مختار احمد قریشی
شادی ایک مقدس بندھن ہے جو دو افراد اور ان کے خاندانوں کو جوڑتا ہے، لیکن آج کے دور میں یہ بندھن سماجی دباؤ، فضول خرچی اور بڑھتے ہوئے اخراجات کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ شادی، جو کبھی سادگی اور محبت کا مظہر ہوا کرتی تھی، آج ایک معاشرتی نمائش کا ذریعہ بن گئی ہے۔ نتیجتاً یہ مہنگائی اور مالی دباؤ کا باعث بن رہی ہے جو کئی خاندانوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔لوگوں پر یہ دباؤ ہوتا ہے کہ وہ اپنی شادی کو یادگار بنائیں اور دوسروں سے بہتر دکھائیں۔ یہ مقابلہ بازی اکثر فضول خرچی کی طرف لے جاتی ہے۔چنانچہمعاشرے میں کئی غیر ضروری رسومات شامل ہو گئی ہیں، جنہیں پورا کرنا مالی لحاظ سے ایک بوجھ بن گیا ہے۔دولہا اور دلہن کے لباس اور زیورات کی قیمت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ایک عام شادی کے لیے بھی لاکھوں روپے خرچ کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔مہنگے پنڈال، بڑے پیمانے پر مہمانوں کو مدعو کرنا اور کھانے پینے کے اعلیٰ انتظامات بھی شادی کی مہنگائی کا ایک بڑا سبب ہیں۔فلموں، ڈراموں اور سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی شاندار شادیاں لوگوں کے ذہنوں میں غیر ضروری توقعات پیدا کرتی ہیں۔شادی کے اخراجات پورے کرنے کے دباؤ کی وجہ سے خاندانوں میں ذہنی تناؤ اور تنازعات پیدا ہوتے ہیں۔بہت سے لوگ بڑھتے ہوئے اخراجات کے سبب اپنی شادیوں کو مؤخر کر دیتے ہیں، جو سماجی اور نفسیاتی مسائل پیدا کر سکتا ہے۔غریب خاندانوں کے لیے اپنی بیٹیوں کی شادی کرنا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے، جو انہیں سماجی بدنامی کا سامنا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔مہنگائی کی وجہ سے معاشرے میں طبقاتی فرق بڑھ رہا ہے، کیونکہ امیر لوگ مہنگی شادیاں کرتے ہیں جبکہ غریب طبقہ خود کو پیچھے محسوس کرتا ہے۔شادی کو سادگی سے منانے کا رجحان عام کیا جانا چاہیے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق شادی کو آسان اور سادہ بنایا جائے۔لوگوں میں شعور پیدا کیا جائے کہ وہ غیر ضروری رسومات اور فضول خرچی سے گریز کریں۔حکومت کو شادیوں میں فضول خرچی کو روکنے کے لیے قوانین نافذ کرنے چاہئیں، جیسے مہمانوں کی تعداد اور تقریب کے اخراجات کی حد مقرر کرنا۔شادیوں کو خاندانوں کے درمیان مشترکہ طور پر منانے کی روایت کو فروغ دیا جائے تاکہ اخراجات کم ہوں۔غریب خاندانوں کی شادیوں میں مدد کے لیے خیراتی تنظیموں کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔نوجوان نسل کو سادگی کی اہمیت اور غیر ضروری اخراجات کے اثرات کے بارے میں تعلیم دی جائے۔کئی خیراتی تنظیمیں اجتماعی شادیوں کا اہتمام کرتی ہیں، جہاں کئی جوڑے ایک ہی تقریب میں نکاح کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف مالی بوجھ کم کرتا ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کا سبب بھی بنتا ہے۔ میڈیا کو بھی اس مسئلے پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ فلموں اور ڈراموں میں شادیوں کو شاندار اور غیر ضروری طور پر مہنگا دکھانے کے بجائے سادگی کی مثالیں پیش کرنی چاہئیں۔ سوشل میڈیا پر بھی ایسے مواد کو فروغ دیا جانا چاہیے جو لوگوں کو کم اخراجات میں شادی کرنے کی ترغیب دے۔ علماء کرام اور سماجی رہنما عوام کو اس حوالے سے اسلامی تعلیمات اور سادگی کے فوائد کے بارے میں آگاہ کریں۔ اسلام میں شادی کو آسان بنایا گیا ہے اور رسول اللہؐ کی زندگی میں اس کی بہترین مثالیں موجود ہیں۔ حکومت کو شادی کی تقریبات کو کم خرچ اور سادہ بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گےاور غریب خاندانوں کے لیے مالی امداد فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے پریشان نہ ہوں۔
