دنیا میں اگر تخلیق انسانیت کے حوالے سے گہرا اور عمیق مطالعہ کیا جائے تو یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ انسان کی تخلیق ایک دوسرے انسان کے ساتھ محبت، مروت، اخلاق و اخلاص اور ایثار و قربانی پر منحصر ہے۔ قرآن حکیم میں بھی تمام تر احکام انسان کے متعلق ہیں اور دنیائے ناپائیدار کا تمام فلسفہ اس بات کا علم بھی باہم پہنچاتا ہے کہ وجہ تخلیق کائنات انسان کی فلاح و بہبود اور اس کی دنیاوی خیریت اور آخروی نجات کے لئے ہے، تاکہ وہ اعلیٰ مقام انسانیت حاصل کر سکے۔ اخلاق انسانی دراصل اخلاق قرآنی ہیں، اس ضمن میں حضور اکرم ؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ’’ اللہ تعالیٰ جیسے اخلاق پیدا کرو‘‘ اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق شان رحیمیت، شان کریمیت، شان غفاریت اور شان رزاقیت ہیں، لہٰذا انسان بالخصوص مسلمان کے لئے بحیثیت انسان از بس ضروری ہے کہ وہ انسانی اخلاق کا مجسمہ اور خیر و برکت کا باعث بنے۔اللہ رب العزت نے انسان کو محض اس لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ پیدا ہو کر خود اپنے لئے ہی زندگی گزارے اور پھر ایک دن بڑی خاموشی سے اس دنیائے فانی سے یوں گزر جائے کہ نہ ہی کسی کو اس کے آنے کی خبر ہوئی تھی اور نہ ہی کسی کو اس کے اس دنیا سے جانے کی خبر ہوئی۔ کیوں کہ اس نے جو زندگی گزاری تھی وہ اپنے لئے گزاری تھی۔ انسان کو زندگی اس لئے دی گئی ہے کہ وہ دوسروں کے کام آسکے۔ اسلام میں جتنی اہمیت ان عبادات کی ہے،جن کا تعلق بندے اوراس کے رب سے ہے،اتنی ہی بلکہ بعض معنوں میں اس سے بھی زیادہ اہمیت ان عبادات اور اعمالِ صالحہ کی ہے،جن کا تعلق بندوں سے ہے۔اس ضمن میں مخلوقِ خدا کی خدمت کرنا، ان کے کام آنا، ان کے مصائب اور پریشانیوں کو دور کرنا، ان کے دکھ درد کو بانٹنا اور ان کے ساتھ ہمدردی و غمخواری اور شفقت کرناجیسے نیک اعمال آتے ہیں۔ ان تمام اعمال کومختصرطورپر خدمتِ خلق سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، خدمت خلق کتنی بڑی نیکی اور کتنا افضل عمل ہے اور قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا کیا مقام ومرتبہ ہے، یہ ایک نہایت ہی اہم اور عظیم الشان موضوع ہے، جس پرعلمی اعتبارسے علماء نے سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں۔قرآنی آیات،احادیث پاک اور فقہی تصنیفات کے زیادہ تر حصوں کاتعلق انسانوں کے باہمی معاملات سے ہے اوران سب کا مرکزو محورکسی نہ کسی طورخدمتِ خلق کوقراردیاجاسکتاہے ؎
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو!
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں!
