حضرت محبوب العالم شیخ حمزہ مخدومؒ وطن کشمیر کے جلیل القدر، قوی الاستعداداور صاحبِ استقامت اولیائے کبار میں سے تھے جنہوںنے حضرت سید عبدالرحمٰن بلال عرف بلبل شاہؒ ، حضرت امیر کبیر میر سید علی الہمدانیؒ اور حضرت شیخ العالم شیخ نور الدین نورانیؒ کے بعد کشمیر کے اطراف و اکناف میں اسلام و شریعت مطہرہ کی تبلیغ و اشاعت کا بیڑا اُٹھایا۔ زریں حروف سے لکھی جانے والی ان کی دینی ، علمی ، تزکیاتی اور سیاسی خدمات سے وہ اہل کشمیر اور تاریخ کشمیر میں اپنے ایسے انمٹ نقوش چھوڑ گئے کہ بندگان ِ خدا میں مخدوم پاک کے لقب سے ملقب ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ؒ کوسیرتاً ومزاجاً اتنا بلند کیا تھا کہ جہاں بھی تشریف لے جاتے دینی تعلیم و تربیت کا اولین کام کبھی نہ بھولتے ۔ اُنہوںنے اپنی غیر معمولی مبلغانہ شان ا ور داعیانہ اندازسے عوام کو اسلامی عقائد ،اخلاقی اقدار، اتحاد ویکجہتی، سیاسی شعور، خدا پرستی اور خود اعتمادی سے مزئین کیا اور خطواتِ ابلیس سے بھی آگاہ کردیا۔ اُن کے اندر اللہ تعالیٰ نے وہبی طور روحانی خلافت کے تمام صفات سمیٹ دئے تھے جن کی وساطت سے آنجنابؒ نے اہل کشمیر کی کامیاب روحانی رہنمائی کی۔ حضرت مخدوم پاکؒ نے عوامی رہنمائی کے علاوہ اپنی پاک بازانہ تربیت سے اپنے پُراستعداد وباصلاحیت خلفاء ونائبین بھی تیار کئے جن کی گراں قدر خدمات سے کشمیر میں مشعل رُشد و ہدایت فروزاں رہی۔ انہوں نے علم دین اور حقیقی تصوف کے فیضان سے اہل کشمیر کو راسخ العقیدہ ہی نہ بنایا بلکہ عوام الناس کوامر بالمعروف و نہی عن المنکرکا سلیقہ بھی بخشا۔ ان تمام خلفاء نے اپنی اپنی سطح پر صحبت و قرابت روحانی کے حوالے سے اپنے مرشد کے ساتھ اپنے رشتہ ٔ قلب کی برکت سے اُن کے روحانی کمالات، علمی تبحر، سنت کی پیروی پر دوام، حقیقی تصوف اسلامی سے شناسائی ، اورقوی الاستعدادسیاسی بصیرت کو بھی اپنی سیرتوں میں جذب کیا ۔
جب تاریخِ کشمیر کی بالاستعیاب ورق گردانی کی جاتی ہے تو ہمیں ایسے بھی اولیاء کبار،علمائے کرام، دانشورانِ قوم، سیاسی رہنما ان زریںصفحات میں نظر آتے ہیں جن کی لازوال کارکردگی اور بیش قیمت خدمات کو بروقت قلم بند کرنے کے بجائے ان کا سارا سلسلہ سینہ بہ سینہ ہی چلتا رہا۔ اس بنا پر اُن کے متاخرین کو حقیقت حال جاننے میں دقتیں پیش آئیں جب کہ بعض حضرات کی زندگی پر ایک ہی سطر قلم بند کر نے پر اکتفا کیا گیا۔ اس طرح علمی و روحانی میراث کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی لیکن حضرت محبوب العالم شیخ حمزہ مخدومؒ کی پاک زندگی کے حالات، کمالات، تبلیغ، رشد و ہدایت، بالواسطہ و بلاواسطہ ّاآپ ؒ کے خلفاء نے بہت حد تک محفوظ کردیا۔ حضرت شیخ الاسلام علامہ بابا دائود خاکی کی منظوم’’ ورد المریدین درشانِ سلطان العارفینؒ‘‘ اس کی شرح دستور السالکین، حضرت میر حیدرؒ کی ہدایۃ المخلصین، حضرت شیخ احمد چاگلیؒ کی کتاب سلطانیہ، خواجہ حسن قاری کی راحۃ الطالبین، حضرت خواجہ اسحاق قاری کی چلچلۃ العارفین، حضرت خواجہ میر کی تذکرۃ المرشدین، حضرت بابا علی رینہ کی تذکرۃ العارفین، حضرت ملا بہاؤ الدین متو کی سلطانیہ وغیرہ اس کے لئے شہادتاً کافی ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ دو صدیوں میںدیگر کتابوں کے علاوہ حرز المحبیین فی تضمین وِرد المریدین از پیر عبدالقادر درویش اور بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں تحفۂ محبوبی از مولانا غلام محی الدین امرتسری، تاج العارفین عربی زبان میں ازحضرت امیر شریعت علامہ سید محمد قاسم شاہ بخاریؒ ملت ِاسلامیہ کشمیر کے لئے سرمایہ پُرا فتخار ہے ۔ اس کے علاوہ ضیغم کشمیری مرحوم کی دستور السالکین کی اردو شرح، مرحوم قاری سیف الدین کی’’ متاع النور ‘‘کے علاوہ وادی کے اور بھی مؤلفین و مصنفین نے حضرت محبوب العالمؒ کے حالات و کمالات پر اپنے قلم سے خراج عقیدت پیش کیا۔
حضرت شیخ الاسلام علامہ بابا دائود خاکیؒ محتاج تعارف نہیںہیں۔ خاندانِ گنائی (یا غنائی ) سے تعلق رکھتے تھے۔ روایت ہے کہ ان کا خاندان حضرت امیر المومنین خلیفہ دوم حضرت فاروق اعظمؓ کے فرزند حضرت عاصمؓ کے پشت مبارک سے ہے۔ گنائی اُن حضرات کو کہا جاتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے قلمی روانی عطا فرمائی ہو۔ حضرت ایشان شیخ یعقوب صرفیؒ بھی گنائی تھے اور آنجنابؒ کے خالہ زاد بھائی تھے۔ اُوچپ گنائی، بابا نونی گنائی، بابا شنگرف گنائی شاگردِ ابن حجرِ مکیؒ وغیرہ کشمیر کے جلیل القدر علماء گذرے ہیں جنہوں نے تحصیل علم کے لیے عرب و عجم کا سفر کیا ہے۔ قرآن و حدیث فقہ اور خاندان علمی شہرت و صلاحیت کی بنیاد پر چک حکمرانوں نے حضرت علامہ خاکی کو قاضی القضاء بنایا تھا۔ علوم متد اولہ اور علوم شرقیہ پر مکمل دسترس تھی لیکن جہاں ان عقلی علوم کی انتہا ہوتی ہے ،وہاں سے اُن نقلی علوم کی ابتداء ہوتی ہے جو پروردگارِ عالمین اُن بندگانِ خدا کو عطا فرماتا ہے جنہیں علوم ِنافع سیکھنے ، سننے اور سمجھنے کی لاثانی استعدادحاصل ہوتی ہے۔
جب حضرت مخدوم پاکؒ کے ساتھ حضرت علامہ خاکیؒ کی ملاقات ہوئی تو چند ہی استفہماتِ روحانی میں ہی علامہ خاکی لاجواب ہوئے اور ایک بہت ہی عالشان منصب دار ہونے کے باوجود اُن کو آں جناب ؒ کے سامنے اپنی علمی وروحانی کم مائیگی کا احساس ہوا۔ اُسی وقت فوراً اپنے عہدے سے سبکدوش ہوکر اس مرشد حق بین ومدر خود آگاہ سے روحانی تعلیم کے زاویۂ علم وعرفان سے وابستہ ہوئے۔
حضرت علامہ خاکیؒ نے بے شمار کتابیں تصنیف فرمائی ہیں لیکن ان میں سے تین منظوم معرکۃ الآراء قصیدے’’ قصیدہ جلالیہ، درشانِ مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید جلال الدین بخاری، قصیدہ لامیہ در شانِ حضرت بابا ہردی ریشیؒ اور قصیدہ ورد المریدین‘‘ اپنے مرشد حقانیؒ کی شان میں تصنیف کی ہے، ساتھ ہی ورد المریدین کی شرح دستور السالکین لکھی یعنی ورد المریدین میں جو کچھ مجمل تھا اُن تمام رموزاتِ روحانیہ کو شرح وبسط کے ساتھ پیش کرکے اہل کشمیر اور اہل سلوک پر ایک بہت بڑی مہربانی فرمائی۔ اس میں حضرت مخدوم پاکؒ کی حیات طیبہ کے واقعات و حالات، آپؒ کے ارشادات، عزم و ثبات، استقامت کے علاوہ آپ کا بہ حیثیت شریعت کے علمبردار، طریقت کے شہسوار، اوامر و نواہی، مجاہدات، شعور ِسیاست، خلافتِ تکوینیہ، قرآن حدیث میں درک، قرأت و فقہ پر عبور، تصوف کے اصول واوامر، آداب مریدین پر مکمل بحث کی گئی ہے ۔ جب دستور السالکین کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو قارئین کو اس میں سینکڑوں کتب تفسیر و احادیث و دیگر تصوف و سیرت کتابوں کا حوالہ نظر آئے گا جو آج بھی معروف کتب خانوں میں معدوم نظر آتی ہیں۔
بدقسمتی سے سینکڑوں سال سے سر زمین کشمیر کو سیاسی و مسلکی اَتھل پتھل کی وجہ سے نایاب کتب خانوں کی آتش زدگی اور لوٹ مار کی وجہ سے اپنے علمی میراث سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس کے باوجود شکر ہے دستور السالکین آج بھی من وعن موجود ہے ۔ اس پر ایک طائرانہ نظر سے حضرت خاکیؒ کی علمی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس منظوم کلام میں ۱۳۶۲؍ اشعارہیں اور اس ک مادۂ تاریخ تحریر فیض ناک ۹۶۱ء ہے۔ گویا حضرت محبوب العالمؒ اس کی تخلیق و ترتیب کے بعد ۲۳ سال بقید حیات بساطِ ارض پر تھے بلکہ قصیدہ شریف و شرح دستور السالکین خود محبوب العالمؒ کے مطالعہ کے بعد علامہ خاکی نے منظر عام پر لائی۔ آں جناب ؒ کی منظوری سے قبل کم از کم حضرت محبوب العالم کے پاس اس کا مواد چھ مہینے تک تھا۔ حضرت علامہ خاکیؒ مرشد کے ساتھ قریبی روحانی تعلقات کے بعد جو کچھ محسوسات کے دائرے میں آیا، فہم و ادراک اور مشاہدے کی گرفت میں آیا ، اُ سے اپنے دل کے صحیفے میں قید کرکے سپردِ قرطاس کر نے کی صورت میں رہائی دلائی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس قصیدہ ورد المریدین کو اتنی شہرت عطا کی کہ کشمیر کے ہر لاعلم کے زبان پر بھی کم از کم اس قصیدہ شریف کے ایک دو اشعار آج بھی اَزبر ہیں۔
