سمارٹ فون صحافیو! صحافت پر رحم کرو

Towseef
10 Min Read

ندیم خان، بارہمولہ

موجودہ کساد بازاری کے دور میں جب کہ روحانی، انسانی، علمی، ادبی و اخلاقی قدروں کو ہر طرح سے پامال ہونا پڑ رہا ہے، صحافتی لوازمات بھی بُری طرح سے متاثر ہورہے ہیں، ـ ویسے صحافی کے لئے ضروری ہے کہ ایک مقصد کے لئے مائک اور کیمرے کا استعمال کرے، ـ اسے ہمیشہ اور ہر حال میں مجبور اور مظلوم کی ترجمانی کے واسطے مائک و کیمرے کا استعمال کرنا چاہئے۔ ـ ایک صحافی کا فرض بنتا ہے کہ عوام کو درپیش مسائل یا تکالیف کو اُبھارنے اور ارباب اقتدار اس کے لئے اگر کارروائی کرنے میں کاہلی سے کام لیں تو حکومت کے خلاف آواز بلند کرے،ـ لیکن افسوس صد افسوس! ہمارے معاشرےمیں اب ایسے بھی کئی لوگ میدانِ صحافت میں آگئے ہیں، جنہوں نے صحافت کو کاروبار بنا رکھا ہے۔ فضا کی کثافت، تہذیبی قدروں کا زوال، اقتصادی نظام کی پسپائی، سرکاری و سماجی اداروں کی لوٹ کھسوٹ، آپسی مفاہمت و رواداری کی پامالی، خود غرض افراد کی کج ادائی، اخلاقی و ادبی لوازمات کی حوصلہ شکنی، عدم آسودگی، زیادتی، افراتفری اور دور دور تک پھیلی سراسیمگی اپنی تلخ و ترش حقیقی کا ذکر کئے بغیر موجودہ دور کا صحافتی اداریہ یا مقالہ مکمل نہیں ہوگاـ، کوئی بھی عام شخص اگر کسی شخص کو کالا کوٹ پہنے ہوئے دیکھے گا تو اسے یہ اندازہ لگانے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی کہ موصوف کا تعلق پیشۂ وکالت سے رہا ہو گا۔ لیکن اس کے برخلاف کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ صحافی ہونے کی کیا نشانی ہے؟ کیا کسی کو مائیک پکڑے دیکھ کر آپ اسے صحافی سمجھ بیٹھتے ہیں؟ یا کسی کا پریس کارڈ دیکھ کر آپ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ صحافی ہے؟ بد قسمتی سے ہم یہ آج تک طے ہی نہیں کر سکے کہ صحافی اصل میں کسے کہتے ہیں۔ صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون ہے۔ میڈیا کی اخلاقیات کیا ہوتی ہیں، ہمیں ان تمام باتوں سے کوئی غرض نہیں ہے۔ شائد اب کشمیر میں کسی کو بھی صحافت کے شعبے میں آنے کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ اُسے خیال آ جائے کہ وہ صحافی بن جائے ،تو وہ بن جاتا ہے۔ اس خیال میں ہی ایسا جادو ہے کہ آپ خود مشاہدہ کریں گے کہ کچھ دیر پہلے ایک بندہ اچھا بھلا پھر رہا تھا لیکن اب وہ باقاعدہ صحافی بن چکا ہے۔اس بیچارے کو یہ تک معلوم نہیں کہ خبر ہوتی کیا ہے، لیکن وٹس ایپ اور فیس بک کی مہربانی کی وجہ سے یہ فرد سڑکوں پر کھیل تماشے کرکے لوگوں کی نظروں میں مشہور ہوجاتا ہےاور بہن بیٹیوں کی عزت اُچھال کر فیس بک پر لائکس اور ویوز جمع کرنے میں قطعاً کوئی شرم محسوس نہیں کرتا۔اس طرح کےخود ساختہ صحافیوںنے صحافت کو ایک کاروباری شکل دے ڈالی ہے اور صحافت کے اصل حقائق کو پس پردہ ڈال کر طمع نفسانی کی خاطر بلیک میلنگ اور چور بازاری اور غداری پر اُتر آئے ہیں،یہاں تک کہ اپنے معاشرے اور ملک کو کسی بھی طرح کا نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں اور پھر عوام کو خبر سے باخبر رکھنے والے ایسے صحافی خود ہی خبروں کی زینت بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ہم نے دیکھا کہ کس طرح ایک نام نہاد سوشل میڈیا صحافی ،بحیثیت ِ ایک صحافی ایک خاتون کے ساتھ کس طوفانِ بدتمیزی سے پیش آیا تھا۔ خاتون نے اس سے کہا بھی کہ، اپنا کیمرہ بند کر دو لیکن اِن صاحب کو اُس خاتون کو کیمرے پر لاکر پیسے کمانے تھے۔ کیا ایسے ہی صحافت کی جاتی ہے؟ اس طرح کے واقعات اب وادی کشمیر میںروزانہ دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔بلکہ اس طرح کے خود ساختہ صحافی آپس میں بھی لڑتے رہتے ہیں، گالی گلوج پر اُتر آتے ہیں، مقصد اُن کا ایک ہی رہتا ہے کہ کسی بھی طرح سے اُن کےویڈیوز پر پیسے آنے چاہیے، ان صحافی حضرات نے روحانی، انسانی، علمی، ادبی و اخلاقی قدروں کو ہر طرح سے پامال کر دیا ہے۔ اب جو کچھ لوگ واقعی صحیح معنوں میں صحافت کر رہے تھے، اُن بیچاروں کو بھی ان سمارٹ فون صحافیوں کی وجہ سے شرمندہ ہونا پڑرہا ہے۔ ان سمارٹ فون صحافیوں کے پاس نہ تو تعلیم ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی صحافتی ڈگری یا کوئی رجسٹریشن موجود ہے، اگر ان سے پوچھا جائے کہ کیا آپ کے پاس کوئی ڈگری ہے؟تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ ہم تو بس انسانی جذبے کے تحت کا م کررہے ہیں۔ گویا کشمیر میں ایسےسمارٹ فون صحافیوں نے صحافت کرنے کے لئے ایسے اصول بنائے ہیں جو حیران کر دینے والے ہیں، کچھ نکات میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔
�ہر حالت میں ازدواجی و گھریلو رشتے کے تقدس کو پامال کیا جائے۔�جب تک کسی کا جرم عدالت میں ثابت نہیں ہوتا، اُسے بطور مجرم پیش کیا جائے۔�ہر شخص کے خلوت میں بے جا دخل اندازی کی کوشش کی جائے۔�کسی شخص کے خلاف ایسا اسکنڈل مشتہر کیا جائے جس سے اُس کی عوامی زندگی پر بُری طرح مُتاثر ہوجائے۔�کسی شخص سے کوئی غلط بیان منسوب کیا جائے اور ایسا بیان منظر عام پر لایا جائے جو اس نے کسی نجی گفتگو کے دوران دیا ہو۔�کسی کے مذہبی جذبات یا احساسات کو ٹھیس لگائی جائے۔�کسی گروہ یا طبقے کو بہ طور خاص مذاق کا ہدف بنایا جائےاور ایسی خبریں دکھائی جائیں جن خبروں کا صحافت
کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ہو ۔
یہ ایسے نکات ہیں جن کی وجہ سے وادیٔ کشمیر کا ذی شعور عوام حیران و پریشان ہے، آخر لوگ ان چینلوں میں کیا دیکھیں ،محض ،بے ہودگی ،لچر نویسی اورمضحکہ خیز مسخرہ پن۔ کشمیر میں ایسے بھی عزت دار اور قابل صحافی ہیں جو صحافتی اصول اچھی طرح جانتے ہیں اور وہ ان اصولوں پر قائم و دائم ہیں، لیکن چند بےہودہ صحافیوں کی وجہ سے ان کا نا بھی خراب ہورہا ہے۔ جیسا کہ ایک مچھلی پورے تالاب کو گندہ کردیتی ہیں ویسا ہی حال کشمیر میں نام نہاد صحافیوں نے کردیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان حضرات میںصحافت کا جذبہ تھا تو صحافت کی تعلیم حاصل کیوں نہیں کر لی؟ لگتا ہے کہ کشمیر میں کسی کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ کمپونڈری سیکھ کے ڈاکٹر کہلواؤ؟ قطع نظر اس کے یہاں تمام نیوز چینلز کی بات ہو،کشمیرمیںبیروز گاری کی شرح بہت زیادہ ہے ،اس لئے کچھ افراد ایک نیوز پیج کھول کر دلفریب عمومیات سے لوگوں کو بے وقوف بناتے چلے آرہے ہیں۔ ایک صحافی اگر صحیح معنوں میں صحافت کے اصولوں سے واقف ہو تو ملک وقوم کی خدمت موزوں انداز میں بجا لاسکتا ہے،ـ سماج اور معاشرے کو پاک وصاف رکھنے میں اہم رول ادا کر سکتا ہے،ـ خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو بیدار کرسکتا ہے۔ نیم مردہ ذہنوں کو نئی جان ڈال سکتا ہے،ـ بے وجہ وقت کے ستائے ہوئے افراد کو اُن کا حق دلوا سکتا ہے،ـ حق کے خاطر آواز بلند کرسکتا ہے اور انسانیت اور روا داری کی مٹتی ہوئی قدروں کو اُجاگر کرسکتا ہے۔ پست ہورہی تہذیبی و تمدنی اقدار کے وقار کو بحال کرواسکتا ہے۔جس کے لئے یہاں کی انتظامیہ کو چاہئےکہ اس معاملے کی جانب متوجہ ہوجائےاوراس پیشہ کے بارے میں ایک واضح پالیسی مرتب کرے،تاکہ خود ساختہ سمارٹ فون صحافیوں کی یہ مضحکہ خیزیاں بند یوجائیں ۔ظاہر ہے کہ ایک وکیل کو پریکٹس کرنے کے لیے لائسنس درکار ہوتا ہے، اسی طرح کوئی بھی انجینئر تب تسلیم کیا جاتا ہے، اگر اسے بھارت میں انجینئرنگ کونسل انجینئر تسلیم کرے۔ ٹھیک اس طرح کشمیر میں صحافیوں کی اچھی طرح جانچ پڑتال ہونی چاہئے۔تاکہ اُسے صحافی تسلیم کیا جاسکے۔ گویا ایک صحافی کو بھی انڈر لائسنس ہونا چاہیے تا کہ اس کا ایک کرائی ٹیریا بن سکے اور لوگوں کو بھی یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ کسے اصلی صحافی کہنا ہے اور کسے عطائی صحافی۔ الغرض صحافیوں میں اعلیٰ پیشہ ورانہ معیار کا قیام لابدی ٹھہرا۔اُن تمام امور کی نشاندہی کرنے پر غور و فکر کرنا ضروری ہے، جن سے عوامی معاملات متاثر ہوں۔ اخیر میں یہ التماس کہ خدارا صحافت کے شعبے کو تجارت کے طور پر نہ اپنایا جائے۔بقولِ شاعر
مرغ لڑائے جائیں گے بوٹی کے واسطے
اخبار نکالے جائیں گے روٹی کے واسطے
(رابطہ/ 6005293688)
[email protected]

Share This Article