خدمت خلق کا مطلب ہے کسی بھی مسلم یا غیر مسلم انسان یا کسی بھی جاندار کی خدمت کرنا،یہ بھی عبادت ہے۔اللہ کے تمام انبیا ء و رسل ؑ نے خود دوسروں کی خدمت کی ہے اور اس کی تلقین و تاکید کی ہے۔شریعت اسلامیہ میں اس کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بتلائی گئی ہے اور مسلمانوں کو خدمت خلق پر ابھارا گیا ہے۔خود ہمارے اسلاف خدمت خلق کا بہت زیادہ اہتمام کرتے تھے اور اگر یہ خدمت خواہ وہ انسان کی ہو یا حیوان کی خلوص و للہیت کے ساتھ کی جائے تو معمولی سے معمولی کام جہنم سے آزادی اور جنت میں داخلہ کا سبب بن سکتا ہے۔خدمت خلق وہ جذبہ ہے جس سے انسان ایک دوسرے کے قریب ہوتا ہے اور معاشرہ میں باہمی اتفاق واتحاد پیدا ہوتا اسی طرح اخروی اعتبار سے بے شمار اجروثواب حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انسان کی تخلیق چونکہ ہمدردی کیلئے ہوئی ہے،اس لئے ایک انسانی کیلئے دوسرا انسان سب سے بڑا ہمدرد ہے۔ہمدردی مذہب،نسل،رنگ اور ذات نہیں دیکھتی اور نہ ہی اس کی قائل ہیں،بلکہ یہ بلا امتیاز ہر ایک کیلئے ایک جیسی ہوتی ہے۔دکھ درد بٹانے والے، مصیبت کے وقت کام آنے والے ، آنسوؤں کا سبب بننے والے حالات کے آگے کسی کی خاطر بندھ باندھنے والے اور سب سے بڑھ کر کسی کے لئے آسانی پیدا کرنے کی خاطر خود کو مصیبت تک میں ڈالنے والے کو ہمدرد کہتے ہیں۔ کسی کی ہاں میں ہاں ملادینا یا چند گھڑیاں پاس بیٹھ کر گزرار دینا ہمدردی نہیں کہلاتا۔ ایک مصیبت زدہ کے ساتھ خود بھی دن اور رات خود کو مصیبت میں مبتلا کر لینا ہی حقیتتََا ہمدرد ہوتا ہے۔ بعض اوقات مجبوریاں اور بندشیں ایسی ہوتی ہیں کہ ایک شخص کسی کیلئے کچھ نہیں کر سکتامگر اندر ہی اندر کڑھتا ضرور ہے۔ وہ بھی تو ہمدردی میں ہی ایسا کر رہا ہوتا ہے ایک شخص ظاہراََ تو کہیں نظرنہیں آ رہا ہو تا مگر مظلوم کو ڈھارس بندھا رہا ہوتا ہے۔ بچے کی اس جہانِ فانی میں آمدکے ساتھ ہی اس کے ساتھ کچھ ہمدرد سامنے آنا شروع ہوتے ہیں کسی کو دادا ، دادی ،چچاؤں سے زیادہ ہمدردی ملتی ہے اور کسی کے لئے نانا، نانی ،خالہ اور ماموں دید ہ دل فرش راہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔سکول میں کسی استاد کی شفقت اس کیلئے ہمدردی کا روپ دھارتی ہے اور شباب کاعالم سامنے آ جاتا ہے۔ یہ ایسا جذبہ ہوتا ہے جس کی نہ تو کسی سے فرمائش کی جا سکتی ہے اور نہ حد سے زیادہ توقع یہ ربِّ عظیم کی طرف سے کسی کے دل میں کسی کیلئے ڈال د ی جاتی ہے۔ سفر کی تیزی میں اور حالات کی دھند میں ہمیں اپنے ہمدرد وں کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔ ہمدرد سے ملنا روزضروری نہیں ہوتا۔ آپ جب بھی سالوں بعد ،کبھی کبھار بھی مل جائیں تواس کا چہرہ خوشی سے کھِل اٹھے گااور سالوں کے فاصلے اس کی مسکراہٹ میں حل ہو جائیں گے، ربِ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اورجسے چاہے ذلت ، رزق تک کا ذمہ خود لے رکھا ہے تو ہمارا کام توصرف اورصرف ہمدردی ہی رہ جاتا ہے۔
آج ہم نے عیب جوئی ، غیبت اور خواہ مخواہ کسی کی ترقی خوشحالی اور دولت مندی کو موضوع بحث بنایا ہوا ہے درحقیقت ہم نے ہمدردی کو موضوعَ سخن بنانا تھا۔ کسی کے راستے کے کانٹے چننے کی تدبیریں سوچنے کیلئے وقت کو صرف کرنا تھا۔ آہوں سسکیوں کو خوشیوں میں بدلنے کیلئے کام کرنا تھا۔ علامہ محمداقبال نے بھی انسان کا مقصد یہی بیان کیا ہے۔ایسے لوگوں کی ضرور مدد کرو، جن کا چہرہ سوال ہوتا ہے اور زبان بے سوال ہوتی ہے۔غلط سے غلط انسان کیلئے بھی ا صلاح کا واحد راستہ محبت ہے۔تنقید اور تلخی چاہے کتنی حق پر کیوں نہ ہو، وہ اصلاح کیلئے کارگر ثابت نہیں ہوتی۔
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر!
خدا مہرباں ہوں گا عرش بریں پر!
