وہ اپنے آنگن کی خوب صورت پارک میں کرسی پر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا کہ اچانک گیٹ کھلنے کی آواز سن کر وہ چونک پڑا۔اُس کا ایک دوست تیز تیز ڈگ بھرتے ہوئے اس کی جانب آرہاتھاوہ نزدیک آکر بولا۔
’’عامر ؔ کیوں اتنے گم صم بیٹھے ہو۔ لو چکھو ۔یہ تمہاری اُداسی کی دوا ہے۔‘‘
عامر نے کچھ پیکیٹ ہاتھ میں لیتے ہوئے پوچھا۔
’’اس میں کیا ہے یار ؟‘‘
’’اس۔۔۔۔ میں۔۔۔اس میں سرور ہے شانتی ہے‘‘
کچھ دیر کی چُپی کے بعد دوست نے کہا۔
’’تم کیاسوچنے لگے۔اس کو چکھ کر دیکھو۔جنت نظر آنے لگے گی۔‘‘
’’جنت تو مرنے کے بعد ہی نظر آئے گی۔وہ بھی تب جب آپ نے نیک عمل کئے ہوں۔‘‘
’’عامر ایسے شوق پالنا امیروں کی شان ہے۔‘‘
وہ اس کے شانے تھپتھپا کربات جاری ہوئے رکھتے بولا۔
’’خیر میں یہ کچھ پیکیٹ چھوڑ کے جاتا ہوںاگلے ہفتے پھر ملنے آئوں گا۔‘‘
عامر نے یہ سارے پیکیٹ اُٹھا کر اندر کمرے میں رکھ دئیے۔شام کے وقت وہ کمرے میںاکیلا تھا۔خا موش۔۔۔۔ گم صم ۔اُس کی عقل پر جیسے پردہ پڑ گیا تھا۔ اُس نے آخر ایک پیکیٹ کھول کر اس میں موجود سفوف کا مزہ چکھ ہی لیااورکچھ ہی دیر میں ہوش و حواس کھو کر بڑ بڑانے لگا۔
’’وہ واقعی سچ بول رہا تھا مجھے تو اسی دنیامیں جنت نظر آنے لگی ہے۔‘‘
عامر کو آہستہ آہستہ نشہ کرنے کی لت پڑ گئی۔اب وہ اپنی ہی سوچوں کے دائرے میںمقید مست رہنے لگا۔وہ ہر غم سے بے فکر ہو کر جئے جا رہاتھا۔ اب اس کو صرف اور صرف اپنے دوست کا انتظار رہتاجو ہفتے میں ایک بار آکر اسے ڈرگ کے پیکیٹ تھما دیتا۔
عامر کاباپ ایک کروڑ پتی بزنس مین تھا۔وہ اکثر وبیشتر بزنس کے سلسلے میں بیرونی ممالک جاتا رہتا۔اب کی بار وہ اپنی اہلیہ کو بھی ساتھ لے گیا تھا۔عامر چونکہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا اس لئے وہ اس کو بہت لارڈ پیار کرتے۔اس کی ہر فرمائش پوری کرتے اور روپے پیسے دینے میں بھی کوئی بخل نہیں کرتے۔
عامراکثر بڑبڑاتا رہتا۔ ایک سمے پر وہ کمرے میںبیٹھا ابوؔ کی تصویر سے بات کرتے ہوئے بولا۔
’’ابو تم کتنے اچھے ہو ۔تم ڈھیر ساری دولت کما لینا اور میں دل کھول کر خرچ کرتا رہوں۔‘‘
پھر ہنسی بکھیرتے ہوئے ڈرگ کا ایک پیکیٹ ہاتھ میں لے کر اچھالنے لگا۔
’’یہ دیکھ رہے ہونا۔۔۔پیکیٹ ۔۔یہ پیکیٹ مجھے جنت کی سیر کرا دیتے ہیں۔ابو میری فکر بالکل مت کرنا۔ میں بہت خوش ہوںاور میرا دوست ہر ہفتے مجھ سے ملنے آتا ہے۔ ہم خوب گپ شپ مارتے ہیں۔‘‘
اور کھڑکی سے باہر جھانک کربات جاری رکھتے ہوئے بولا۔
’’ابو ہر طرف مجھے جنت کے نظارے دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘
پھر تکیے سے ٹیک لگا کر بے پروا ہوکر سو گیا۔
کئی مہینوں کے بعد عامر کے ابو امی گھر لوٹے تواس نے بڑی گرم جوشی سے ان کو خوش آمدید کہا اور اپنے ابو امی کے ہاتھ چوم کربولا ۔
’’سفر ٹھیک رہا ۔‘‘
’’اللہ کا فضل ہے ۔سفر بھی ٹھیک رہا اور بزنس میں بھی بہت منافع ہوا۔‘‘