نوجوان نسل کو یہ سمجھنا ہوگا کہ شادی کا مقصد دکھاوا نہیں بلکہ دو دلوں کا ملاپ اور خاندانوں کی خوشی ہے۔ اگر وہ فضول خرچی اور سماجی دباؤ کو مسترد کریں گے، تو معاشرے میں مثبت تبدیلی ممکن ہوگی۔ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ خوشی کا تعلق مہنگے زیورات، شاندار تقریبات، یا بڑی دعوتوں سے نہیں، بلکہ دلوں کے ملاپ اور باہمی محبت سے ہے۔ اگر معاشرہ یہ سبق سیکھ لے، تو شادیوں کی مہنگائی کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم اس روایت کو فروغ دیں جو ہر طبقے کے لیے قابل قبول ہو اور جس سے معاشرتی خوشحالی کو فروغ ملے۔ اگر ہم شادیوں کی مہنگائی کے خلاف عملی اقدامات کریں اور سادگی کو فروغ دیں، تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔فضول خرچی سے گریز کرنے سے خاندانوں پر مالی بوجھ کم ہوگا اور وہ اپنی آمدنی کو زندگی کے دیگر اہم معاملات میں خرچ کر سکیں گے۔سادگی کے رجحان سے خاندانوں میں بےجا دکھاوے اور تنقید کا خاتمہ ہوگا، جس سے تعلقات مضبوط ہوں گے۔شادی کی تقریبات میں کم خرچ ہونے سے معاشرے کے افراد اپنی بچت کو فلاحی کاموں اور تعلیم و تربیت پر خرچ کر سکیں گے، جس سے مجموعی طور پر معاشرہ ترقی کرے گا۔ ہر فرد اپنی جگہ پر یہ فیصلہ کرے کہ وہ شادی کو سادہ رکھے گا۔ والدین کو اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پر کرنی چاہیے کہ وہ دکھاوے کی بجائے حقیقی خوشیوں کو اہمیت دیں۔شادی کے بجٹ کو محدود رکھیں۔غیر ضروری رسومات سے گریز کریں۔سادہ لباس اور زیورات کو ترجیح دیں۔دعوت میں قریبی لوگوں کو شامل کریں۔ سادگی کو فروغ دینے کے لیے ہمیں ایک تحریک کی ضرورت ہے۔ یہ تحریک تعلیمی اداروں، مساجد، کمیونٹی سینٹرز، اور میڈیا کے ذریعے چلائی جا سکتی ہے۔علماء کرام کو خطبات میں سادگی پر زور دینا چاہیے۔اساتذہ کو طلبہ کو ان کی معاشرتی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا چاہیے۔میڈیا کو سادگی کو خوبصورتی کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔شادی کی مہنگائی کے خلاف یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے، لیکن اگر ہم سب مل کر قدم اٹھائیں تو اس مسئلے کا حل ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سادگی کو اپنانے اور اپنی زندگیوں کو دین اسلام کے اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔یہی وہ وقت ہے جب ہمیں ایک ایسی معاشرت تشکیل دینی ہے جہاں شادی خوشی اور برکت کا ذریعہ بنے، نہ کہ پریشانی اور قرض کا بوجھ۔ اس لئےسادہ زندگی اپنائیں، سادہ شادیوں کو فروغ دیں اور اپنے معاشرے کو حقیقی خوشیوں سے بھرپور بنائیں۔
اگر ہم عزم و استقلال کے ساتھ اس معاملے میں متحد ہو جائیں، تو ایک خوشحال، پُرامن اور متوازن معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔ سادہ شادیاں نہ صرف انفرادی خوشی کا ذریعہ ہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے برکت اور سکون لاتی ہیں۔
رابطہ۔8082403001