لوگوں کی خدمت سے انسان نہ صرف لوگوں کے دلوں میں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی بڑی عزت واحترام پاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی رضا اور قرب کا حقدار بن جاتا ہے اور مخلوقِ خدا کی خدمت کرنے والا شیخ سعدی علیہ الرحمۃ کے اس مصرع کے مصداق بن جاتا ہے’’ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد ‘‘یعنی ’’ جو شخص دوسروں کی خدمت کرتا ہے (ایک وقت ایسا آتا ہے کہ)لوگ اس کی خدمت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں‘‘۔اسلام میں ایک بہترین انسان کے لئے جن صفات کا ہونا ضروری ہے، ان میں سے ایک صفت خدمت خلق کی ہے اور ایسی صفت رکھنے والے کو اچھا انسان قرار دیا گیا ہے۔ خدمت خلق میں جس طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔خدمت خلق میں صرف مالی امدادواعانت ہی شامل نہیں بلکہ کسی کی رہنمائی کرنا،کسی کی کفالت کرنا، کسی کو تعلیم دینا، کوئی ہنر سکھانا،اچھا اور مفید مشورہ دینا،کسی کی علمی سرپرستی کرنا،مسجد اور مدرسہ قائم کرنا،نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا وغیرہ یہ تمام امور خدمت خلق میں آتے ہیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا : ترجمہ: ’’اے ایمان والو! نیکی اور پر ہیزگاری(کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون ومدد کرو اور گناہ اور برائی (کے کاموں) میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو‘‘۔(سورۃالمائدہ:آیت۲)۔اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ خیروبھلائی اور اچھے کاموں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون وامداد کریں اور گناہوں اور برائی کے کاموں میں کسی کی مدد نہ کریں بلکہ گنا ہ اور برائی سے روکیں کہ یہ بھی خدمت خلق کا حصہ ہے۔ایک حدیث شریف میں رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا:ترجمہ: ’’لوگوں میں سب سے اچھا وہ ہے جو لوگوں کو نفع اور فائدہ پہنچائے‘‘۔(جامع ترمذی)۔ایک اور مقام پر فرمایا،ترجمہ: اگر کوئی شخص راستے سے تکلیف دینے والی چیز ہٹا دے تو یہ بھی صدقہ ہے۔‘‘(صحیح مسلم)۔رسول کریم ﷺ نے بہترین انسان کے بارے میں فرمایا کہ تم میں سب سے بہترین اور عمدہ انسان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور حسنِ سلوک کرتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے بہترین انسان بننے کا معیار یہ مقرر کیا ہے کہ اس کے وجود دوسروں کے لئے فائدہ مند اور نفع آور ہو، دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہو اور ان کی خیرو بھلائی کے لئے ہر وقت کوشاں رہے۔دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے۔ ایک سچے مسلمان کی یہ نشانی ہے کہ وہ ایسے کام کرے، جس سے عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔مثلاً رفاعی ادارے بنانا، ہسپتال وشفاخانے بنانا، اسکول وکالجز بنانا، کنویں اور تالاب بنانا، دارالامان بنانا وغیرہ، یہ ایسے کام ہیں کہ جن سے مخلوقِ خدا فیض یاب ہوتی ہے اور ان اداروں کے قائم کرنے والوں کے حق میں دعائیں کرتی رہتی ہے اور یہ ایسے ادارے ہیں کہ جو صدقہ جاریہ میں شمار ہوتے ہیں یعنی ان اداروں سے جو لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں وہ قائم کرنے والے کے حق میں دعا کرتے ہیں اور اس کا اجرو ثواب مرنے کے بعد بھی اس شخص کو ملتا ہے اوراس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے۔
