علم و آگہی کے لحاظ سے بنی نوع انسان نے جس قدر ترقی کے منازل طے کئے ،اُسی قدر اس پر بتدریج یہ امر واضح اور مترشح ہوتا گیا کہ نظامِ کائنات محض حادثاتی طور وجود میں نہیں آیا ہے اور نہ اس کا ایک مخصوص نہج پر چلنا اتفاقی ہے۔ اس کو وجود بخشنے میں کسی کار ساز ،قدرت مند اور دانا و بینا ہستی یعنی اللہ وحدہ لاشریک کی صدائے کُن دخیل ہے اور اسی کے وضع کردہ قوانین و اصول کے مطابق ازل سے نظامِ کائنات رواں دواں ہے اور کوئی بھی صاحبِ فہم اور صاحبِ علم ان مخصوص قوانین کی موجودگی سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ نے جتنے بھی حکماء، علماء،فلاسفہ،اور جدید سائنسی علوم علی الخصوص طبیعاتی علوم کے ماہرین کو جنم دیا ہے، وہ اس بات کے معترف ہیں کہ اس کائنات کے بہترین نظام کے پشت پر کچھ ایسے اٹل، ناقابلِ تغیر و تبدل اور آفاقی اصول و قوانین ضرور کار فرما ہیں جن کی طرف قرآن مجید نے بڑی صراحت کے ساتھ درج ذیل آیت میں اس اٹل حقیقت کا انکشاف کیا ہے:’’خدا کا طریقہ کار (سنت) نہ بدلنے والا ہے اور نہ اس میںکسی طرح کا تغیر ہوسکتا ہے۔‘‘
علامہ جواد نقوی دامت برکاتہ اس آیت مبارکہ کے ذیل میں رقم طرازہیں:
’’خداوند تبارک و تعالیٰ نے کائنات بنائی ہے اور اس نظام ہست وبود کو چلانے کے لئے قوانین بنائے ہیں اور یہ نظام انہی قوانین الہیٰ کے تحت چل رہا ہے جس میںکوئی حرج مرج نہیں ہے۔ اس کائنات کا ہر حصّہ اپنے مخصوص قوانین کے تحت اپنی حرکت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں سالوں سے انہیں قوانین کے تحت یہ کائنات باقی ہے اور اپنے نظم سے چل رہی ہے۔ اگر اللہ کے بنائے ہوئے یہ قوانین ثابت نہ ہوتے تو یہ کائنات ایک دن بھی نہ چل سکتی اورنابود ہوجاتی۔‘‘(مشرب ناب بحوالۂ سنت الٰہی ایک ناقابلِ نظام ص۔ ۲۴ از: ڈاکٹر میر محمد ابرا ہیم )
اس لحاظ سے ان اٹل قوانین سے چشم پوشی کی گنجائش کسی بھی فردِ بشر کے لئے ممکن نہیں ہے ، کیونکہ ان الٰہی قوانین سے آشنائی نہ صرف نظامِ کائنات کی تفہیم کے سلسلے میں از حد ضروری ہے بلکہ انہیں سمجھے بوجھے بغیر تسخیرِ کائنات انسان کے لئے دیوانے کا خواب ہے۔ اس نکتے کی مزید وضاحت ایک مثال کے ذریعے کی جاسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخض کسی بھی جاندار یا بے جان شئے کو اپنا مطیع بنانا چاہے تو اس کے لئے نہایت ہی ضروری ہے کہ وہ اس شئے کی تخلیقی،تکنیکی اور طبعی خاصیتوں سے کماحقہ آشنا ہو اور ساتھ ہی ساتھ اس بات سے بھی واقف ہو کہ یہ شئے کن اصولوں کے تحت کام کرتی ہے۔ اس کی قوت و توانائی کا منبع کیا ہے اور اس کی ناتوانی اور کمزوری کن ابعاد میں ہے؟ مثلاً ایک مشین سے صحیح استفادہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک مستفید ہونے والا شخص اس قاعدے سے واقف نہ ہو کہ جس پر اس مشین کی کارکردگی دارومدار رکھتی ہو۔
بہر صورت ان ہی ناقابل تغیّر قوانین کی بدولت ہی نظامِ کائنات محفوظ رہ پایا ہے اور انسانی معاشرہ کا توازن بھی ان ہی اصول و اقدار اور قوانین کا مرہونِ منت ہوا کرتا ہے۔یہی وجہ ہے متوازن معاشرے کو وجود میں لانے کے لئے دو طرح کے قوانین خداوند ِمتعال کی جانب سے وضع کئے گئے ہیں۔
اول: وہ قوانین جنہیں قہری طور پر پروردگارِ عالم نے لاگو کیا ہے یہ قوانین تخلیق کے ابتدائی مراحل سے اس کارخانہ ہست و بود کو چلانے میں ایک بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں اور جب تک یہ کار خانہ قدرت قائم ہیں یہ قوانین لاگو رہیں گے۔ مختصر الفاظ میں کہا جائے تو یہ قوانین طویل المدت اور دیرپا ہے۔تکوینی بنیادوں پر استوار ان ہی قوانین کو قرآن کریم میں سننِ الٰہی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
