گورے گاوں کے کاکا رام کی بیوی پھولاں دیوی مویشیوں کی بڑی شوقین تھی۔ایک بھینس،کالے رنگ کی دودھ دینے والی گائے اوراس کی بچھیا،سفید رنگ کی دو بھیڑیں،ہرنی جیسی ایک بکری اور کالے رنگ کا ایک کتّا،اتنے سارے جانور پہلے ہی گھر میں موجود تھے۔نہ جانے اس کے دل میں یہ شوق کہاں سے آن ٹپکا کہ ان مویشیوں کے ساتھ ساتھ ایک گدھا بھی ہونا چاہیے۔اس سے رہا نہ گیا ایک روزوہ اپنے گھر والے سے کہنے لگی
’’میں چاہتی ہوں ہمارے ان ڈھور ڈنگروں کے ساتھ ایک گدھا بھی کھیتوں میں چراکرے۔اس لیے چھوٹا سا گدھا خرید کے لے آیئے ہمارے کام آئے گا‘‘
کاکارام اپنے مکا ن کی منڈیر پہ بیٹھے حُقّہ پی رہے تھے۔بیوی کی فرمائش سنی تو حقّے کی نے ہاتھ میں پکڑے حیرت سے بیو ی کا چہرہ تکنے لگے۔پھر بولے
’’گدھا خرید کے لے آوں!بھلا کس لیے ؟یہ آج تم کیا کہہ رہی ہو ۔گدھا ہمارے کس کام کا؟اتنے سارے جانور گھر میں رکھے ہیں،جن کو پالنا مشکل ہو رہا ہے اور اب کہہ رہی ہو گدھا بھی خرید کے لاو۔ابھی تمہارے من سے پالتو جانورں کی لالسا نہیں گئی؟‘‘
’’میں اس لیے کہہ رہی ہوں کہ گدھا ، جنگل سے بالن اور گھاس پھوس ڈھونے کے کام آئے گا ۔میں بڑھا پے کی اور جارہی ہوں ،میں نہ تو گھاس کا ترنگڑ اٹھا پاتی ہوں اور نہ لکڑیوں کا گٹھا اور پھر ہمارا بڑا بیٹا بالک رام اس سال شہر میں پڑھنے جارہا ہے۔چھوٹا بیٹا بسنت راج اور بیٹی شلپا کتنا کام کریں گے‘‘
کاکا رام اپنی بیوی کی باتیں سن کر خاموش رہا ۔گدھا خریدنے کی فکر میں پڑگیا۔اُس نے بیوی کی فرمائش کو ہر ممکن ٹالنے کی کوشش کی لیکن ایک روز جب اُس کی بیوی پڑوس کی عورتوں کے ہمراہ جنگل سے گھاس کا ترنگڑ لے کے آئی تو بڑے غصّے زور سے گھاس کا ترنگڑ پیٹھ پر سے دور پھینک دیا۔ایک لمبی آہ کے ساتھ بپھری ہوئی سُستانے ایک طرف بیٹھ گئی پھر اس نے بڑے کرخت لہجے میں گھر والے کو کہا
’’میں کب سے کہہ رہی ہوں کہ چھوٹا سا گدھا خرید کے لاو تاکہ بوجھ ڈھونے کے کام آئے۔مگر تمہارے دل پہ کوئی اثر ہی نہیں ہوتا ہے۔میں ہی سولی پہ چڑھوں۔۔۔! ہم کو کوئی تکلیف نہ ہو‘‘
کاکارام ،بیوی کے سامنے بھیگی بلّی بنا خاموش ایک طرف کھڑا اس کے احتجاجی رویّے کو غور سے دیکھتا رہا۔آخر کاراپنی بیوی کی فرمائش سے تنگ آکر اُس نے اپنے چھوٹے بیٹے بسنت راج کو اپنے ہمراہ لیا اور گھر سے کافی دور گدھا منڈی میں گدھا خریدنے چلا گیا۔چاروں طرف گدھے ہی گدھے تھے۔ان کی نظرایک چھوٹے اور پھرتیلے گدھے پہ پڑی تو انھیں وہ پسند آگیا ۔گدھا فروش سے سودے بازی شروع ہوئی اس نے تیس ہزار روپے قیمت بتائی۔بڑی خوشامد اور منت سماجت کرنے کے بعد وہ پچیس ہزار روپے پہ راضی ہوا ۔سودا طے ہوگیا ۔گدھا فروش نے پچیس ہزار روپے وصول کیے ،گدھے کے گلے میں موٹی سی رسّی ڈالی اور گدھا کاکارام کے حوالے کیا۔جونہی گدھا دوسرے گدھوں سے الگ ہونے لگا تو اس نے زور سے ڈھیچوں ڈھینچوں کی آواز میں اپنے ساتھیوں سے جدا ہونے کادکھ ظاہر کیا۔بسنت راج نے گدھے کی اس حرکت کو دیکھ کے باپ سے پوچھا
’’پتا جی!۔۔۔یہ گدھا اچانک کیوں ہنہناتا ہواچیخ اٹھا ۔اس کو کیا ہوگیا‘‘
’’بیٹا یہ نہیں چاہتا ہے کہ اپنے ساتھیوں سے جدا ہو‘‘
دونوں باپ، بیٹاگدھے کو اپنے گھر لے جارہے تھے۔چلتے چلتے جب وہ دور ایک بستی میں سے گزرنے لگے تو لوگوں نے ان پہ آوازے کسنے شروع کیے۔کسی نے کہا
’’دیکھو یہ باپ ِبیٹا کس قدر بے وقوف ہیں ۔ان کے پاس سواری ہے ،باری باری اس پہ سوار ہوکے آرام سے اپنے گھر پہنچ سکتے ہیں ،لیکن بے وقوفوں کے پاس عقل ہوتی تو ایسا نہ کرتے‘‘کسی نے کہا
’’مورکھ ہیں جانے دو‘‘
لوگوں کی یہ لعن طعن سنتے ہی بسنت راج نے باپ سے کہا
’’پتا جی!۔۔آپ گدھے پہ سوار ہوجائیں ۔میں رسّی پکڑ کر اسکے آگے آگے چلوں گا۔لوگ ہم پہ ناراض ہورہے ہیں ۔میں نہیں چاہتا کوئی ہم پہ ہنسے یا ہمیں بے وقوف کہے۔لہٰذا آپ گدھے پہ سوار ہوجائیں‘‘
کاکارام نے بیٹے کی بات مان لی اور فوراً ایک ہی جست میں گدھے پہ سوار ہوگیا۔چلتے چلتے دوسری بستی میں پہنچے تو چند لوگ جوان اور ادھیڑعمر کے ایک جگہ کھڑے آپس میں باتیں کررہے تھے ۔انھوں نے جونہی کاکارام کو گدھے پہ سوار اور بسنت راج کو ہاتھ میں رسّی تھامے گدھے کو لے جاتے دیکھا تو ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے
’’ارے ۔۔۔! اس بے رحم باپ کودیکھو! خود گدھے پہ سوار ہوا ہے اور بیٹے کو آگے آگے دوڑا رہا ہے۔لعنت بھیجو ایسے باپ پہ‘‘
لوگوں کی باتیں سنتے ہی کاکارام شرمسار ہوگیا۔لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہی یکدم گدھے سے نیچے اتر گیا۔اب اُس نے اپنے بیٹے بسنت راج کو کہا
’’بیٹا ! تم گدھے پہ سوار ہوجاو۔میں رسّی پکڑتا ہوں ‘‘
’’نہیں پتا جی!آپ کے ہوتے ہوئے میرا گدھے پہ سوار ہونا اور آپ کا پیدل چلنا مجھے اچھا نہیں لگے گا‘‘
باپ کے اصرار پہ بیٹا گدھے پہ سوار ہوگیا ۔چلتے چلتے ایک اور بستی سے گزر ہوا تو کچھ لوگوں نے انھیں دیکھ لیا اور ان میں سے ایک نے بسنت راج سے پوچھا
’’ارے تجھے شرم نہیں آتی خود گدھے پہ سوار ہے اور باپ کو پیدل چلا رہا ہے ۔کچھ شرم اور غیرت تو پیدا کرو‘‘
لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہونے کے فوراً بعد بسنت راج گدھے سے نیچے اتر گیا ۔غم وغصے سے اس کا چہرہ لال ہوگیا ۔راہ چلتے چلتے گدھا کافی تھک گیا تھا ۔وہ اچانک نیچے بیٹھ گیا ۔اب وہ اپنے گھر کے قریب پہنچنے والے تھے۔بڑی مشکل سے انھوں نے گدھے کوکھڑا کیا ۔ لیکن وہ آگے چلنے کے لیے تیار نہیں ہورہا تھا۔دونوں باپ ،بیٹا پریشان ہورہے تھے کہ آخر کیا کیا جائے!کاکارام نے بیٹے کو صلاح دی
’’بسنت۔۔۔بیٹا!تم گدھے کی پچھلی دوٹانگیں سنبھالو اور میں اس کی اگلی دو ٹانگیں سنبھالتا ہوں اور یوں گدھے کو گھر پہنچائیں گئے‘‘
بیٹا ،باپ کی باتوں پہ خوش ہوگیا ۔دونوں نے گدھے کو کندھوں پہ اٹھایا اور گھر کی طرف چل پڑے!
۔۔۔۔۔۔۔
اسسٹینٹ پروفیسرشعبہ اردو
بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
موبائل نمبر؛9419058625