عصر حاضر میں بہت سارے مسلمان اس کی اہمیت و افادیت, فضیلت و عظمت , اجرو ثواب سے ناواقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کار عظیم میں حصہ نہیں لیتے ہیں اور اس سے غفلت برتتے ہیں۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ عبادات ہیں مگرعملی طورپر اخلاقیات، معاملات اور معاشرت کو ہم دین ی اعمال کے دائرے سے نکال نہیں سکتے۔ یہ سب بھی اجزائے دین ہیں اور اسلام کے اندر ان کابھی وہی درجہ ہے جتناکہ عقائداور دیگر عبادات کااوردونوں میں فرق یہ ہے کہ عقائداور ایمانیات کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہے جب کہ اخلاقیات و معاملات اورمعاشرت کا تعلق پورے انسانی معاشرے اور سماج سے ہے اوراس کی وجہ سے ان چیزوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ انسانی پرانسانی حقوق اور ایک دوسرے کی ذمے داریاں ہیں،ان کی ادائیگی ہمیشہ ،ہر جگہ اور ہروقت ضروری ہے۔ چاہے وہ انسان کی اپنی ذات کے حقوق ہوں، والدین کے حقوق ہوں،اپنے بچوں کے حقوق ہوں، چرندوپرندکے حقوق ہوں ، اساتذہ کے حقوق ہوں، رشتہ داروں کے حقوق ہوں، دوست احباب کے حقوق ہوں، ہمسایوں کے حقوق ہوںیاملک میں رہنے والے ہم وطنوں کے حقوق ہوں، یہاں تک کہ قدرت کے انعامات مثلاً ندی نالوں تالابوں کے کے حقوق ہوں ، یہ بھی وضاحتاً متعین ہیں اور ان تمام حقوق کی مکمل ادائیگی سے ہی انسانی معاشرے میں خوشحالی اور حسن پیداہوسکتاہے۔ حقوق اللہ کے مقابلے میں حقوق العباد کی اہمیت اس لیے بھی بعض دفعہ بڑھ جاتی ہے کہ دنیاکی ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے،جیساکہ ایک حدیث میں نبی اکرمﷺ نے فرمایا:’’دنیاکی ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے، لہٰذااللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ وہ آدمی ہے جو اس کے کنبے (مخلوق) کے ساتھ بھلائی کرے‘‘۔ا س لئے ہمیں بھی اسلامی تعلیمات کے اس پہلوکواپنی عملی زندگی میں مدنظررکھناچاہیے اور انسانی خیرخواہی و بہبودی کے اعمال کوعبادت اور تقربِ خداوندی کا ذریعہ سمجھ کر انجام دیناچاہیے۔خدمت خلق کی اہمیت اس وقت اور زیادہ ہوجاتی ہے جب کسی علاقہ میں کوئی قدرتی آفت یا طوفان آجائے یا کہیں کوئی حادثہ ہوجائے۔ ایسی صورت میں ان لوگوں کو فوری مدد و تعاون کی ضرورت ہوتی ہے،اور خوب زیادہ خدمت کا موقع بھی رہتا ہے۔لہٰذا ان حالات کو غنیمت جانتے ہوئے ان جگہوں پر پہنچ کے مصیبت زدہ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی جاسکتی ہے اور بہت زیادہ اجر و ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے۔یہاں یہ چیز قابل ذکر ہے کہ خدمت خلق صرف مال و دولت کے ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔ہاں جہاں مال و دولت خرچ کرنے کی ضرورت ہو وہاں مال خرچ کرنا ہی افضل ہے۔ اور یہ عمل صرف مالداروں کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ ایک فقیر سے فقیر آدمی بھی یہ کام کر سکتا ہے۔ جیسا کہ خدمت خلق کے تحت ذکر کیے گئے کاموں سے واضح ہے۔
خدمت خلق انسانی ضرورت بھی ہے اور اہم ترین عبادت بھی ،رب ذوالجلال کے نظامِ ربوبیت کا اعلان بھی ہے اور رحمت للعالمینﷺ کی رافت و رحمت کا مظہر بھی۔ افراد انسانی کے درمیان تعاون و ہمدردی اور محبت و خیر خواہی کا جذبہ ،عصرحاضرمیں سماجی استحکام، معاشرتی امن و سکون، اور معاشی ترقی وخوش حالی کے لئے از حد ضروری ہے، اسی لئے اسلام نے باہمی اخوت و رواداری اوربیلوث ہمدردی و خیرخواہی کو اعلیٰ انسانی اوصاف کا جزو لاینفک قراردیا،نیز’’الخلق عیال اللہ ‘‘کے ذریعہ خدمت خلق کا ایسا جامع تصور پیش کیا کہ تلاش بسیار کے باوجود دنیا کے کسی مذہب میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی ۔یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں اس کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بتلائی گئی اوراس اہم فریضے کی ادائیگی پر مسلمانوں کو مختلف انداز وطریقے سے اُبھارا گیا۔تو اب دیر کس بات کی اور انتظار کس چیز کا۔بسم اللہ کیجیے اور آج سے ہی شرع کر دیجیے اپنے حسب استطاعت ومقدرت سماجی خدمات کاکام اور کمائیے خوب زیادہ ثواب اور وہ بھی بہت سارے کام مفت میں بے لوث جذبے کے ساتھ ۔ ہوسکتا ہے اخلاص وایثار کے ذریعہ انجام دیا گیا آپ کا ایک معمولی سے معمولی کام بھی بخشش اور جنت میں داخلہ کا سبب بن جائے۔
رابطہ :حول جعفر بیگ سری نگر
فون نمبر9906688498