دوم:عالم ِبشریت کے لئے خیر و فلاح پر مبنی تشریحی بنیادوں پر استوار وہ قوانین ہیں جنہیں شریعتِ الٰہی عنوان دیا گیا ہے۔یہ تشریعی قوانین انفرادی اور اجتماعی سطح پر اختیاری طور لاگو ہوا کرتے ہیں۔سننِ الٰہی اور شریعتِ الٰہی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اول الذکر کو پروردگار نے وضع بھی کیا ہے اور قدرتی طور پر نافذ بھی کر رکھا ہے اور ثانی الذکر اسی پروردگار کے وضع کردہ ہے مگر ان کو نافذ کرنے کے لئے انبیائے کرام ؑ اور اولی الامر مقرر کر رکھے ہیں۔ سننِ الٰہی کے سامنے بشمول بنی آدم تمام موجودات بے بس و بے اختیار ہیںیعنی یہاں کسی کے لئے بھی فرار کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ حتٰی کہ کوئی فرد سنتِ الٰہی کا شعور و ادراک رکھتاہو یا اس سے نابلد ہو ،بہر حال اس کے اثرات و نتائج سے نہیں بچ سکتا ہے۔ عکس العمل اس کے شریعت بھی اسی پروردگار کے وضع کردہ قوانین پر مشتمل ہے لیکن اسے اجباری اور قہری طور نافذ نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ یہ بات قابلِ ذکر ضرور ہے کہ شریعت الٰہی اور سننِ الٰہی کے مابین اجرائی سطح پر یہ اختلاف بنیادی نہیں بلکہ جزوی ہے، یہی وجہ ہے یہ قوانین آپس میں کہیں پر بھی متصادم نہیں دکھائی دیتے بلکہ ہر دو میں بنیادی سطح پر مطابقت و موافقت پائی جاتی ہے، کیونکہ دونوں کا ہدف و مقصد یکساں ہے۔ بہ نظرغائر دیکھا جائے تو سنتِ الٰہی ہی شریعتِ محمدی ؐکا اصل ماخذ و منبع ہے۔
سنتِ الٰہی کی ہمہ جہتی اور حیطۂ اثر گزینی کو دیکھا جائے تو یہ تمام کائنات پر محیط ہے اسی اعتبار سے یہ تمام اقوامِ عالم کا احاطہ کرتی ہے۔اس کی اثر آفرینی میں زمان و مکان کی کوئی قید نہیںیعنی جب سے کائنات کو وجود بخشا گیا ہے اسی وقت نظام کائنات پر سنت ِ الٰہی پر مبنی قوانین نافذ ہیں اور اس کے یعنی کائنات کے اختتام تک نافذ رہیں گے۔ یہ کبھی بھی زائدالمیعاد قرار نہیں پائیںگے ،نیز اس میں(یعنی سنتِ الٰہی میں) کسی بھی خطۂ زمین،ملک، قوم و ملت یا فردِ بشرکواستثنائی پوزیشن حاصل نہیں ہے۔ یہاں تک کہ خدا کے خاص الخاص بندے انبیا و مرسلین ؑاوردیگر خاصانِ خدا بھی عمومی طور پر سنتِ الٰہی کے پیشِ نظر ہی ہر کام انجام دیتے ہیں۔ان کے مقدس مشن کی کامیابی کا ایک اہم محرک یہ بھی ہے کہ وہ ہر حالت میں ان الٰہی قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔آیت اللہ سید علی خامنائی مد ظلہ اس سلسلے میں ایک اہم نکتے کی جانب اشارہ کر تے ہوئے فرماتے ہیں کہ عمومی طور پر خاصان ِ خدا بھی سنت ِ الٰہی کے پابند ہیں اور انہیں بھی یہاں پر کسی استثنائی حیثیت کے حامل نہیں ہوا کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ امام مہدی جب ظہور فرمائیں گے تو ان کے لئے وہی پیمانے اور معیارات ہوں گے جو قبلِ ظہور الہٰی قوانین کے تحت رائج تھے،یعنی وہ نظام ہائے زندگی میں انقلاب برپا تو ضرور کریں گے مگر ان کے لئے سنتِ الٰہی میں کسی بھی قسم کی خاص لچک نہیں آئے گی۔ در اصل وہ عالم ِانسانیت کو اسی ڈگر پر پھر سے واپس لائیں گے جو سنتِ الٰہی کے عین مطابق ہوگی نہ کہ سنتِ الٰہی ہی ان کے لئے تبدیل ہوگی۔
