2015ء میں جب مودی لہر نے ہندوستان میں اپنے سیاسی حریفوں کو خس و خاشاک کی بہا دیاتو جموں کشمیر اسمبلی انتخابات میں جموں میں زیادہ سیٹیں لینے کی وجہ سے مودی واد نے کشمیر کے دروازے پر اپنی دستک سنا دی۔ اس حوالے سے راقم الحروف نے 3؍جنوری 2015 ء کو کشمیر عظمیٰ کے اسی صفحے میں سیاسی پیش بینی کی تھی کہ ’’ جس پارٹی نے زیادہ سیٹیں حاصل کی ہیں وہ پی ڈی پی ہے ،جو اس وقت دوراہے پہ کھڑی ہے، ایک راستہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی گلی سے ہو کر گذرتا ہے جہاں اگرچہ راستہ تنگ ہے مگر پی ڈی پی کے لئے سفر کرنے کے لئے آسان ہے ۔ دوسرا راستہ بی جے پی کی شاہراہ سے ہو کر گزرتا ہے جہاں اگرچہ راستہ حد نگاہ تک پھیلا ہوا ہے مگر پی ڈی پی کے لئے سفر مشکل اور کٹھن ہے ۔یہ راستہ کہنے کو کشادہ ہے مگر مخالف سمت سے آنے والی ’’ہندوتوا‘‘ نامی کمپنی کی جو تیز رفتارگاڑی آرہی ہے ،وہ پی ڈی پی کو کہیں پر بھی ٹکر مار کر حادثے سے دوچار کرسکتی ہے ۔ اگر یہ گاڑی کشمیر کی تنگ سڑکوں پر چلانے کی کوشش کی گئی تو یہ کشمیر کی ہر ایک چیز کو روندتے ہوئے پی ڈی پی کے وجود کو تک صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دے گی‘‘۔ آج حال یہ ہے کہ پی ڈی پی ’’سیاسی سکتے کی مریض‘‘ بن کر تاریخ کے اوراق میں گم ہونے کی دہلیز پر کھڑی ہے ۔اس کی شکستہ دیواروں پہ سنگھ کا رنگ چڑھایا جا چکا ہے جس کے اثرات اب پورے جموں کشمیر میں دکھائی دے رہے ہیں۔ پی ڈی پی کی پشت پر سوار ہوکر جہاں بی جے پی ایک تو ریاست کے اندر اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دے رہی ہے، وہیں ساری حکومتی لگام سنگھ کے ہاتھوں میں لے کر پی ڈی پی کی نکیل کچھ اس طرح کسی ہوئی ہے کہ بھاجپا کے حکم کے بغیر یہ سر گھما سکتی ہے نہ کروٹ بدل سکتی ہے ۔ اس کی ایک مثال 13 جولائی کو یوم شہداء کے موقع پر دیکھنے کوملی جب بی جے پی نے حسب ِسابق مزار شہداء کی تقریب کا بائیکاٹ کر کے پی ڈی پی پر واضح کردیا کہ سنگھ پریواراپنے خاکوں میں رنگ بھر نے میںساجھے سرکار کی مجبوریوں کو بھی نظر انداز کر سکتی ہے ۔
یہ ایک کھلا راز ہے کہ ہندوستان میں جب بی جے پی کی حکومت برسرِ اقتدار آئی تو ہندوتوا قوتوں نے پارٹی کی کمان میں بہت جلد اپنا اصلی رنگ جمانا شروع کردیا۔پہلے پہل ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ نعرے میں اگرچہ لوگوں کو جاذبیت نظر آئی تھی مگر بہت جلد ایک کے بعد ایک متنازعہ اقدامات نے اس پارٹی کا اصلی چہرہ بے نقاب کر دیا۔ بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی آر ایس ایس، ویشو ہندوپریشد، بجرنگ دل، شو سینا اور دھرم جاگرن سمتی جیسی شدت پسند تنظیمیں پوری حدت کے ساتھ حرکت میں آگئیںاور آج تک اپنے دیرینہ مسلم دشمن ایجنڈے کے عین مطابق وہ گل کھلادئے جن پر انسانیت شرمسار ہے۔گائے رکھشا کے نام پر دادری یوپی سے بٹینگو اسلام آباد تک ان لوگوں نے ایسی ہیبت ناک اور لرزہ خیر واقعات رونما کئے کہ انہیں یاد کر کے روح کانپ اٹھتی ہے۔