محمد تسکین
بانہال // ضلع رام بن کے علاقوں میں بیشتر گوجر بستیاں حکام اور سرکار کی نظروں سے اوجھل ہیں اور ان علاقوں میں بنیادی اور ضروری سہولیات کی عدم دستیابی سے لوگوں کو گونا گوں مشکلات کا سامنا ہے ۔ ضلع رام بن کی تحصیل رامسو اور تحصیل رام بن میں تقسیم ورنال ، پل باس ، بجھمستہ اور سمبڑ کے دور پہاڑی علاقے ابھی بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور ان علاقوں میں ہندئوں اور کشمیریوں کے علاوہ گوجر بکروالوں کی بھاری تعداد رہائش پذیر ہے ۔ بجلی ، سڑک ، پینے کے پانی ، تعلیمی اور طبی شعبے میں یہ علاقے تقریباً فراموش کئے گئے ہیں اور مختلف سرکاری محکموں کی تعمیر و ترقی کے دعوے سرکاری فائیلوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔علاقے کے سابقہ پنچایتی نمائیندہ سجاد احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ سمبڑ اور ورنال کے علاقے رام بن سے چالیس کلومیٹر دور ہیں جبکہ جموں سرینگر قومی شاہراہ پر واقع ڈگڈول کے راستے سے ان علاقوں کی رسائی کیلئے ریلوے کی طرف سے بنائی گئی چند کلومیٹر لمبی سڑک تباہ حالی کا شکار ہے اور ریلوے کمپنیوں کے یہاں سے نکل جانے کے بعد محکمہ تعمیرات عامہ اس خستہ اور شکستہ سڑک کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ڈگدول کے راستے سمبڑ اور ورنال کو جوڑنے والی سڑک خطرناک ہے اور کسی بھی وقت کسی بڑے حادثے کا موجب بن سکتی ہے کیونکہ چند کلومیٹر لمبی یہ سڑک لوگوں کو راحت پہنچا رہی ہے ۔چودھری غلام محمد نامی سابقہ پنچایتی نمائیندہ اور مقامی معزز شہری نے کہا کہ ضلع رام بن کے ورنال ، دودہ ، بجھمستہ ، سمبڑ ، جواری ، کوہلی ، ہڑوگ اور داڑم کے علاقوں میں کشمیر ریل پروجیکٹ کے تحت آدھ درجن کے قریب ریلوے ٹنل تعمیر کئے گئے ہیں لیکن ان علاقوں میں ریلوے تعمیراتی کمپنیوں کی طرف سے کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی کے لازمی فنڈس سے تعمیر و ترقی کا کوئی کام انجام نہیں دیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ورنال ، پلباس اور بوگٹ میں ابھی تک بجلی نہیں پہنچائی گئی ہے اور محکمہ بجلی کی طرف سے صرف کھمبے لگائے گئے ہیں اور لوگوں نے از خود خریدی گئی بجلی کی کیبل تاروں سے اپنے اپنے گھروں تک بجلی پہنچائی ہے ۔ رام بن سے چالیس کلومیٹر دور سمبڑ لور پنچایت سے تعلق رکھنے والے مقامی سماجی کارکن فرید احمد سوہل نے کشمیر عظمی کو بتایا کہ وارڈ نمبر چار کے محلہ ریکی دھار ، ڈوگین ، نکہ ، داسہ ، ڈکسنڈی میں ابھی تک بجلی نہیں پہنچائی گئی ہے اور مجبور لوگوں نے اپنی ذات سے دس دس ہزار روپئے کی کیبل تاریں خرید کر اپنے اپنے گھروں تک بجلی پہنچائی ہے اور محکمہ بجلی ٹس سے مس نہیں ہو رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سمبڑ میں جل جیون مشن کے تحت کروڑوں روپئے کے کام انجام دیئے گئے ہیں مگر سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو پینے کے پانی کی بوند بوند کیلئے ترسنا پڑ رہا ہے اور گھر گھر جل پہنچانے کا خواب ناکامی سے دوچار ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ پائپ لائینوں کی مرمت کیلئے کسی بھی قسم کے اقدامات محکمہ پی ایچ ای کی طرف سے نہیں اٹھائے گئے ہیں اور محکمہ کے مقامی ملازمین اپنے کاروباروں میں مگن ہیں اور لوگ پینے کے پانی کی بوند بوند کے محتاج ہو کر رہ گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا پنچات سمبڑ کے دور پہاڑیوں پر آباد وارڈ نمبر چار کے دور افتادہ لوگوں کو راشن لینے کیلئے کئی کلومیٹر دور وارڈ نمبر تین میں راشن ڈپو سے راشن لینا پڑتا ہے اور ماضی میں اس دشوار سفر کے دوران راشن لینے جارہی ایک عمر رسیدہ خاتون کی موت پہاڑی سے گر کر واقع ہوئی ہے جبکہ ایک اور شخص راشن کی حصولیابی کے دوران گر کر زخمی ہو گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سمبڑ اور ورنال کا وسیع علاقہ انتظامی اُمور کے معاملات میں بھی بکھرا پڑا ہے اور اسے حلقہ انتخاب بانہال جبکہ تحصیل رام بن اور تحصیل رامسو میں تقسیم کیا گیا ہے جبکہ ورنال کا گاوں کئی کلومیٹر دور رامسو کی پنچایت سربگھنی کا حصہ بنایا گیا ہے اور اس نا انصافی کی سزا ہزاروں لوگوں کو بھگتنا پڑ رہی ہے ۔ سمبڑ ، ورنال اور بجھمستہ کے لوگوں نے موجود عوامی سرکار ، ممبر اسمبلی بانہال سجاد شاہین اور ضع انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ اس دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں آباد لوگوں کو روزمرہ کی مشکلات کو کم کرنے کیلئے اقدامات کریں اور ڈگڈول اور ورنال کے درمیان سڑک کو کشادہ کرنے اور اس کا بہتر رکھ رکھاو کرنے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں ۔