کی5رکنی ٹیم نے جمعرات کوکشمیرہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدرایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم اوردیگرذمہ داران وسینئراراکین کیساتھ ایک اہم اورتفصیلی ملاقات کی ۔بارایسوسی ایشن نے اس میٹنگ کے بارے میں بتایا کہ ملاقات اورتبادلہ خیال بڑے ہی خوشگوارماحول میں ہوا،جس کے دوران ایڈوکیٹ میاں قیوم اوراُنکے رفقاء نے پانچ رکنی وفدکے سامنے مسئلہ کشمیر کے بارے میں بارایسوسی ایشن کاموقف رکھا۔انہوں نے یشونت سنہااوراُنکے رفقاء پرواضح کیاکہ مسئلہ کشمیرکاحل تلاش کرنے کیلئے حکومت ہندکوہی پہل کرناپڑے گی کیونکہ آج تک اس دیرینہ مسئلے کے حل طلب رہنے کی ایک بڑی وجہ یہی رہی ہے کہ بھارت سرکارکااپروچ شرائط پرمبنی رہا۔انہوں نے 5 رکنی وفدمیں شامل سیاسی اورغیرسیاسی شخصیات سے کہاکہ کشمیر یوں کے دلوں میں بھارت مخالف جذبہ کوٹ کوٹ کربھراہے کیونکہ بھارت سرکارکی ایماء پرگزشتہ سات دہائیوں سے کشمیری عوام نے صرف ظلم وزیادتیوں اورطرح طرح کی ناانصافیوںکوسہاہے ۔ ایڈوکیٹ میاں قیوم اوراُنکے رفقاء نے یشونت سنہاکوبتایاکہ گزشتہ عوامی تحریکوںکوطاقت کے بل پردبانے کے سواء کچھ بھی نہیں کیاگیا۔انہوں نے کہاکہ اب بھارت سرکارکو روایتی ہٹ دھرمی ترک کرکے کشمیرمسئلے کامنصفانہ حل نکالنے کیلئے آگے آناچاہئے تاکہ جنوب ایشیائی خطے میں منڈلاتے جنگ کے بادل چھٹ سکیں اوراس خطے میں پائیدارامن کی ضمانت مل سکے۔ ایڈوکیٹ میاں قیوم اوراُنکی ٹیم نے سابق وزیرخارجہ یشونت سنہاکوبتایاکہ بھارت نے سلامتی کونسل میں کشمیرکے حوالے سے منظورکردہ سبھی قراردادوں پردستخط کئے ہیں ،اسلئے یہ بھارت کی قانونی اوراخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیری عوام کواپنے سیاسی مستقبل کافیصلہ لینے کیلئے آزادانہ استصواب رائے کیلئے تیارہوجائے ۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ٹیم کی سربراہی کرنے والے سابق وزیرخارجہ یشونت سنہااور دیگر ممبران نے بارایسوسی ایشن کے ذمہ داروں کواسبات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے مرکزی سرکارپرواضح کریں گے کہ برصغیرمیں پائیدارامن وآشتی کیلئے کشمیرمسئلے کامنصفانہ اورقابل قبول حل تلاش کرنالازمی ہے ۔ مسئلہ کشمیر کا پائیدارحل نکالنے کیلئے غیرمشروط بات چیت کی وکالت کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیاہے کہ سبھی فریقین اورمتعلقین کوکھلے ذہن کیساتھ مذاکرات کی میزپرآناہوگا۔اس دوران بدھ کے روز سرینگر میں مختلف تجارتی اور صنعتی انجمنوں کے وفود کے ساتھ الگ الگ ملاقاتوں کے دوران سابق وزیرخارجہ یشونت سنہا کا کہنا تھا کہ وہ نیک نیتی کیساتھ اپنے دیگر رفقاء کے ہمراہ کشمیر آئے ہیں تاکہ مذاکراتی عمل کی راہ نکل سکے۔ انہوں نے کہاکہ کشمیر مسئلے کے پرامن اورپائیدار حل کے لئے سبھی متعلقین کو نتیجہ خیز اور بامعنی مذاکراتی عمل کا حصہ بناناہوگا۔ سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا نے اس امید کا اظہار کیا کہ بہت جلد کشمیر وادی میں حالات معمول پر آجائیں گے۔ اس دوران سابق وزیرخارجہ اوربھاجپا کے سینئر رہنما یشونت سنہا نے کہاہے کہ اگر2004کے لوک سبھا انتخابات میں این ڈی اے کو شکست نہ ہوتی تو مسئلہ کشمیر اس حدتک حل ہوگیاہوتاکہ سبھی فریقین کی تشفی ہوئی ہوتی۔انہوں نے کہاکہ تب کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اوراْس وقت کے پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف نے کشمیر مسئلے کو حل کرنے کے لئے راہ کافی حدتک ہموار کرلی تھی ۔