پھر عامر کے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
’’بیٹے میں تمہارے لئے اتنی دولت کما کے رکھوں گا کہ تم آرام سے زندگی گزار سکو گے۔‘‘
’’ابو ۔۔۔اس وقت تم تھک گئے ہونگے ۔تم آرام کر لو۔‘‘
اور دونوں آرام کرنے بالکونی میں چلے گئے۔کچھ دنوں کے بعد عامر کا دوست حسب معمول ڈرگ کے پیکیٹ اسے تھما کر بولا۔
’’یار۔۔۔۔اب کے دام بڑھ گئے ہیں۔‘‘
’’دام کی فکر مت کرو۔ میرے ابو تو کروڑ پتی ہے۔‘‘
اس نے روپے نکال کر دیدئیے اور دونوں دیر تک گپیں مارتے رہے۔
سمے بیتتاگیا۔نشے نے عامرؔ کو بری طرح اپنی گرفت میں جکڑ لیا ۔اب وہ جسمانی طور پر بہت مضمحل ہو چکا تھا۔ اس دن بھی وہ گھر میں اکیلا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔اس نے بکھری پڑی تمام چیزیں سمیٹ کر رکھ دیںاور اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔ایک خوب صورت لڑکی کو اندر آتے ہوئے دیکھ کر وہ من ہی من میں باغ باغ ہوا۔
’’اندر آئیے نا۔‘‘
عامر اپنے دماغ پر زور دیتے ہوئے اسے پہچاننے کی کوشش کررہا تھا کہ نائلہ بولی
’’عامر ۔۔۔۔مجھے پہچانا نہیں۔۔میں ۔۔۔۔۔۔نائلہ ہوں۔‘‘
عامر نے مصنوعی ہنسی بکھیرتے ہوئے اسے یقین دلانے کی کوشش کی کہ اس نے اسے پہچان لیا۔
’’او۔۔۔۔۔نائلہ۔۔۔۔۔‘‘
دونوں باتیں کرنے لگے۔باتوں باتوں میں ہی عامر بول اٹھا۔
’’میں آپ کے لئے چائے بنا کر لاتا ہوںامی گھر پر نہیں ہے ۔‘‘
اور وہ لڑکھڑاتے ہوئے کچن میں چل دیا۔نائلہ ادھر ادھر تاک جھانک کرنے لگی تو ٹیبل کے نیچے رکھی چیزوںمیں ڈرگ کے پیکیٹ دیکھ کر وہ ششدر رہ گئی۔اس نے آواز دیکر کہا ۔
’’عامر میں جا رہی ہوں۔‘‘
یہ سن کر وہ اُلٹے پائوںلوٹ آیاتو دیکھا کہ نائلہ جا چکی تھی۔ وہ کمرے میں بیٹھ کر بڑبڑانے لگا۔
’’نائلہ تم کیوں چلی گئی ۔‘‘
اتنے میں ابو امی گھر لوٹے تو آتے ہی ابو نے پوچھا ۔
’’نائلہ یہاں آئی تھی۔‘‘
عامر نے چپی سادھ لی۔
’’کیسی لگی۔‘‘
’’ابو وہ بہت اچھی ہے۔‘‘
’’ہم تمہارا بیاہ اس سے کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
یہ سنتے ہی عامر اپنے کمرے میں جا کر خودسے باتیں کرنے لگا۔
’’نائلہ تمہارے سانسوں کی خوشبو سے میرا سارا کمرہ مہک اٹھا ہے۔میں تمہیں اپنی دنیا کی سلطنت کے سنگھا سن پر رانی بنا کر بٹھانا چاہتا ہوں ۔تم آئو تو سہی۔میں تمہاری زندگی کو خوشیوں سے بھر دوں گا۔‘‘
اگلی صبح عامر کے ابو نے فون پر نائلہ سے رابطہ کیا تو وہ بولی ۔
’’سوری انکل۔۔۔۔۔۔آپ کوئی دوسری لڑکی ڈھونڈ لیجئے۔‘‘
اور اس نے فون کاٹ دیا ۔یہ سن کر عامر اپنے کمرے میں بوکھلا سا گیا۔اس نے اپنے شریر پر نظریں دوڑائیںاور اپنے مضمحل جسم کو دیکھ کر بڑبڑانے لگا ۔
’’سمے کسی کا انتظار نہیں کرتا ۔اور یہ۔۔۔۔۔ یہ میرے سمے کا قاتل ہے ۔‘‘
ڈرگ کا پیکیٹ ہاتھ میں اٹھا کر بے سدھ سا گر پڑا۔
٭٭٭
دلنہ بارہمولہ
موبائل نمبر:-9906484847