شکر للہ حال من ہر لحظہ نیکو ترشدہ است
شیخ شیخاں شیخ حمزہؒ تامرا رہبر شدہ است
حضرت علامہ خاکیؒ دولتِ علم، دولت دنیا اور جاہ وحشمت والامنصب حاصل ہونے کے باوجود مرشد سے ایک ملاقات کے بعد اپنی زندگی ادھوری سمجھ گئے۔ اس وجہ سے مرشدحق کی صحبت پاکر خدا کے کاشانۂ قدرت کے سامنے اس نعمت کا شکر ادا فرماتے ہیں۔ حضرت سرورِ دوعالمﷺ نے فرمایا وہ شخص خدا کا شکر ہرگز بجا نہیں لاسکتا جس کو پہلے اپنے محسن کاشکریہ ادا کرنے کی توفیق نصیب نہ ہو۔ اس سے بڑھ کر حضرت علامہ خاکی پر کیا احسان ہوسکتا تھا کہ تمام علوم جو ضائع ہونے والے تھے، اس مرشد کے صحبت اورروحانی فیض سے قائم و دائم رہے اور آج بھی امتدادِ زمانہ کے باوجود وہ اسی معرفت سے جانے ا ور پہچانے جاتے ہیں ۔ علامہ خاکیؒ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ ہمیشہ مرشد کی صحبت میں برائے اکتساب عمل و خدمت حاضر رہتے۔ جب مرشد کامل حیاتِ مستعار کے بندھن سے رخصت ہوئے تو فوراً آپ نے کشمیر کے اطراف و اکناف میں ان فیوضات کی تبلیغ و اشاعت کے لیے رخت سفر باندھ لیا اور دس سال تک واپس گھر آنے کا نام بھی نہ لیا۔ زیارت گاہ پر بیٹھنے کے بجائے صاحبِ زیارت کے پیغام کو عام کرنے کی کوئی کسر باقی نہ رکھی یعنی جس ذمہ داری کے لیے حضرت مخدومؒ نے علامہ خاکیؒ کو تیار کیا تھا اُس ذمہ داری کو نبھانے میں حضرت خاکیؒ نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ کامیاب اور مستعد خلیفہ کے اوصاف سے خلیفہ اول کا مرتبہ نصیب ہوا۔
وادی کے معروف عالم دین مرحوم قاری سیف الدین نے ’’دستور السالکین ‘‘کی تلخیص کرکے اسے کمال ِ فن سے اردو جامہ پہنایا۔اس میں علامہ خاکیؒ کے اپنے مرشد حقانی ؒکے مدح میں منظوم ورد المریدین کی شرح دستور السالکین میں سے ڈیڑھ سو ایسے ابواب چن لئے جن مین شیخ وقت کی اہمیت، ایمان و ارادت کی شرطیں، شیخ بحیثیت خلیفہ ٔرسولؐ، جہاد بالنفس، ہجرت کی حقیقت، پیر و مرشد کے فرائض، تقویٰ، استقامت، قربِ رب، علم لدنی، تلاوت کی افادیت اور طریقہ تلاوت، شریعت طریقت حقیقت، اقامتِ دین، ضرورتِ مجدد، مطلق اجتہاد، یقین کے درجے، فضیلت تہجد، مرداں خدا کی فضیلت، رہنمائے ملت کے خصائل، طالبانِ حق، مراحلِ روحانیہ، توجہ، حاضر دماغی، انتشار سے اجتناب، حواس خمسہ، مومن کامل کی نشانی، بیعت، صحبت حق، علم نافع، یاد خدا کی اہمیت، مرد بالغ، سنت کی پیروی، اقسام مرید، طریقہ بیعت، تقلید، توبہ کا پھل، بزرگانِ دین اور اُن کی خوفِ آخرت، حقیقی تصوف، زیارت