Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

سلسلہ وارٹی وی ڈرامے!

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 4, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
16 Min Read
SHARE
اس حقیقت کے باوجود کہ ٹی وی چینلوں پر پیش کئے جانے والے سلسلہ وار سیریلز جو برصغیر ہی میں نہیں بلکہ دوسرے ممالک تک مقبول عام ہوچکے ہیں ، پر ہر مہذب اور باحیا انسان کو ان کے اندر موجود مواد اور پرزینٹیشن پر سخت اعتراض ہونا چاہیے مگر افسوس صد افسوس کہ یہ جاننے کے باوجود کہ ان ناٹکوں سے ہمارا اخلاقی بگاڑ ہمالیائی حدوں کو بلا روک ٹوک چھو تا جا رہاہے ، ہم ہیں کہ ان کے خلاف نہ جانے کیوں خاموشی اختیارکرکے اپنی نئی نسل کو تباہی اور بربادی کے دہانے پر کھڑا کر نے پر تلے ہوئے دِ کھ رہے ہیں۔ اس میں دورائے نہیں کہ آج کل ہمارے معاشرے میں بے حیائی ،بے راہ روی اور بد امنی پھیلانے میں ان ڈراموں اور سیر یلوںکا بہت اہم رول دکھائی دے رہا ہے ۔ان بے ہودہ طرز کے سیریلز کی شروعات پرایئوٹ ٹی وی چینل ــــ ۔۔۔سٹار پلس ۔۔۔ نے کی۔ بعد ازاں عوام میں اور خاص کر خواتین میں مقبول عام ہونے کے بعد اسی انداز کے سیریلز کو کئی دوسرے ٹی وی چینلوں نے بھی اپنالیا۔ یہ چنلیں خواتین اداکاروں کو زیادہ سے زیادہ استعمال کر کے ہمیں کہیں کا نہ رکھنے پر ادھار کھائی بیٹھی ہیں ۔اکثر اداکارائیں زیادہ سے زیادہ شہرت پانے ، جاذبِ نظر بننے اور بہت ساری کمائی کر نے کیلئے عر یانیت کے نت نئے طورطریقے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہمارے معاشرے میں بے ہودہ پن کوعام کر رہی ہیں اور یہ ایسے ایسے تنگ وچست،باریک اور بھڑکیلے ملبوسات اور زیورات کے ساتھ اسکرین پر نمودار ہورہی ہیں کہ ہمارے معاشرے کی بہو بیٹیاں جوکہ ایک حیادار اور مہذب معاشرے سے تعلق رکھتی ہیں، ان کو نہ صرف پسند کرتی ہیں بلکہ ان سیریلز میں کام کرنے والی اداکاروں کی طرح اپنے کو ڈھالنے کا چلن اور رواج عام سا ہوگیا ہے۔آج کل ایک مہذب وبا حیادار باپ ،بھائی،اور بیٹاجب یونیورسٹی ،کالج ،بازار، دفتر وغیرہ کا رُخ کرتا ہے تو اس کی آنکھیں اپنی ماں ،بہن ،بیٹی کی ظاہری حالت دیکھ کر شرم سے جھک جاتی ہے اور اس کی زبان پرصرف افسوس کے یہ کلمات ہوتے ہیں     ؎
    یتھء  سأنس معاشرس کیاہ گوء  
لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ ڈرامے سیریلز کسی طرح بھی ہماری تہذیب و تمدن اور ثقافت کیلئے موزون نہیں ہیں۔ ان ڈراموں کو دیکھنے سے نوجوان نسل بے حیائی کے راستے پر چل رہی ہے اور معاشرے میں ایسی کئی نئی اخلاق سوز حرکتیں وجود پا گئی ہیںجن کا پہلے تصور بھی نہیں تھا ۔ اس ضمن میںبہت سارے قابل ِاعتراض نکات میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
بار بار ناجائز جنسی تعلقات کا ذکر:
