ارجن رام میگھوال
مانسون کا لفظ بھارت بھر میں خوشی اور فخر کی علامت ہے، جو اختراع، نیا پن اور ملک کے معاشی انجن کو فوری تقویت دینے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بھارت کی جغرافیائی اہمیت ، وافر بارش کے ساتھ ، اس کی ندیوں کو تازگی بخشتی ہے اور ملک بھر میں آبی وسائل میں اضافہ کرتی ہے۔یہ ترقی کے ایک موسم کی نمائندگی کرتا ہے اور جب یومِ آزادی کی تقریبات کے ساتھ ملتا ہے تو حب الوطنی کی ایک منفرد فضا پیدا کردیتا ہے۔ لال قلعہ سے وزیرِاعظم کا خطاب ایک بار پھر عوامی تمناؤں کے لیے ایک نقشہ فراہم کرتا ہے، جو وکست بھارت کی تعمیر کے بڑے مقصد کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔
پارلیمنٹ کے اس خصوصی مانسون اجلاس کے آغاز پر وزیرِاعظم نے کہا کہ یہ اجلاس بھارت کے لیے عزت و وقار کا باعث بنے گا۔ بھارتی فوجیوں کی بہادری، آپریشن سندور کی کامیابی، پاکستان کی پشت پناہی والے دہشت گردی کے اڈوں پر کاری ضربیں، اور سندھ طاس معاہدے(آئی ڈبلیو ٹی) کی معطلی،سب بھارت کے مضبوط عزم کی گواہی دیتے ہیں، جو قومی شعور پر گہرےنقوش چھوڑ گئے ہیں۔ پھر بھی، حکومت کی تمام مسائل پر بات چیت کی آمادگی کے باوجود، اپوزیشن نے رخنہ اندازی کو ترجیح دی،جس نے مباحثے کو عوامی مفاد کی قیمت پر سیاسی شعبدہ بازی پر لادیا۔
قوم طویل عرصے سے کانگریس کی اس بار بار دہرائی جانے والی عادت کا بوجھ اٹھا رہی ہے جس میں اس نے قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔ المناک تقسیم سے لے کر نہرو کی سفارت کاری کی مہنگی ناکامیوں تک، تاریخ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان فیصلوں نے بھارت کے تصور کو کمزور کیا۔ سندھ طاس معاہدے (1960) پر قریب سے نظر ڈالنے سے بھی ایک واضح کہانی سامنے آتی ہے،ایسی خوشامدانہ اور حد سے زیادہ فیاضی پر مبنی پالیسی، جو عوام اور ملک کی ترقی کی قیمت پر کی گئی اور جس نے مسلسل قومی ترقی کے امکانات کو متاثر کیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بھارت کی ترقیاتی قربانیاں ایک ایسی سیاسی سوچ کی بنیاد پر دی گئیں جس نے اپنے ہی شہریوں کی فلاح کے بجائے پاکستان کے مفاد کو ترجیح دی۔
اصل میں، عالمی بینک کی ثالثی سے طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ، سندھ دریا کے پانیوں کے نظام کو، جو زیادہ تر بھارت سے نکلتا ہے، اس انداز میں تقسیم کرتا ہے کہ پاکستان کو اس کا بڑا حصہ (80:20) حاصل ہوتا ہے۔ بھارت کو مجبور کیا گیا کہ وہ مغربی دریاؤں۔سندھ، چناب اور جہلم پر اپنا کنٹرول چھوڑ دے، یوں وہ وسیع آبی وسائل سے محروم ہوگیا جو پنجاب، ہریانہ، راجستھان اور گجرات کے خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کو خوشحال بنا سکتے تھے۔ اگر قومی مفاد کو مقدم رکھا جاتا تو ایک منظم آبی ڈھانچہ پورے خطے کی ترقیاتی جہت کو مضبوط بنا سکتا تھا۔
تاہم، یہ امید کہ اس بڑی قربانی کے نتیجے میں وسیع تر سفارتی فوائد حاصل ہوں گے، محض وہم ثابت ہوئے۔ معاہدے کو طے کرنے کے طریقۂ کار نے ان خدشات کو مزید بڑھا دیا۔ اس معاہدے پر 19ستمبر 1960کو دستخط کیا گیا، مگر پارلیمنٹ کے سامنے دو ماہ بعد نومبر میں رکھا گیا، وہ بھی محض دو گھنٹے کی رسمی بحث کے لیے۔ جیسے ہی معاہدے کی تفصیلات منظر ِعام پر آئیں، بڑے اخبارات کی سرخیاں اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد منفی ردِعمل کا اظہار کر رہی تھیں۔ ایسے اہم معاہدے کے ساتھ پارلیمنٹ میں اس قدر عجلت اور سرسری رویہ اختیار کیا جانا جمہوری نگرانی، شفافیت اور اُس وقت کی قیادت کے بدنیتی پر مبنی عزائم پر سنگین سوالات کھڑا کرتا ہے۔