یوگا، سوریہ نمسکار، سہ طلاق، حجاب، حلالہ،تعدادازدواج،لو جہاد، بہو لاؤ بیٹی بچاؤ،گھر وآپسی،بیف پر پابندی اور یکساں سول کوڈجیسے مسائل کو ا ُچھال اُچھال کر مسلمانوں کے خلاف ماحول کو اس قدرگرما یا گیاکہ بھارت کے نائب صدر کو اپنے منصب کے اخیر پر اعلانیہ طورماننا پڑا کہ جب سے بھاجپا اقتدار میں آگئی ہے ہند کی مسلم اقلیت ہراساں بھی ہے اور عدم تحفظ کی شکار بھی ہے۔اس فرقہ پر ستانہ آگ کی چنگاریاں سلگانے میں متنازعہ بھاجپا نیتا ساکھشی مہاراج، یوگی آدتیہ ناتھ اور سادھوی پراچی وغیرہ نے تیز طرار بیانات اور اعلانات سے مسلمانوں کے خلاف بلا روک ٹوک چومکھی جنگ چھیڑ دی۔ اقلیتوں خصوصاََ مسلمانوں اور دلتوں پر نشانہ سادھ کر جہاں بھارت میں مسلم کمیونٹی اپنے بقاء کو لے کر فکر وتشویش مبتلا ہوگئی ہے ۔ اہل کشمیر کے دل ودماغ میں بھی یہ خدشات کلبلا رہے ہیں کہ بھاجپا کشمیر میں پی ڈی پی کے شانے پربندوق رکھ کر نہ صرف ظلم وتشدد کا بازا گرم رکھے ہوئی ہے بلکہ اپنے راج نیتی کے گرو شیاما پرساد مکھرجی کے ادھورے کشمیر مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی راہ پہ گامزن ہو کر ریاست کی خصوصی پوزیشن پر تیشہ زنی میں لگی ہے ۔ آئین ہند کے دفعہ ۳۵؍ اے اور دفعہ ۳۷۰؍ کے خلاف عدالتی کارروائی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑیاں ہیں ۔ مکھر جی نے ۵۰ ء کی دہائی میں جن سنگھ کی بنیاد رکھی جسے پھر ۷۵ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کانام دیا گیا ۔ یہ ہندتو اپارٹی اس وقت تیسری بار ہندوستان کے مسند ِاقتدار پہ بیٹھی ہے۔جن سنگھ نے روزِ اول سے ہی کشمیر کی خصوصی پوزیشن دفعہ 370 کے خاتمہ کو اپنا نظریاتی اور سیاسی فریضہ ٹھہرایا۔ اس کے بانی شیاماپرسادمکھرجی اپنی زندگی میں 370؍کا خاتمہ تو نہ کرواسکا، البتہ اس سلسلے کی معاندانہ کوششوں کا آغاز کر کے اُس نے مئی1952ء میںریاست میں غیر قانونی طور داخل ہوکر پرمٹ سسٹم کی دھجیاں اُڑادیں، جموں میں ’’ ایک ودھان ،ایک نشان ، پر دھان‘‘کے370 مخالف نعرے سے پرجا پر یشد آندولن کی داغ بیل ڈال دی اور پھر تاریخ نے وہ سماں بھی دیکھا جب مکھرجی کو ریاستی قوانین کی خلاف ورزی میں گرفتار کر کیسب جیل میں قید کیا گیا جہاں سوئے اتفاق سے اس کا زیر حراست دیہانت ہوگیا۔ اس موت نے جلتی پر تیل کاکام کیا کہ پیڈت نہرو نے چلتے چلتے شیخ عبداللہ کو بیک جنبش قلم وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کر کے کئی سال تک اندر کر دیا ۔ شیخ عبداللہ کو سیاسی منظر نامے ہٹا ئے جانے کے بعد جن سنگھ اور پرجا پریشد کی نخل ِاُمید اس وقت برآئی جب دلی کو ریاست کی خصوصی پوزیشن کی بنیادیں اجاڑنے میں شیاما پر ساد مکھر جی یا بلراج مدھوک کو میدان میں لانے کی ضرورت ہی نہ پڑی بلکہ دلی نے اپنے مقرر کردہ تمام ریاستی وزرائے اعلیٰ سے یکے بعد دیگرے دفعہ ۳۷۰ ؍کو اندہی اندر کھوکھلا کرنے کاکام لیا جس کے عوض ان لوگوں کو باری باری ناپائیدار کرسی کی رشوت دی گئی اور یہ سلسلہ آج بھی قائم ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مکھرجی کے ساتھ جموں ایجی ٹیشن میں شامل ہونے والوں میں جواں سال اٹل بہاری واجپائی بھی تھے جنہوں نے کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے خاتمے کی کاوشوں سے اپنی سیاسی زندگی کی شروعات کی۔ آج جب نریندرمودی کے ہاتھ میں ہندوستان کی زمام ِاقتدار بڑی واضح اکثریت کے ساتھ آچکی ہے تو وہ شیاما پرساد مکھرجی کی سیاسی آئیڈیولوجی کو فالو کر کے بھارت کو ہندو راشٹر بنانے میں کیوں پیچھے رہیں؟ اس سلسلے میںمودی کا ’’مشن کشمیر‘‘ ایک واضح ناگپوری ایجنڈا ہے جسے پی ڈی پی کرسی کے عوض شدومدسے ریاست کے مستقبل سے کھلواڑ کر تے ہوئے عملا رہی ہے ۔ جموں کشمیر میں اسمبلی الیکشن کے بعد جب پی ڈی پی نے اپنی پلکیں بی جے پی کے قدموں تلے بچھائیںتو کشمیر کے ہر ذی حس انسان کا ماتھا ٹھنکا تھا کہ بھگوا برگیڈ پوری تیاری کے ساتھ اپنے دیر ینہ زعفرانی مشن کا روڈ میپ لے کر کشمیر پر ٹوٹ پڑے گا ،پھر وقت نے بھی ثابت کر دیا کہ جس ’’ایجنڈا آف الائینس‘‘ کے سراب سے سادہ لوح کشمیریوں کو دلی ایگریمنٹ کے خطوط پر ٹھگا گیا ،اس کا مقصد صرف بھاچپا کے کشمیر مخالف ارادوں ، عزائم اور منصوبوں کی تکمیل میں پی ڈی پی کی اعانت کاری ہے۔جموں کشمیر میں اپنے قدم رکھتے ہی بھاجپا اپنے مشن کشمیر پر تیزی سے عمل درآمد کر کے جموں کشمیر کو مکمل طور ہندوستان میں ضم کرناچاہتی ہے ، اس سلسلے میںریاست کی ڈیموگرافی تبدیل کے اعلانیہ اقدام ہو ر ہے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ابھی یہاں مخلوط حکومت کے وزراء اپنی نئی سرکاری کوٹھیوں کے محل وقوع سے بھی ناواقف تھے کہ پی ایم او کے انچارج منسٹر ڈاکٹر جتیندرا سنگھ نے انکشاف کیا کہ دفعہ ۳۷۰؍ کو مکمل طور کالعدم کر نے پر کام ہورہاہے ۔ مر کزی حکومت کے اس پالیسی بیان کی دھوم ہی مچ رہی تھی کہ جموں میں رہ رہے مشرق پاکستانی کے شر ناتھیوں کوسٹیٹ سبجکٹ اسناد سکولوں میں دی جانے لگیں ،اس پر شور ہنگامہ ہو امگر بے سود، پھر جموں میں ریاست کے کابینی وزیر چوہدری لال سنگھ ببانگِ دہل جموں کے گوجروں کو سنتالیس دہرانے کی دھمکیاں دینے لگے اور انہیں جموں میں مہاراجی دور سے اپنے آباد گھروں سے بے دخل کر کے در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے مجبور کیا ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جموں کے بازاروں میں آر ایس ایس کے ورکروں نے سرعام تلواروں ، لاٹھیوں اور بندوقوں سے لیس ہوکر اپنامارچ کر کے مقامی مسلمانوں کو خوف زدہ ہی نہ کیا اور اپنے بہت سارے اَن کہے منصوبوں کا کھلا خلاصہ کیا ۔ اسی طرح پی ڈی پی نے جی ایس ٹی کو ریاست میں لاگو کر کے ریاست کی مالی خود اختیاری کے آئینی اختیار کو زندہ درگور کیا۔ اب اس وقت we the citizens نام کی سنگھی این جی او کو میدان میں جھونک کر سپریم کورٹ میں ایک جانب آئین ہند کے دفعہ A35 کا کریا کرم کر نے کی تیاری زوروشور سے ہورہی ہے اور دوسری جانب دفعہ ۳۷۰ ؍کو آئین سے خذف کر نے کی عرضداشت دائر کی جاچکی ہے ۔ دونوں مقدمات میں مرکزی سرکار اپنا بیان حلفی دائر کر نے سے جان بوجھ کر گریزاں رہی ۔ اس سارے خونی کھیل میں پی ڈی پی کا بھرپور استعمال کیا جارہاہے کیونکہ اس کے لئے اقتدار کی ہوس اور کرسی کی مٹھاس کے سامنے ذہن اور ضمیر کی کوئی اہمیت نہیں ۔ اگر ان چیزوں کی کوئی اہمیت ہوتی تو سابق وزیراعلیٰ مفتی سعید نے جب سری نگر میں اپنے پارٹی ورکروں کو وزیر اعظم مودی کی تقریر سننے کے لئے جمع کیا اور اپنے خطاب کے دوران مودی کو بڑا نرم نرم سجھاؤ دیا کہ حکومت ِہند کو پاکستان سے گفت وشنید کر کے امن کوششوں کو مستحکم کر نا چاہیے تو موخرالذکر نے اپنے بھاشن میں صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ انہیں ان معاملات میں کسی کے صلاح مشورے کی قطعی ضرورت نہیں ۔ یہ وہ موقع تھا جب ایجنڈا آف آلائنس کے غبارے سے ساری ہو انکل گئی مگر پی ڈی پی پھر بھی اقتدار کی اسیر بن کر بے ہو اغبارے میں ہی سواری کر تی رہی ۔ یہ غبارہ زمین پر کہاں آگرے ،وہ وقت ہی بتائے گا ۔ بہرصورت یہ بات شرح الصدر کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آنے والا مورخ ضرور یہ لکھے گا کہ جب کشمیری قوم اپنی عزت و آبرو کے تحفظ اور اپنے پیدائشی حق کے حصول کی خاطر بے انتہا قربانیاں پیش کر رہی تھی اور پوری دنیا ئے انسانیت میں کشمیریوں کی مظلومیت اور بے بسی پر آنسو بہائے جارہی تھی، تب پی ڈی پی نے کشمیریوں کو ’’سیلف رول ، باعزت امن ، گولی نہیں بولی‘‘ جیسے خوش نمالفظوں کے گورکھ دھندے میں اُلجھا کر اپنے لئے آر ایس ایس کی بی ٹیم بننے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھا ، نتیجہ یہ کہ یہاں کے لوگوں کے مذہبی افکار و عقائد سے لے کر ان کے عالمی شہرت یافتہ دشت و بیا بان، جھیل جھرنوں، کوہساروں اور جنگلوں پر غیر یقینیت کے مہیب سائے منڈلارہے ہیں۔
اس وقت ریاست کی مجموعی صورت حال بہت ہی دھماکہ خیز ہے ،ایک طرف کشمیری قوم کی اٹھتی جوانیاں راہ ِ مزاحمت میں جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہیں ،دوسری طرف اقتدار پر براجمان زعفرانی آلۂ کار ہر دن کشمیر کے خلاف ایک نئی زہر ناک سازش ساتھ جلوہ گر ہورہے ہیں تاکہ نہ صرف جموں کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ ادغام ہو بلکہ ریاست کا مسلم اکثریتی کردار کا خاتمہ بھی ہو ۔ اس ضمن میں غیر ریاستی افراد کے حق میںخفیہ طریقے سے دھڑا دھڑاسٹیٹ سبجکٹ اسناد جاری کر کے انہیں ریاست میں بسانا،سول اور پولیس انتظامیہ کے اونچے اونچے عہدوں پر غیر ریاستی افراد کی فوج تعینات کر نا ، کشمیر پر خصوصیت کے ساتھ تہذیبی یلغاریں کرنا ، مسلک اور مشرب کے نام پر مسلم اکثریت کو منقسم کر ناوغیرہ جیسے اقدامات شامل ہیں۔ قابل غوربات یہ ہے کہ جموں پچھلے تین سال سے مسلسل سنگھ کی خصوصی توجہ کا مرکز و محور بنا رہا۔سن چنانچہ سنگھی گیم پلان کے تحت ہی آج سے چند مہینے پہلے بھاجپا صدرامیت شا ریاست کے دورے پہ آئے اور ریاستی بی جے پی کو مشورہ دیا کہ اپنی جموں اور لداخ پر توجہ مرکوز کریں، ابھی امیت شا دلی واپس پہنچے بھی نہ تھے کہ آر ایس ایس کی طرف سے جموں میں اپنی پہلی سالانہ جائزہ میٹنگ 18؍جولائی کو طلب کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آر ایس ایس کی تشکیل کے بعد اس کی 92؍ سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب ریاست جموں کشمیر کی سرزمین پر اس کا سالانہ اجلاس منعقد کیا گیا ۔آر ایس ایس کا یہ تین روزہ سالانہ جائزہ میٹنگ جموں میں 18 جولائی سے 20 جولائی تک ہوئی ۔ جموں میں بلائی گئی اس جائزہ میٹنگ کا بغور جائزہ لیا جائے تو عیاں ہوگا کہ سنگھ پریوار دراصل کشمیر کے بارے میں اپنے خطرناک عزائم عملانے سے متعلق زمین ہموار کر رہی ہے ۔ یاد رہے ہندوتواوادی پچھلے تین سال میں کئی بار ’’شستر پوجا‘‘ یعنی ہتھیاروں کی پوجا کا اہتمام کر چکے ہیں۔ ایسی خوف ناک حرکات سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ سنگھ کے کاری کرتاؤں کے دلوں میں کون سا لاوا پک رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے گھمبیر حالات میں اور تاریخ کے اس نازک موڑ پرجب جموں کشمیر کی اصل شناخت اور بقاء داؤ پر لگی ہوئی ہے، اکثریتی قوم کے پاس ایسا کون سا لائحہ عمل ہے جس کے ذریعے وہ جموں کشمیر کا آبادیاتی کیرکٹر، تہذیب ، تمدن، تشخص اور کلچرل انفرادیت کو بچا سکتی ہے ؟کیا قیادت اس گیم پلان کا توڑ کرنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتی ہے ؟کیا طوفان کی دستک دروازوں پرسننے کے بعد ہمارے پاس حالات کا رُخ موڑنے کا عزم صمیم ہے؟کیا ہچکولے کھاتی ہوئی ہماری اجتماعی کشتی کو ساحل ِمراد تک لے جانے کی قوت واستعدادہمارے اندر موجود ہے؟ کیا حالات کی تاریکیوں کاگریباں چاک کرنے کے لئے ہم ید ِبیضا کیکارکشائی سے آشنا ہیں؟ بہرحال حالات کی رفتار اور زمینی حقائق کی اُفتاد کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا ہمارے لئے بے حد ضروری ہے کہ اتحاد،اتفاق،ڈسپلن، ایثار ، وطن اور اہل وطن کی خیرخواہی ،تقویٰ شعاری ،اللہ پر محکم یقین اور غیر متزلزل ایمان کے دوش بدوش موثر حکمت عملیاںاپنانے میں ہی اس محکوم قوم کی کامیابی کا راز مضمر ہے، بصورت دیگر مخالف سمت سے آنے والی سازشیں ، آندھیاں، طوفان ہمیں تنکے تنکے کر کے بہا لے جائیں گے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم فرداً فرداًا ور قیادت ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے اتحاد کی دیواریں مہندم کرنے والے گھر کے بھیدیوں سے خبردار اور چوکنا رہیں،تب جاکر ہم اغیار کی چالوں کا توڑ کر سکتے ہیں اور طوفان کے تھپیڑوں کے باوجود قوم کا مستقبل محفوظ کرسکتے ہیں۔
رابطہ:منزگام، اہرہ بل، کولگام
فون نمبر9070569556