میں مولانا سلمان ندوی سے کبھی نہیں ملا اور نہ ہی ان کی کوئی کتاب پڑھی ۔ ہاں ان کے بارے میں گذشتہ کئی سالوں سے ندوہ کے دوستوں سے سنتا ضرور آ رہا ہوں۔ بسا اوقات میں نے ان کی جوشیلی تقریریں سوشل میڈیا پر سنتا رہا ہوں ۔ چنانچہ ان کے بارے میں میری رائے یہ بنی کہ وہ اسلام کو زندگی کے ہر شعبہ میں اپنانے کے پیروکار ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ مسلم معاشرہ اور مسلم ممالک کی پریشانیوں سے بھی کافی مایوس ہیں مگر حالیہ دنوںمیں بابری مسجد۔رام مندر تنازعہ سے متعلق جس طرح کاموقف انہوں نے اختیار کیا ہے اس سے مجھے بہت مایوسی ہوئی اور میں اپنے تاثرات قلم بند کئے بغیر نہ رہ سکا۔ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ جب بابری مسجد کا معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے ، تو کورٹ سے باہر صلح کرنے کی بات کر کے سلمان ندوی کس فریق کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ بابری مسجد زمین کی ادلا بدلی کرنے کا حق ان کو کس نے دے رکھا ہے؟ کیا انہوں نے اپنی پیش کش سامنے رکھنے سے پہلے کسی سے مشورہ کیا تھا؟ اگر یہ ساری بات وہ بطور ایک دانشور کر رہے تھے تو اس دانشوری پر بھی بہت سارے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں؟
جس طرح سے سلمان ندوی مسلمانوں کے نمائندہ نہیں مانے جا سکتے ، اسی طرح سے شری شری روی شنکر ہندوؤں کے نمائندہ نہیں ہیں۔ آپ سبھی جانتے ہیں کہ روی شنکر ایک مخصوص پارٹی کے حمایتی ہیں اور اسے برسر اقتدار لانے میں انہوں نے چار سال پہلے کافی محنت کی ہے۔ آپ سب کو یاد ہوگا کہ منموہن سنگھ کی قیادت والی گزشتہ حکومت کے خلاف بدعنوانی کا جو ماحول بنا تھا ، اس میں روی شنکر نے بھی اپنا اہم رو ل اد ا کیا اور کالا دھن کے خلاف آواز بلند کی مگر جب موجودہ سرکار نے کالادھن کے اپنے وعدے کو صرف ایک چناوی 'جملہ کہا ، تو روی شنکر نے کوئی مذمتی بیان نہیں جاری کیا ہے۔کیا وجہ ہے کہ ایک خاص حکومت کو اقتدار سے باہر کرنے کے لئے روی شنکر بابا سے سیاست دان بن جاتے ہیں اور جب ان کی پسندیدہ سرکار اقتدار پر قابض ہو جاتی ہے ، تو وہ پھر سے سنیاسی بن جاتے ہیں اور سیاست سے کنارہ کشی کر لیتے ہیں ؟
یہ سب میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ سلمان ندوی نے روی شنکر کی اتنی تعریف کی گویا کہ وہ روی شنکر سے مکالمہ نہیں بلکہ ان سے اپنی 'بھکتی ' کا اظہار کر رہے ہوں۔ روی شنکر نے کچھ سال پہلے دہلی کے جمنا کنارے ایک بڑا پروگرام منعقد کیا تھا ، جس کی وجہ سے ماحولیات کو کافی نقصان ہوا تھا اور ان پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا ، اورروی شنکر بڑے پیمانہ پر تنقید کا نشانہ بھی بنے تھے ۔ سلمان ندوی جب روی شنکر کی تعریف کے پُل باندھ رہے تھے ، تو ان کو کم از کم یہ نہیں بھولنا چاہئے تھا کہ اسلام میں بھی ضرورت سے زیادہ کسی کی تعریف کو صحیح نہیں مانا جاتا ہے۔میں نے روی شنکر سے جڑے بعض پہلوؤں کی طرف اس لئے اشارہ کیا کہ روی شنکر ایک خاص سیاسی جماعت اور نظریہ کی نمائندگی کرتے ہیں ، وہ پورے ہندو سماج کے نمائندے نہیں ہیں۔ کورٹ سے باہر بابری مسجد کے تنازعہ کو حل کرنے کے پیچھے ایک خاص سیاسی مقصد ہے۔ تعلیم ، روزگار ، صحت اور دیگر فلاحی کاموں میں موجودہ حکومت کی بڑی ناکامی کو ڈھکنے کے لئے رام مندر کا مسئلہ اٹھایا جا رہا ہے تاکہ مذہب کے نام پر بھاجپاووٹ لے سکے۔ رام مندر بنانے کا پلان تب ہی آسان ہو سکتا ہے ، جب بابری مسجد کی زمین مسلمان دوسرے فریق کو دے دیں۔ انہیں سارےمقاصد کو دھابن میں رکھ کر آج عدالت سے باہر صلح کی بات ہو رہی ہے اور سلمان ندوی جیسے عالم دین اس پوری بات کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں یا پھر کسی وجہ سے ان پر پردہ ڈال رہے ہیں۔