ہر ڈرامے میں ایک یا ایک سے زائد مرتبہ کسی مرد یا عورت پر ناجائز جنسی تعلقات کا ذکر یا قصہ چھیڑا جاتا ہے۔ اکثر یوں ہوتا ہے کہ ایک مرد جو ڈرامے کے شروع سے لے کر اختتام تک شریف النفس ظاہر کیا جاتا ہے، پھر اچانک کوئی عورت آکر ماضی میں اس کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنے کا الزام لگا دیتی ہے۔ بعد میں وہ الزام سچ ثابت ہوجاتاہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین جب اپنا کام کاج چھوڑ کر ایسے ڈرامے دیکھ رہی ہوتی ہیں تو ان کے چھوٹے بچے بھی ان کے ساتھ یہ حیاسوز ڈرامے دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ بار بار ناجائز تعلقات کا ذکر سن کر ان ناپختہ ذہنوں پر برا اثر پڑنالازم سی بات ہے مگر بچے چونکہ اپنے والدین کو ہی سمجھ بوجھ والا سمجھتے ہیںکہ ٹی وی پر جو کچھ ہورہا ہے وہی معاشرے کی حقیقت ہے اور جس طرح یہ عورت ناجائز تعلقات رکھتی ہے، اسی طرح ان کے ماں باپ بھی یہ کام کر سکتے ہیں اور یہ کوئی بہت زیادہ معیوب بات نہیں ہے ۔
    غیر موزوں بیک گراونڈ موسیقی :
ٹی وی ڈراموں میں ایک تو ہیجان انگیز غیر ضروری موسیقی پس منظر میں بجائی جاتی ہے،پھرہر بدلتی صورت حال اور منظر کے لئے موسیقی کا بجنا ضروری ہوجاتا ہے ۔ یہ موسیقی ہندؤں کی عبادت گاہوں میں بجنے والی گھنٹیوں ،مذہبی رسومات میں بجائے جانے مالے شنکھ اور مختلف موقعوں پر پڑھے جانے والے منتروں کے پاٹھ پر اکثر مشتمل ہوتی ہے۔ یوں نہ چاہتے ہوئے بھی مندر کی گھنٹی ہمارے گھر گونجتی ہے۔ منتروں کے پاٹھ اور بھجن چلتے ہیں ۔اگر اس چیز کو آپ اس انداز میں سوچیں کہ کسی ہندوکے گھر میں اذان کی آواز گونجنے لگے یا قرآن پاک کی تلاوت سنائی دینے لگے تو اس کا طرز عمل کیا ہوگا ؟ یہ تہذیبی جارحیت کا ایک نرالا انداز ہے جس سے ہمارے اذہان ماؤف ہونا طے ہے۔ موسیقی تو ویسے بھی اسلام میں ممنوعہ وناپسندیدہ ہے ،تو اگر ہم آپ خود کو موسیقی سننے سے باز نہیں رکھ سکتے لیکن کم از کم ہندؤں کی مذہبی موسیقی سے اپنے گھروں اور اپنی اولاد کے کانوں کو محفوظ تورکھیں کیونکہ اس کا اثر ان کی نرم ونازک شخصتیوں اور لاشعور پر لازماً جانے انجانے
 پڑجاتا ہے۔
  ہندوانہ رسومات :
ان ٹی وی ڈراموں میں مکمل طور ہندؤں کے مذہبی رسومات اور ثقافتوں کو دکھایا جاتا ہے ،شادی کے سات پھیروں سے لے کر  منڈپ میںلکڑیوں کو جلانے تک اور نمستے اور جے شری کرشنا اور رام رام کاوِرد کرنے سے لے کر ماں باپ کے پیر چھونے تک ان ڈراموں کے تقریباً ہر منظر میں ہندوئیت میں مالا جپ لی جاتی ہے تو ان کا مسلم گھرانوں کا کیا لینا دینا؟ یہ ایک متضاد چیز ہے کہ آپ اہل اسلام میں سے ہوں اور آپ پاؤں پسارے اس کلچر کو غیر شعوری طور دیکھتے ہوئے قبول کریں جس کا اسلامی عقائد اور افکار سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ڈر یہ ہے کہ اگر ہماری نئی نسل یہ ساری کارستانی شب وروز دیکھتی رہی تو وہ دن دور نہیں کہ جب ہمارے بچے ہم سے سوال کرنے لگ جائیں کہ بابا نمستے کہنے میں کیا مضائقہ ہے ؟ ماتھے پر تلک لگانے سے اور مانگ میں سندور ڈالنے سے کون سے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں ؟ جب کوئی مرجاتا ہے تو ہم اسے جلاتے کیوں نہیں ؟ بلکہ وہ اسلامی انداز تکلم کو ترک کر کے امی جان مجھے دعا دیجئے اور امی جان مجھے آشرواد دیجئے کہنے میں بھی کوئی فرق محسوس نہ کریں گے ۔ وہ دوستوں سے راکھی تک بندھوا سکتے ہیں ، یا بلا تکلف کے یہ کہہ سکتے ہیں بھیا اگلے جنم میں میں آپ کا بڑا بھائی ہوں گا وغیرہ وغیرہ۔ا س طرح تہذیبی جارحیت اور شدھی کی تحریک کا تقویت پانا ایک قدرتی امر ہے ۔ 
لا ش کو دفنانے پر تنقید :
اکثر ہندی ڈراموں اور فلموں میں ناظرین کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ کسی انسان کے مرجانے کے بعد اگر لاش کو جلایا نہ جائے تو روح جسم سے الگ نہیں ہوتی اور اپنی مقررکردہ جگہ پر واپس نہیں جاتی بلکہ دفنانے کی صورت میں لاش کے اردگرد ہی منڈلا تی رہتی ہے۔ ایسے حالات میں فلم یا ڈرامہ کی کہانی میں لاش کو دفنانے کی جگہ سے نکال کر جلایا جاتا ہے۔ایسا کر کے دراصل اسلام پر وار کرکے لاش دفنانے کے عمل کو غلط قرار دیا جاتا ہے جوکہ اسلامی شعائر اور اصولوں پر واضح اور علی الاعلان توہین قرار پاتی ہے ۔آخر کب تک آپ ایسے ڈرامے اور سیریلز کو اپنے گھروں اور معاشرے میں ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے رہیں جن میں ہمارے مذہبی طریقۂ کار کو اعلانیہ غلط اورفرسودہ قرار دیا جاتا ہے۔ 
    خواتین کی غلط تربیت سے گھریلو نظام کی تباہی :
اگر ہم مذہب کو پس پشت ڈال دیںاور ڈرامے کو انٹرٹینمنٹ کی ایک قسم سمجھ لیں تب بھی ان ڈراموں میں اکثر اوقات عورت کو مردوں سے برتر دکھایا جاتا ہے۔ عورت گھر کا مکمل انتظام سنبھالے ہوئے ہے ،کاروبار کی منتظم بھی وہی ہے، بڑے بڑے فیصلے بھی وہی کرتی ہے جب کہ گھر کے مرد اور بزرگ کرداروں کو خاموش رکھا جاتا ہے ۔یوں تو ایک طرف عورت کو گھر سے باہر کھلے عام آوارہ گھومنے پھرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، دوسری جانب اُسے مرد سے زیادہ حقوق اور اختیار رکھنے کی تعلیم بلکہ ترغیب بھی دی جارہی ہے۔ اس سے مرداور عورت کے رشتوں کے درمیان فطری اعتدال اور میزان کو تہس نہس کیا جاتاہے۔عورت مرد کیلئے ایک شریک حیات ہے اور ایک گھرکی گاڑی چلانے کیلئے عورت کا مرد کو مکمل تعاون بہت ضروری ہے ۔تبھی تمام امورِ زندگی میں گاڑی کے دوپہیوں کی طرح اپنا پارٹ انجام  دے کر منزل مراد پائی جاسکتی ہے، اسلام کہتا ہے کہ مرد بازار کا شہوار ہے ا ور عورت گھر کی چار دیواری میں بچوںکی شخصیت ساز، منتظم ومربی اور مالکن ہونی چا ہیے۔ جب کہ مرد گھر کے باہری امورکا  مالک ومختار ہو۔ اس کے برعکس اگر عورت گھر کے باہری معاملات میں بڑے بڑے فیصلے صادر کرنے لگی تو خاندانی نظام کا توازن بگڑ جانے کا خدشہ ہی نہیں ہے بلکہ سماجی بگاڑ کا سیلاب آنا لازم وملزوم ہے۔ اس لئے یہ فتنہ انداز ڈرامے سیریلز ہمارے گھر ،معاشرہ، بچوں ،بچیوں اور خاص کر نئی نسل کے لئے سم قاتل سے کم نہیں ۔