قبور، علاماتِ محبت، حبل اللہ، اتباعِ سنت، روحانی رشتہ، اخلاقی عروج، نصائح، مومن کے خلاف کدورت، موت، موت و زندگی کا راز، تکبر کو تکبر سے جواب، ارشادات حضرت شیخ کبریٰ، ارشادات حضرت شاہ ہمدانؒ، ولی کی محبت، کشف و کرامات، اکتساب حلال مال و مالِ مصرف، کن کی دعوت قبول کرنی چاہیے، حکمرانوں کی عبث تعریف اور اُن کے در پر غلامانہ حاضری دے کر اپنے وقار و علم کو ضائع کرنا، خلفاء راشدینؓ، محبت اہل بیتؓ، اصحاب رسولؐ، روزوں کی حقیقت، سبع اطوار، فقر، تعمیر مساجد، تعویز نویسی سے پرہیز، آداب فقراء، دورِ فتن، نماز باجماعت، مرد حق بین کی دامن گیری، اہمیت شوق، پیران مکر وفریب، اعتکاف، مومن کی شگفتہ مزاجی، توکل، پیرانِ ریاکار، استغفار مومن، زہد، اطاعت شیخ، انسان نما حیوانوں سے لاتعلقی، دنیا پرست علماء سوء، مومن ہر ایک کا دوست، خدمت خلق، معیار اخلاق میں نظر کی پاکی، اپنے عمر کے برابر عورت کو بس اپنے سے بڑھ کر ماں اور اپنے سے کم عمر کو بیٹی سمجھنا، توازن اخلاق کی کسوٹی وغیرہ موضوعات کے تحت اپنے مرشد حقانی ؒکی مدح خوانی کی ہے اور ان تمام اوصاف کو اپنے مرشد کے اندر پایا۔
آپ خود اندازہ فرمائے جس ولی کامل کے اندر اتنے اوصاف بیک وقت موجود ہوں، اُس کی رہنمائی کا عالم کیا ہوگا؟؟؟ یہی وجہ ہے آج تک ساڑھے چار سو سال گزر گئے اہل کشمیر کے دلوں میں آنجنابؒ کی محبت، عظمت منقش ہے اور ہمیشہ یہ قوم حضرت مخدومؒ کے گراں قدر نوازشات کو یاد کرتی رہے گی۔ آج بھی اگر یہ قوم ان ہی خطوطِ مستقیم پر کام کرے گی بالخصوص رہنمایانِ ملت وسعت قلبی سے ان اصولوں پر گامزن ہوگی تو ضرور منزل مقصود پائے گی لیکن افسوس ہم بحث و مباحثہ، جائز وناجائز، شرک و بدعت کی اپنی اپنی من پسند لیبل ساز ی میں بہک چکے ہیں، جب کہ مرشد حقانی ؒ کے منازل سلوک کو سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے قرآن وسنت کا علم اور یقین کی آنکھیں ہونی چاہیے۔ حضرت محبوب العالمؒ کی مدح خوانی میں حضرت علامہ خاکیؒ فرماتے ہیں کہ میرے مرشد پر کبھی دنیا سوار نہ ہوئی بلکہ وہ حاملِ قرآن و سنت تھے لیکن قرآن و سنت کی پیروی نہ کرنے کی وجہ سے ہم پر طاغوت سوار ہوگیا ۔
حضرت مخدوم پاک ؒنے خود بہ نفس نفیس اور اپنے خلفاء کو تعویذ نویسی سے باز رکھا کیونکہ پُراستعداد شخصیت جن کے اندر تبلیغ تحریر و رشد و ہدایت کے اوصاف موجود ہوں، تعویذ نویسی کے پیشے سے دینی خدمت کا جذبہ رُک جاتا ہے۔ شاید اسی لیے آنجنابؒ نے اس سے پرہیز کرنے کی تلقین کی ۔ ان خدمات سے اسلام کا شجرِ طوبیٰ سرسبز رہا، عقیدئہ اسلام کا توازن برقرار رہا، باتیں کم کام زیادہ، وعظ و تبلیغ و اختصار اعمال پر دوام، عام مجادلہ سے پرہیز، ایمان یقین پر استحکام کی تحریک سے اتحاد، بھائی چارہ، مذہبی رواداری، اسلاف کے خدمات کی آبیاری کا ہر طرف بول بالا ہوتارہا ۔ آپ ؒ نے سیاسی رسہ کشی و انتشار کی سرکوبی بھی اپنے فراست علم و نور و بصیرت سیاسی سے سرانجام دیا ؎
او شریعت راست ناصر در طریقت مجتہد
بہر اسرارِ حقیقت صدر او مصدر شد است
وطن کی محبت میں علامہ خاکیؒ حضرت مخدوم پاکؒ کے مدح میں فرماتے ہیں ؎
کشورِ کشمیر او را مولد و مسکن شدہ
مولدِ ایں مخلص او ہم ہمیں کشور شد است
آپ کو معلوم ہے کہ مسلمان ہوتے ہوئے اپنے وطن کوئی لاتعلقی نہیں ہوسکتی کیونکہ حضور اقدسﷺ کا فرمان ہے: حب الوطنی ایمان کا حصہ ہے ۔ حضرت علامہ خاکیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت محبوب العالمؒ کے اُن اکابرین کا حال بیان فرماتے جن سے حضرت مخدومؒ نے فیض حاصل کیا۔حضرت علامہ خاکیؒ نے حضرت محبوب العالمؒ کے خلفاء کرام کا خاکہ بھی کھینچا ہے اور انہیں بہ مناسبت و صحبت کے لحاظ سے بہترین لڑی میں پر ویا ہے۔ بالخصوص میر بابا حیدر، شیخ احمد چوگلی، خواجہ اسحاق، خواجہ عثمان کول، صوفی اللہ داد، ملک ریگو ڈار، صوفی علی، حضرت روپ ریشی، مولانا حسین، شیخ سلطانپور، مولوی فیروز، بہرام رینہ، سید شمس میر، بابا علی رینہ، خواجہ زیتی شاہ، حاجی اکبر، میاں نعمت اللہ، شیخ حسن تنبلو بالخصوص حضرت بابا ہرد ریشیؒ کے اوصاف جمیلہ و کمالاتِ روحانیہ کو قلمبند کیا۔ اگرچہ حضرت محبوب العالمؒ کے ان سے کئی زیادہ کشمیر کے اطراف و اکناف میں خلفاء موجود تھے تاہم حضرت علامہ خاکی نے ’’ورد المریدین‘‘ میں اختصار سے کام لیا ہے۔ حضرت علامہؒ اپنے مرشد کے مدح و تذکرے میں فرماتے ہیں کہ سربراہ مملکت ہو یا روحانی سلطنت کا بادشاہ جب تک نہ اُس کے اندر مثبت خصائل موجود نہ ہوں اُس کو اس منصب پر رہنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ وہ ان پسندیدہ اخلاق ِ حمیدہ کا مر کب ہو : بہادر، بردبار، دانشمند، عاقل، بالغ، بادشاہ شنوا، بادشاہ بینا، بادشاہ گویا، ہمت افزائی، بے خوف، ہر شخص کی بات سننے کی استعداد رکھتاہو بلکہ خوف زدہ کو بولنے کی جرأت بخشنے کا ملکہ اس میں موجود ہو ۔اس ہمہ گیر اور ہمہ پہلو شخصیت کے کتنے درخشندہ گوشوں پر مفصل انداز میں قلم اٹھاؤں ،ا س کے لئے ایک مکمل دفتر جمع ہوگا ، پھر بھی موضوع تشنہ طلب رہے گا۔ان تمام گوشوں کا احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں مختصراً عرض کرنا چاہو ں گا کہ ع
حق تو یہ ہے کہ حق اداد نہ ہوا
رابطہ :صدر انجمن حمایت الاسلام جموں و کشمیر
�����