واشنگٹن// ورلڈ بینک کے صدر جم یونگ کم نے پاکستان کیساتھ جاری سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے حالیہ تنازع پر بات چیت کی۔ وزیر خزانہ کی جانب سے بینک کے صدر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے تنازع کے حل میں مدد کی درخواست کی گئی تھی۔یہ تنازع بھارت کی جانب سے دریائے سندھ کے نظام پر دو نئے ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹس (کشن گنگا اور راٹلے) کی تعمیر کے وجہ سے شروع ہوا۔اس سے قبل وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جم یونگ کم کو لکھے گئے اپنے 23دسمبر کے خط میں کہا تھاکہ ثالثی میں تاخیر کی وجہ سے پاکستان کے مفادات اور سندھ طاس معاہدے کے تحت حقوق پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔مذکورہ خط میں وضاحت کی گئی تھی کہ پاکستان گذشتہ کی درخواست پر قائم ہے جس میں بینک سے ثالثی کے عدالت کیلئے ایک چیئرمین مقرر کرنے کا کہا گیا تھا اور مذکورہ مسئلے میں پہلے ہی بہت دیرہوچکی ہے، اس لیے اسلام آباد چاہتا ہے کہ بینک جلد از جلد چیئرمین کو تعینات کردے۔پاکستان سمجھتا ہے کہ اس میں مزید تاخیر سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا جیسا کہ انڈیا دونوں منصوبوں پر دن اور رات کام کررہا ہے، اور جب وہ منصوبے مکمل ہوجائیں گے تو انھیں واپس کرنا مشکل ہوجائے گا۔تاہم گزشتہ ہفتے 12دسمبر کو اپنے خط میں ورلڈ بینک کے صدر نے سندھ طاس معاہدے پر غیر جانبدار ماہر کی تقرری روکتے ہوئے پاکستان اور ہندوستان کو آبی تنازع جنوری تک حل کرنے کی مہلت دی تھی۔ورلڈ بینک کے مطابق اگر پاکستان اور بھارت نے آبی تنازع سندھ طاس معاہدے سے ہٹ کر حل کیا تو یہ معاہدہ غیر فعال ہوجائے گا۔پاکستان نے بینک سے کہا تھا کہ ثالثی کی عدالت کے لیے ایک چیئرمین مقرر کیا جائے تاہم انڈیا نے کسی غیر جانبدار ماہر کی تعیناتی کا مطالبہ کیا تھا۔بینک کے صدر کا کہنا تھا کہ میں ثالثی عدالت کا پینل تشکیل دینے کا سلسلہ روک رہا ہوں جو دونوں ممالک کے درمیان ماضی میں ایک اہم تنازع کو حل کرنے کا ذریعہ بنا تھا۔دونوں ممالک کے درمیان حالیہ تنازع کا آغاز رواں سال نومبر میں اس وقت ہوا تھا جب ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان آنے والے پانی کو روکنے کی دھمکی دی تھی اور اگر مذکورہ دھمکی پر عمل درآمد ہوا تو یہ دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان جنگ کا باعث ہوسکتا ہے۔بینک کو بھیجی گئی ایک درخواست میں پاکستان نے زور دیا تھا کہ اگر فریق یہ کہے کہ تنازع دوسرے فریق یا غیر جانبدار فرد کی جانب سے حل نہیں کیا جارہا اور بدستور جاری ہے تو ثالثی کی عدالت کسی بھی فریق کے کہنے پر قائم کی جاسکتی ہے۔اس کے علاوہ بینک کو یہ بھی بتایا گیا کہ اگر متاثرہ فریق اس نتیجے پر پہنچے کہ دوسری حکومت مذاکرات میں تاخیر کررہی ہے تو بھی ثالثی عدالت قائم کی جاسکتی ہے۔پاکستان نے ورلڈ بینک کو بتایا کہ مذکورہ مسئلہ کو حل کرنے کیلئے بھارت سے دو طرفہ مذاکرات کا معاملہ پہلے ہی ختم ہوچکا ہے اور اس کیس کو ثالثی عدالت میں لے جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔پاکستان نے مزید بتایا کہ اس مسئلے کے حل کیلئے حکومتوں کے درمیان مذاکرات کی کوششیں بھی ناکام ہوچکی ہیں۔پاکستان نے بینک کو مزید بتایا تھا کہ کشن گنگا منصوبے پر بھارت سے ان کے مذاکرات دو دہائی قبل شروع ہوئے تھے جبکہ 2013 میں کشن گنگا اور دریائے نیلم پر پانی کا رخ موڑنے اور پانی کے بہاؤ کے حوالے سے دو اہم تنازعات حل کرلیے گئے۔تاہم پانی ذخیرہ کرنے، توانائی کے ذرائع اور ڈیزائن کے معاملات اب بھی حل طلب ہیں۔یاد رہے کہ انڈیا نے راٹلے منصوبے کے ڈیزائن کے حوالے سے پاکستان کو پہلی مرتبہ 2012 میں آگاہ کیا تھا اور اس حوالے سے ہونے والے متعدد مذاکرات کے دوران پاکستان کی جانب سے اس کے ڈیزائن پر اعتراض اٹھائے۔پاکستان کی جانب سے کشن گنگا منصوبے کے ڈیزائن پر اعتراض کے بعد دونوں فریقین کے درمیان ہونے والے متعدد اجلاسوں میں اس پر بات چیت کی گئی تاہم دونوں کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔حالانکہ دونوں ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں کے ڈیزائن میں فرق ہے تاہم دونوں منصوبوں پر معاہدے کی روح سے متعدد قانونی اور تکنیکی سوالات اٹھتے ہیں۔کشن گنگا تنازع کیلئے قائم عدالت کی جانب سے اس منصوبے کیلئے جزوی اجازت دیئے جانے کے بعد پاکستان نے ان اعتراضات کو مارچ 2013 میں ہونے والے ایک اجلاس میں ایک مرتبہ پھر اٹھایا تھا۔پاکستان نے ورلڈ بینک کو یاد دہانی کرائی کہ معاہدے کے لیے ضروری ہے کہ ایک فریق کی درخواست پر دوسرے فریق سے بات چیت کیلئے دو ثالث مقرر کیے جائیں، اور اس درخواست کے 30 یوم کے اندر دوسرا فریق نامزد ثالثوں کے نام بتائے گا۔پاکستان نے ان ذمہ داریوں کو پورا کیا اور انڈیا سے معتدد اجلاس بھی کیے گئے تاہم دونوں فریقین (پاکستان اور انڈیا) ایک معاہدہ تک نہیں پہنچ سکے جس کے بعد پاکستان نے ثالث مقرر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کی جانب سے انڈیا کے ساتھ ہونے والے متعدد رابطوں کی کاپیاں بھی بینک کو فراہم کردی گئی ہیں۔پاکستان نے بینک کو بتایا کہ بھارت تاخیر کا فائدہ اٹھا رہا ہے اور تمام صورت حال یہ واضح کررہی ہے کہ دونوں منصوبوں پر تعمیراتی کام جاری ہے۔کشن گنگا منصوبہ یا تو مکمل ہوچکا ہے یا تکمیل کے مراحل میں ہے، سچ تو یہ ہے، بھارت نے 2012اگست کو پاکستان کو آگاہ کیا تھا کہ وہ اگست کو پلانٹ کے مردہ اسٹوریج کو بھرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔پاکستان نے زور دیا کہ بھارت کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی بھی قسم کے منصوبے کی تکمیل کا وہ خود ذمہ دار ہوگا اور کسی بھی مذاکرات میں اسے بحث کا حصہ نہیں بنایا جائے گا۔