پارلیمنٹ میں محدود غور و خوض کے باوجود سندھ طاس معاہدے کو بھارت کی پارلیمنٹ کے اندر سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ سابق وزیرِاعظم اٹل بہاری واجپئی، جو اُس وقت ایک نوجوان رکنِ پارلیمنٹ تھے، نے خبردار کیا کہ وزیرِاعظم نہرو کا یہ مؤقف کہ پاکستان کے غیر معقول مطالبات کے آگے جھکنے سے دوستی اور خیرسگالی قائم ہوگی، بنیادی طور پر غلط ہے۔
30نومبر 1960کی پارلیمانی بحث ظاہر کرتی ہے کہ اس معاہدے پر ہر جماعت کے اراکین نے تنقید کی۔ بیشتر اراکین نے حکومت کو خوشامد اور پاکستان کے آگے جھکنے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ اس نے بھارتی مفاد کو نقصان پہنچایا ہے۔ راجستھان سے کانگریس کے رکن ہرش چندر ماتھر، اشوک مہتا، اے سی گُہا، کمیونسٹ پارٹی کے رکن کے ٹی کے تانگامانی، سردار اقبال سنگھ اور برج راج سنگھ نے واضح طور پر حقیقی خدشات اور اس ناکام آبی سفارت کاری کے اثرات کو اجاگر کیا۔ مجموعی طور پر اس معاہدے کو ’’یک طرفہ سپردگی، نہ کہ لین دین‘‘کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔
اس تناظر میںیہ بڑی افسوسناک بات تھی کہ لوک سبھا میں جواب دیتے ہوئے وزیرِاعظم نہرو نے معزز اراکینِ پارلیمنٹ کی بصیرت پر ہی سوال اٹھا دیا اور اسے کم تر دکھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمانی تنقید دراصل حقائق اور اس معاملے میں شامل غور و فکر کو نہ سمجھنے پر مبنی ہے۔ نہرو نے مزید کہا’’مجھے افسوس ہے کہ اتنے اہم معاملے کو۔ایسا معاملہ جو صرف حال سے ہی نہیں بلکہ مستقبل سے بھی جڑا ہوا ہے۔اتنی ہلکی اور سرسری انداز میں اور اس قدر تنگ نظری کے جذبے کے ساتھ لیا گیا ہے‘‘۔
یہ معاہدہ جس نے بھارت کے مفادات کو مسخ کیا، پاکستان کے لیے ایک فیصلہ کن سنگ ِ میل ثابت ہوا۔ ایوب خان نے ایک عوامی نشریے میں اعتراف کیا کہ معاہدے کی قانونی حیثیت اور اس کی اصل حقیقت پاکستان کے خلاف تھی، لیکن نہرو کی سفارتی ناکامی نے پاکستان کو برتری دلا دی۔ 4ستمبر 1960کو راولپنڈی میں اپنے خطاب کے دوران ایوب خان نے کہا’’جو حل ہمیں اب ملا ہے، وہ مثالی نہیں ہے لیکن حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، جن میں سے کئی اس معاملے کی قانونی حیثیت اور اصل حقائق کے باوجود ہمارے خلاف تھے، یہ بہترین حل ہے ، جہاں ہم پہنچے ہیں‘‘۔یہ انکشافات آج بھی اس سوال کو جنم دیتے ہیں کہ آخر کس مقصد کے تحت قومی مفاد کو ثانوی حیثیت میں رکھا گیا۔
جیسا کہ نرنجن ڈی گلاٹی نے اپنی کتاب’’انڈس واٹر ٹریٹی: این ایکسرسائز اِن انٹرنیشنل میڈیئشن‘‘ میں بیان کیا ہے، 28فروری 1961کو خود وزیرِاعظم نہرو نے اس مایوسی کا اعتراف کیا اور کہا’’مجھے امید تھی کہ یہ معاہدہ دیگر مسائل کے حل کی راہ ہموار کرے گا، لیکن ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے تھے‘‘۔معاہدے کے بعد کی ترقی میں نمایاں تضاد اس کی غیر منصفانہ نوعیت کو اور بھی اجاگر کرتا ہے۔ نہرو کی بے حسی اور قومی مفاد کو پسِ پشت ڈالنا وقت کے ساتھ ساتھ غالب رہا۔ فروری 1962میں’واشنگٹن پوسٹ‘کو دیے گئے ایک انٹرویو میںوزیرِاعظم نہرو نے سندھ طاس معاہدے پر دستخط کو ’’ایک بڑی پیش رفت‘‘ قرار دیا اور کہا کہ ’’یہ تصفیہ کشمیر کے علاقائی مسائل سے کہیں زیادہ اہم تھا‘‘۔
