سرینگر// سرینگر سنٹرل جیل میں مقید 365قیدیوں کی مفصل رپورٹ عدالت عالیہ میں پیش کرتے ہوئے ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے عدالت عالیہ سے درخواست کی ہے کہ وہ سرینگر کی مرکزی جیل میں قیدیوں کو درپیش مشکلات کا ازالہ کرنے کیلئے فوری اقدامات کرے جبکہ ریاستی سرکار کو اس غفلت شعاری اور قوانین کی خلاف ورزی پر جواب دہ بنائے جو وہ قیدیوں کے تئیں سالہا سال سے روا رکھے ہوئے ہے ۔بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر مفاد عامہ عرضی زیر نمبر628/2011پر 28فروری2017کو ڈویژن بنچ کی طرف سے صادر احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے بارٹیم بشمول ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم اور ایڈوکیٹ بشیر صدیق جنرل سیکریٹری نے سنٹرل جیل سرینگر کا تفصیلی دورہ کیا اور وہاں قیدیوں کو درپیش مشکلات و مسائل پر تفصیلی رپورٹ مرتب کرکے عدالت عالیہ کو پیش کی ۔رپورٹ کے مطابق اس وقت سنٹرل میں کل365قیدی ہیں جن میں (عام قوانین) کے تحت236کے مقدمات سرینگر ،پلوامہ ،بڈگام اور بانڈی پورہ وغیرہ کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ۔ان میں 2قیدی نفسیاتی امراض کے لئے مخصوص اسپتال میں زیر علاج ہیں جبکہ ایک عبوری ضمانت پر رہا ہیں ۔عسکریت سے جڑے معاملات میں 38قیدی اس وقت سنٹرل جیل سرینگر میں موجود ہیں جن کے کیس سرینگر،بڈگام ،اننت ناگ ،پلوامہ ،بانڈی پورہ اور چرار شریف میں زیر سماعت ہیں ۔رپورٹ کے مطابق غیر ملکی قیدیوں کی تعداد 17ہے جن میں ایک نیدر لینڈجبکہ دیگر پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھتے ہیں ،ان کے مقدمات کپوارہ،شوپیان ،سوپور ،سرینگر ،بارہمولہ اور کولگام میں زیر سماعت ہیں ۔بار رپورٹ کے مطابق سزا یافتہ قیدیوں(عام قوانین) کی تعداد39ہے جن میں 3کو سیشن جج کپوارہ اور سیشن جج لیہ کی جانب سے سزائے موت سنائی گئی ہے جبکہ دیگر20کو عمر قید کی سزا ملی ہے ۔باقی ماندہ سزایافتگان کو مختلف سزائیں سنائی گئیں ہیں جن میں10برس کی قید اور جرمانے بھی شامل ہیں۔عسکریت سے جڑے مقدمات میں سزا یافتہ قیدیوں کی تعداد19ہے جنہیں سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں کی جانب سے عمر قید کی سزا سنائی جاچکی ہے ۔بیرونی ممالک کے سزا یافت گان کی تعداد ایک ہے جو کہ مظفرآباد پاکستان کے باشندے ہیں ۔عام قوانین کے تحت مقید افراد کی تعداد 12ہے جن میں ایک حریت کانفرنس (گ) سے وابستہ ہیں ۔یہ افراد3سے 6ماہ کے عرصے سے قید ہیں ۔ان قیدیوں میں عبدالرشید وانی ،بشیر احمد صوفی اور امیر حمزہ شاہ باترتیب 65،61اور51برس کی عمر کے ہیں ۔ غیر ملکی قیدی 4ہیں جن میں دو پاکستان اور دیگر دو بنگلہ دیش اور سعودی عربیہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بار ٹیم نے جن سبھی قیدیوں سے بات کی ان کی یہ مشترکہ شکایت تھی کہ انہیں اپنے مقدمات کی پیروی کیلئے عدالتوں میں پیش نہیں کیا جارہا ہے اور اس کیلئے پولیس ایسکاٹ کا نہ ہو اہم وجہ بیان کی جاتی ہے ۔یہ بھی بتایا گیا کہ ڈی پی ایل اننت ناگ ،ڈی پی ایل سوپور ،ڈی پی ایل کپوارہ ،ڈی پی ایل بانڈی پورہ ،ڈی پی ایل بارہمولہ اور ڈی پی ایل ہندوار ہ قیدیون کو عدالتوں میں پیش کرنے کیلئے ایسکارٹ فراہم نہیں کرتے جس کی وجہ سے ان کے کیسوں کو التواءمیں ڈالا جاتا ہے ۔عمر قید سزایافتگان نے بار ٹیم کو بتایا کہ جیل مینول کے مطابق عمر قید کی سزا کا اطلاق 20برسوں تک ہوتا ہے لیکن انہیں20برس سے زیادہ عرصہ قید میں گذارنے کے باوجود رہا نہیں کیا جاتا ہے ۔قیدیوں نے ان کی رہائش ،کھانے پینے اور دیگر ضروریات کے فقدان پر بھی اپنی تشویش ظاہر کی ہے ۔بار ایسوسی ایشن نے سنٹرل جیل سرینگر میں قیدیوں سے متعلق مفصل رپورٹ عدالت عالیہ میں پیش کی ہے اور عدالت عالیہ سے درخواست کی ہے کہ وہ ان معاملات میں سرکار کو جواب دہ بنائے ۔