ان الٰہی قوانین کی عالمگیریت کا اندازہ قرآنِ مجید کی ایک معروف آیت سے بھی ہوتا ہے جس میں خدا وند کریم فرماتا ہے :’’ ایک انسان کووہی ملے گا جس کی وہ کوشش و جستجو کرے۔‘‘سنتِ الٰہی کے مطابق تمام انسانوں پر بلا لحاظ رنگ و نسل لازمی ہے کہ وہ مقصد بر آراری کے لئے کوشش و جدوجہد سے کام لیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ قانونِ الٰہی مساوی طور تمام بشریت پرلاگو ہے۔بقول علامہ اقبال ؒ ع
بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
سنتِ الٰہی کی وسعت و ہمہ جہتی کو اجمالی طور پر یوں بیاں کیا جا سکتا ہے کہ سنتِ الٰہی کے تحت ہی آفتاب تپش و تمازت سے لبریز روشنی کے ساتھ ہر روز حیات و حرارت کا بھنڈار لئے طلوع ہوتا ہے اور ماہتاب اپنی خنکی آمیز روشنی سے تمام موجودات کے لئے راحت و استراحت کا سامان بہم پہنچاتاہے۔ سنتِ الٰہی کو آفاق کی وسعتوں ، انفس کی پیچ در پیچ اور حیرت انگیز تہہ داریوں ، سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں کھوج سکتے ہیں۔ان ہی الٰہی قوانین کے فیضانِ جاریہ سے پہاڑ کو ثبات اور اسے نکلنے والی آب ِجُو کو روانی ملی ہے۔ نظامِ بادوباراں پر بھی درپردہ یہی قوانین حکم فرما ہیںاور ان ہی کی وجہ سے زمین کے ضمیر و خمیر میں روئیدگی کا جوہر رچا بسا ہے۔شب و روز کے اُلٹ پھیر پر غور وفکر کیا جائے تو یہاں بھی سنتِ الٰہی کا دستِ پنہاں واضح طور پر نظر آئے گا۔سورہ النباء میں اسی موضوع کو زبانِ قدرت نے خوبصورت لہجے میں یوں بیان فرمایا ہے۔
’’کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا ؟ اور پہاڑوں کو (زمین کے لئے) میخیں نہیں قرار دیا؟ اور تم کو بطور جوڑا پیدا کیا۔ اور نیند کو تمہارے لئے آرام کا (وسیلہ) بنایا۔ اور شبِ تاریک کو (ایک قسم) کا پردہ قرار دیا۔ اور دن کو وقتِ معاش مقرر کیا۔اور آفتاب کو (بمثل) روشن چراغ بنایا۔ اور بادلوں سے موسلا دھار مینہ برسایا۔ تاکہ اس کے ذریعے اناج اور سبزہ پیدا کریں۔‘‘
قرآنِ مجید کی ایک آیت اللہ کی سنت و ربوبیت کچھ اس طرح بیان کر رہی ہے :’’بے شک آسمانوں اور زمین کی خلقت میں اور شب وروز کے اُلٹ پھیر میں ، لوگوں کی منفعت کے لئے سطحِ دریا پر چلنے والی کشتیوں میں اور خدا کی جانب سے برسنے والے اس پانی میں جو زمین کو موت کے بعد حیات عطا کرتا ہے۔ اور زمین میں مختلف انواع کے چوپائے پھیلا رکھے ہیں اور ہواؤں کے چلنے میں اور زمین و آسمان کے درمیان معلق بادلوں میں صاحبانِ عقل و فکر کے لئے اللہ کی نشانیاں پائی جاتی ہیں‘‘ (سورہ بقرہ آیت 641)
ان آیاتِ الٰہی میں اللہ کے بنائے ہوئے مختلف النوع نظاموں کے تئیں قرآنِ مجید صاحبانِ فہم و فراست کو دعوت فکر دے رہا ہے۔ گو ان نظاموں میں سے ہر نظام کا اپنا ایک مخصوص دائرہ کار ہے لیکن ہر نظام میں پروردگارِ عالم کی جانب سے مقرر کردہ طریقِ کار(Mechanism) قدرِ مشترکہ کی حیثیت سے کارفرما دکھائی دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان نظاموں میں غضب کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ایک نظام کے بنیادی یا ذیلی عناصر اور کل پرزے نہ صرف اپنے مخصوص نظام کی کارکردگی میں اپناکردار بخوبی نبھاتے ہیں بلکہ کسی دوسرے نظام کے ساتھ بھی ان کا تال میل اور تعاون دیدنی ہوا کرتا ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ مختلف نظام ہائے عالم میں کسی قسم کی اَن بن، عدم ہم آہنگی اور عدم مطابقت کی کوئی ادنیٰ سی مثال نہیں ملتی۔ اس نکتے کی وضاحت شاید ایک مثال کے ذریعے ہو کہ گردشِ نظام شمسی میں جہاں آفتاب کی کلیدی حیثیت سے انکارنہیں کیا جا سکتا ہے ،وہاں نظامِ حیاتیات(نباتات و حیوانات)کا دارومدار ابھی اسی کی تابانی پر منحصر ہے،یعنی ایک نظام سے منسلک کل پرزہ بیک وقت کئی ایک نظاموں میں سرگرم عمل ہے۔ یہی ہمہ جہت سرگرمی نظام ہائے عالم میں ایک ناقابل تنسیخ ربط قائم کرنے میں کلیدی رول نبھاتی ہے۔ اس ہمہ جہت سرگرمی کا بنیادی سر چشمہ سنتِ الٰہی ہی ہے۔عہد جدید کے معروف اسلامی فلاسفر علامہ محمد حسین طباطبائی’’ تفسیرالمیزان‘‘ میں رقمطراز ہے کہ ’’قرآن تمام مادی موجودات میں علت و معلول(علیت) کے قانون کی تصدیق کرتا ہے اور اس کی حقیقت کو ثابت کرتا ہے لہٰذا یہ نتیجہ آسانی سے حاصل ہو تا ہے کہ تمام مادی موجودات میں خواہ وہ عادی طریقے سے وجود میں آئی ہوں یا خارق العادات ہوں ان میں پایا جانے والا نظام وجودو ہستی سیدھے راستہ (راہ مستقیم )پر استوار ہے کہ جس میں کسی قسم کی تخلف و انحراف اور اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں اور وہ ایک ہی اصول پر قائم ہے‘‘
ظاہر سی بات ہے کہ جب پوری کائنات میں خدا وندِ کریم نے اپنی خلاقیت و ربوبیت کے لئے ایک خاص روش(Mechanism)مقرر کر رکھا ہے تو پھر رونقِ کائنات یعنی انسان اس روشِ خداوندی سے کیونکر مستثنیٰ ہو سکتا ہے؟ بلا شبہ کائنات کے دیگر نظاموں کی مانند خالق نے انسانی حیات کے لئے بھی سنتِ الٰہی کے تحت مختلف الٰہی معیارات اور پیمانے مقرر کر رکھے ہیں۔گویا جس طرح نظامِ کائنات طے شدہ سنت کے تحت رواں دواں ہے، اسی طرح انسانی زیست سنتِ الٰہی کے دائرہ کار میں رہ کر ہی پھلتی پھولتی ہے اور ان الٰٰہی قوانین کی خلاف ورزی بہرحال کسی بھی فرد و قوم کے لئے ہلاکت کا سبب بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے نہ صرف ان الٰہی پیمانوں کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے بلکہ ان کو نظر انداز کرنے والے افراد اور قوموں کی ناعاقبت اندیشی پر کافی رد وکد کی ہے۔انسانی تاریخ میں جابجا سنتِ الٰہی کے اطلاقی نمونے دکھائی پڑتے ہیں۔اولادِ آدم کی سرگزشت اور قوموں کے عروج و زوال کی داستان اس بات کی گواہ ہے کہ جس کسی نے الٰہی قوانین کے ساتھ اپنے فکروعمل کو ہم آہنگ کیا ،وہ فلاح یاب ہوگا اور جس کسی(فرد یا قوم) نے ان کے بر عکس عمل کیا ، اس کا انجام عبرت و حسرت سے عبارت ہو گیا۔ ‘‘چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ ھود کی آیت نمبر 117 میں فرماتا ہے :اور تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو جب کہ وہاں کے باشندے نیکو کار ہوں از راہِ ظلم تباہ کرے۔‘‘
آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی فرماتے ہیں:
’’جب دنیا کی کوئی قوم ان راستوںپر آنکھیں بند کرکے چل پڑے اور مسلم الثبوت قوانین فطرت کو پس پشت ڈال دے تو اس کا قہری نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ وہ اپنے سرمایہ ٔ ہستی کوکھو بیٹھے گی اور تباہی کے گڑھے میںہمیشہ کیلئے جاگرے گی۔ اگر مختلف قوموںکے تمدنوںکا مطالعہ کیا جائے جیسے بابل، فراعنۂ مصر، قوم سبا، کلدانی، آشوری، مسلمانان اندلس اور اسی طرح کی دوسری قومیں تو معلوم ہوگا کہ جب ان کی کج رویاں اور سرکشیاں حد سے بڑھ گئیں تو ان کی نابودی کافرمان آسمان سے نازل ہوگیا۔ پھر ایک گھڑی کیلئے بھی وہ اپنی حکومت کے لرزاںستونوں کو باقی نہ رکھ سکے۔‘‘(تفسیر نمونہ ج۔۴ ص ۔۹۶)
cell :7006889184