واضح انتباہات کے باوجود، کانگریس کی قیادت نے امن اور بین الاقوامی پذیرائی کی تلاش میںبھارت کی طویل المیعاد آبی سلامتی اور خوشحالی کے بجائے سفارتی سہولت کو ترجیح دی۔ یہ خوشامدانہ پالیسی کئی محاذوں پر قومی ترقی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی۔ اس معاہدے سے توقع کی جانے والی نفسیاتی اور جذباتی کامیابیاں کبھی حاصل نہ ہو سکیں؛ بلکہ اس کے بجائے جنگوں اور مسلسل سرحد پار کشیدگی کی شکل میںسامنے آئیں۔
پانی کی تقسیم کے اس سخت معاہدے نے بھارت کی اس صلاحیت کو محدود کر دیا کہ وہ خشک سالی سے لڑنے، آبپاشی کو وسعت دینے اور کمزور علاقوں میں زراعت کو مضبوط بنانے کے لیے اپنے قدرتی وسائل کو بروئے کار لا سکے۔ اقتدار کے بھوکے حکمرانوں نے خود انحصاری کی بنیاد ڈالنے کو ضروری نہ سمجھا، جس نے بھارت کو کمزور کر دیا۔ بالآخر، یہ معاہدہ بھارت کے لیے آبی سفارت کاری کی ناکامی اور پاکستان کے لیے ایک سیاسی کامیابی ثابت ہوا۔
اب جبکہ مودی حکومت اس تاریخی غلطی کو درست کرنے کے لیے ایک اور فیصلہ کن اور جرأت مندانہ قدم اٹھا رہی ہے۔ بھارت نے، بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے خودمختار حقوق کا استعمال کرتے ہوئے، سندھ طاس معاہدے(آئی ڈبلیو ٹی) کو اس وقت تک معطل کر دیا ہے جب تک پاکستان اپنی سرحد پار دہشت گردی کی حمایت کو معتبر اور ناقابلِ واپسی طور پر ترک نہیں کرتا۔ وزیرِاعظم نریندر مودی کی دو ٹوک پکار اُن عناصر کے لیے سخت انتباہ ہے جو قومی مفاد کو نقصان پہنچا رہے ہیں”دہشت گردی اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے؛ پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔”
یہ اقدام سابقہ پالیسیوں سے ایک جرات مندانہ اور تاریخی تبدیلی کی علامت ہے۔ یہ محض سفارتی حکمتِ عملی میں تبدیلی نہیں بلکہ بھارت کے خودمختار حق کا ایک مضبوط اور واضح اعلان ہے، تاکہ اپنے وسائل، کسانوں کے مفادات اور وابستہ افراد کے روزگار کے مواقع کو محفوظ بنایا جا سکے،پاکستان کی جانب سے جاری سرحد پار خطرات کے مقابلے میں “سب سے پہلے ملک” کے اصول کو عملی جامہ پہنانا۔
سندھ طاس معاہدے کی معطلی محض سفارت کاری سے آگے بڑھ کر بھارت کے اس عزم کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ وکست بھارت2047کے ہدف کو حاصل کرے گا۔ اپنے آبی وسائل پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر کے بھارت ماحولیاتی پائیدار ڈھانچے کو فروغ دے سکتا ہے، آبپاشی کو مضبوط بنا سکتا ہے اور صنعتی ترقی کو بڑھا سکتا ہے،جو ایک ترقی یافتہ قوم بننے کے لیے بنیادی ستون ہیں۔ یہ فیصلہ اُن سمجھوتوں کے خاتمے کی علامت ہے جو پرانے اور غیر متعلقہ معاہدوں کے تحت مسلط کیے گئے تھے، اور ترقی کی بنیاد کے طور پرآبی خودمختاری کو قائم کرتا ہے۔ یہ ایک جرأت مندانہ قدم ہے جو خود انحصاری، پائیداری اور ہمہ گیر ترقی کے مشن کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے۔
ّ(مضمون نگارمرکزی وزیر مملکت برائے قانون و انصاف (آزادانہ چارج)اور وزیر مملکت برائے پارلیمانی امورہیں۔مضمون بشکریہ پی آئی بی)