میرے کئی سارے مسلم احباب نے مجھ سے پوچھا کہ کورٹ سے باہر بابری مسجد کو سلجھا لینے میں دقت کیا ہے؟ کیا اس سے ملک میں ہندو۔مسلم اتحاد کو مضبوطی نہیں ملے گی؟ میں ا ن کے جذبے کی صداقت کو سلام کرتا ہوں اور ان ہی کی طرح میرابھی یہی خواب ہے کہ ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے اور ہم سب محبت، ہم آہنگی اور بھائی چارے کی فضا میں زندگی گزاریں مگر یہ سب خواب دیکھنے سے ہی صرف حاصل نہیں ہو جائےگا۔ اس کے لئے ضروری ہے حق کی بات کرنا اور صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا، مگر اس طرح کی حق گوئی نہ تو روی شنکر نے ہی کی اور نہ سلمان ندوی نے۔ سلمان ندوی اور روی شنکر کا جو ویڈیو وائرل ہوا ہے اس میں سلمان ندوی نے کہا کہ شدت پسندوں کے لیے اس سماج میں کوئی جگہ نہیں ہے اور وہ جنگل میں چلے جائیں۔ سلمان صاحب کو تاریخ اور سماجی علوم کا اور زیادہ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہےکیونکہ ہمارے سماج کے لوگوں نے اکثر ایسے غیر انسانی کام کیے ہیں جس کی کوئی تاریخ نام نہاد جنگلی لوگوں میں نہیں ہے۔ کیا کبھی جنگل میں رہنے والے لوگ نے سر عام کسی مقدس مقام کو شہید کیا ہے اور اس کے بعد ہزاروں لوگوں کو سیاسی مفاد کےلئے ہلاک کیا ہے؟ مگر ہمارے سیکولر ملک میں ایسا خوفناک واقعہ پیش آیا ہے۔ جو لوگ آج کورٹ سے باہر بابری مسجد کو سلجھا کر ہندو ۔ مسلم اتحاد کے خواہش مند ہیں وہ جب مسلمانوں کی فلاح اور بہبود پر مشتمل امور کی بات آتی ہے تو سب سے پیچھے کیوں چلے جاتے ہیں؟ سلمان ندوی جس طرح سے بابری مسجد کی زمین کو ’’ہم آہنگی‘‘ کےنام پردوسرے فریق کو دینے کی وکالت کر رہے ہیں، انہوں نے بات کی شروعات مسلمانوں کی بدحالی اور اس کے اسباب اور تدابیر سے کیوں نہیں کی؟ اگر سلمان ندوی مسلمانوں کو بھائی چارگی کے نام پر اپنی مقدس سر زمین کو دوسروں کو دینے کی بات کر سکتے ہیں تو کم از کم روی شنکر سے ان کی بھی رائے لینی چاہے تھی کہ وہ مسلمانوں کو انصاف دلانے کے لے کیا کریں گے؟ کیا وہ اس بات کی ضمانت دیں گے کہ حکومت اس کے بعد کسی بھی مذہبی مقامات کی مکمل تحفظ کی ذمہ داری لےگی؟ کیا بابری مسجد ۔رام مندر تنازعہ کی زد میں آنے والے سارے لوگوں کو انصاف ملےگا؟ کیا نفرت پھیلانے والے سارے لوگوں کو سزا ملےگی؟ کیا سرکار شدت پسند تنظیم اور اس سےوابستہ عناصر کو قانون شکنی کے جرم میں گرفتار کرےگی؟ کیا مسلمانوں کے فلاح اور بہبودی کے مسائل جیسے ریزرویشن کو بھی سرکار کورٹ میں چیلنج نہیں کرے گی اور مل بیٹھ کر اس کی راہ ہموار کرےگی؟
قارئین کو بھی بخوبی معلوم ہے کہ بابری مسجد مسئلہ کو کورٹ سے باہر حل کرنے کی بات اس لئے ہو رہی ہے کیوں کہ موجودہ حکومت اسے اگلے پارلیمانی انتخابات میں ایک بار میدان مارنا چاہتی ہے۔ مجبوری یہ ہے کہ عدالت میں بابری مسجد کے وجود کو نکارنا اتنا اسان نہیں ہے ۔ سلمان ندوی جیسے عالم اگر ان سارے پہلوؤں کو نظر انداز کر صر ف مسجد کی زمین دینے کی بات کرتے ہیں، تو وہ ایک خاص ایجنڈےکو جانے انجانے میں آگے بڑھا رہے ہیں، جو کہ نہایت ہی افسوس ناک ہے۔
نوٹ :مضمون نگارجے این یو میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں