گلفام بارجی
وادی کشمیر میں ادبی میدان روزبروز وسیع تر ہوتا جارہا ہے، آئے روز کسی نہ کسی قلم کار،ادیب، ڈرامہ نگار، تنقید نگار اور شاعر یا شاعرہ کی کسی تصنیف منظر عام پر آتی ہے جو اس بات کا ثبوت ہےکہ سر زمین وادی کشمیر آج بھی ادیبوں، قلم کاروں،اداکارو ں،شاعروں اور شاعرات سے زرخیز ہے جو یہاں کے ادبی منظر نامے کے لئے خوش آیندہ بات ہے۔ حالانکہ اس طرح کے اقدام سے اگر چہ ان ادیبوں، قلم کاروں، نقادوں، شاعروں اور شاعرات کا ادبی دنیا میں نام روشن ہوتا ہے دوسری طرف نو آموز قلم کاروں کو بھی ادب کی خدمت کرنے کا شوق دل میں جگہ بنالیتا ہے اور ان کی چاہت ادب کے تئیں اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔حالانکہ کئی نوآموز قلم کاروں نے کم عمر میں ہی اپنی کئی تصانیف منظر عام پر لائی ،جس کے لئے ادبی دنیا میں ان کو کافی پزیرائی حاصل ہوئی۔ وادی کے اندر کوٹ سمبل ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر محمد یوسف ڈار المعروف سلیم یوسف اپنی شاعری سے گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمیری ادب و زبان اور ثقافت کی خدمت کرتا آیا ہے اور ان کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ چونکہ سلیم یوسف اندر کلچرل فورم نامی ادبی انجمن کے سربراہ بھی ہیں اور اس ادبی انجمن میں تقریباً بیس سے زائد قلم کار اور شاعر ان کے ساتھ شانہ بشانہ کشمیری ادب و زبان کی خدمت کرتے ہیں۔ سلیم یوسف نے اپنی پہلی تصنیف ’’کر پھولہِ سحر‘‘جو کشمیری غزلوں، نظموں، نعتوں، نواحہ اور منقبت خوانی پر مشتمل ہے، منظر عام پر لائی۔ حالانکہ سلیم یوسف نے اس کتاب میں اس زمانے کی عکاسی کی جو ہم نے آنکھوں سے دیکھا،جو ہم نے خوابوں اور خیالوں میں بسایا، اس چیز کو سلیم یوسف نے اس کتاب میں تحریر کیا اور جو ہم نے بند دروازوں میں حفاظت سے رکھا ہے،اس کو سلیم یوسف نے اس کتاب کی زینت بنایا۔حالانکہ سلیم یوسف نے ابھی بھی شمار مواد اپنے پاس محفوظ کرکے رکھا ہے جس کو اگر ترتیب دیا جائے تو کئی ساری تصانیف کی شکل میں منظر عام پر آسکتی ہیں لیکن بقول سلیم یوسف اپنے اپنے اور موزوں وقت پر سب منظر عام پر آئے گا۔بقول پروفیسر محمد زمان آزردہ سلیم یوسف کو الله تعالیٰ نے کشمیری زبان کو بہترین الفاظوں میں سنوارنے کی صلاحیت عطا کی ہے ۔سلیم یوسف کے محاورے اور الفاظ مثالی ہوتے ہیں۔بقول فیاض تلگامی سچ تو یہ ہےکہ میرے پیارے
دوستوں میں ایک خاص قلم کار،شاعر،ادیب،ماہر تھیٹر اور اداکار سلیم یوسف اپنا پہلا شعری مجموعہ ’’کر پھولہ سحر‘‘اپنے مداحوں، دوست احبابوں،شاعروں اور ادب نوازوں کے ساتھ ساتھ اپنی زبان و ادب کو بطور تحفظ پیش کر رہا ہے، جس کے لئے مجھے ذاتی طور بے مسرت اور شادمانی ہوئی اور جس کے لئے میں سلیم یوسف کو دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔کسی بھی زبان کو زندہ رکھنے میں قلم کاروں،اداکاروں اور فنکاروں کا اہم رول ہوتا ہے اور سلیم یوسف بھی ان ہی قلم کاروں،اداکاروں اور فنکاروں میں ایک ہے، اس کے علاوہ سلیم یوسف ایک بہترین تنظیم ساز بھی ہے اور ان ہی کی سربراہی میں بہترین ادبی تنظیم اندر کلچر فورم ادبی کارناموں اور عملی کارناموں کی وجہ سے قابل داد اور قابل یاد ہیں جو دن رات کشمیری ادب و زبان کی بے لوث خدمات انجام دے رہی ہیں۔حالانکہ سلیم یوسف لاچاری کے اس دور میں بھی اکثر و بیشتر اپنی شاندار ادبی محفلیں منعقد کرتے رہے اور بزرگ شعراء کے ساتھ ساتھ نوآموز قلم کاروں کو پلیٹ فارم مہیا کرتے میں فخر محسوس کرتے ہیں، حالانکہ اس فورم نے مجھے بھی ان محفلوں میں شرکت کرنے کا موقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کئی بار میری عزت افزائی بھی کی۔ہمارے کشمیری ادب و زبان کو زندہ رکھنے اور آگے لیجانے کے لئے اس جیسی بہترین تنظیم اور تنظیم ساز کی اشد ضرورت ہے۔
حالانکہ پروفیسر شادرمضان اور ڈاکٹر واحد رضا نے بھی سلیم یوسف کی تازہ تصنیف’’کر پھولہ سحر‘‘ پر تبصرہ کیا ہے جو اس کتاب میں باضابطہ درج ہے۔اس تصنیف میں سلیم یوسف کی تحریر کردہ تقریباً ایک سو پندرہ سے زائد غزلیں، منقبت،نعتیں اور نظمیں درج ہیں۔سلیم یوسف کی یہ تازہ تصنیف ’’کر پھولہ سحر‘‘ واقعی کشمیری ادب و زبان کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ امید ہےکہ سلیم یوسف کی زیر قلم دیگر تصانیف بھی بہت جلد منظر عام پر آئیں گی جن کا ہمیں بے صبری سے انتظار ہے اور آنے والے وقت میں سلیم یوسف ادبی دنیا کے چمکتے ستاروں میں شمار کئے جائیں گے۔انشاءاللہ!