    ناقابل قبول لباس اور اڈلٹری کا فروغ:
انڈین ڈراموں میں روایتی خواتین کا زیادہ تر استعمال ہونے والا لباس ساڑھی ہوتا ہے جس میں ظاہر ہے کہ خواتین کا مکمل جسم ڈھکا نہیں رہ سکتا۔ مزید برآں جب خواتین ایسا لباس پہن کر کسی کردار میں نمودار ہوتی ہیں تو ڈرامہ کے دیگر مرد کردار کزن ،دیور اور کلاس فیلو  ان کے ساتھ چھیڑخوانی کر بیٹھتے ہیں۔ ان کے حسن اورخوبصورتی کی تعریف کرتے ہیں اور سفلی جذبات کو اشتہا دیتے ہیں ۔ اسی طرح ان سیریلوں میں ایک عورت کے دیور اور کئی دوسرے مردوںسے ناروا تعلقات کو بھی بڑے دھڑلے سے دکھایا جاتا ہے۔اس کے ناکارہ اثرات معاشرتی زندگی پر کیوں نہ پڑیں ۔ مسلم معاشرے کی خواتین کے فکر و ذہن ان اخلاق سوز ڈراموں اور سیریلوں کی آڑ میں بے حیائی،بدکرداری اورا غیار نواز ی کی طرف موڑاجانا ہماری تہذیب وثقافت کے ساتھ ایک کھلا بیر ہی نہیں بلکہ اس بات کا غماز ہے کہ یہ مخصوص ٹی وی چنلیں ایک ایجنڈا رکھتی ہیں جس کا لب لباب یہ ہے کہ مسلم معاشرہ گھر کا رہے نہ گھاٹ کا۔ ستم یہ کہ یہ زہر خوری بہت ہی ناز وانداز سے ہورہی ہے ۔
فلموں سے زیادہ ڈرامے خطرناک:
اگر ذرا سا غور وفکر کیا جائے تو فلموں سے زیادہ تباہی ان سیریلز سے ہورہی ہے جو ہمارے پاک معاشرے (پیر وأر ) کو ایسی گندگیوں کی دلدل میں پہنچارہے ہیں کہ جس سے پھر ہم چاہتے ہوئے بھی نہیں نکل سکتے ۔ایک فلم تو دو تین گھنٹے میںختم ہوجاتی ہے لیکن یہ سیریلزمہینوں سلسلہ وار ہونے کی وجہ سے سلسلہ وار ہمارے معاشرے کو مسلسل ڈستے رہتے ہیں کہ آخر پر ہماری متاع دین ودنیا لٹ کر رہ جاتی ہے ۔ اس پس منظر میںاہم نقطہ تو یہ ہے کہ عام طور سے سیریل یا ڈرامہ کو برا نہیںسمجھا جاتا جیسا کہ فلموں کو سمجھاجاتا ہے لیکن جب ایک باحیا اور شریف النفس انسان ایک بار ان سیریلز کو ذرا سا تجزیاتی نگاہ سے دیکھے تو اس پران سوانگوں اور ناٹکوں میں آراستہ و پیوسہ شرمناک مناظر دیکھ اس کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ افسوس یہ کہ ہمارے مسلم معاشرے کی بچیاں اور عورتیں ان سیریلز کے زہر یلی اثرات کے شکار ہوچکی ہیں بلکہ مجھے یہ کہنے سے معاف فرامائیں کہ انہیں ان سیریلوں کی اتنی لت پڑچکی ہے کہ نماز قرآن سے گویا ان کا کوئی رشتہ ہی نہیں ۔ اُدھر اذان ہورہی ہے اِدھر یہ ڈرامے کے کسی بھی منظر کا لطف ’’خراب‘‘ کر نے کے لئے تیار نہیں، حتیٰ کہ بعض گھرانوں میں ان بے ہودہ ڈراموں نے اسلام کی روشنی چھین کر انہیں اندھیریوں میں بھٹک دیا ہے ۔ ہاں،اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بروزن ِ شعر کبھی کبھار ان ڈراموں میں ایک آدھ منظر کے ذریعے کسی غریب ، اَن پڑھ یا بھولے بھالے اور سیدھے سادھے گھریلو نوکر ، باغبان یا رکھشے والے کے کردارکچھ اچھی باتوں اور نیک اقدار کی طرف اشارہ ضرور دیا جاتا ہے لیکن اس تھوڑی اچھائی کو غالب اور پُر فتن کرداروں میں دفن کیا جائے تو ان سے ناظرین کا کیا فائدہ ہوگا؟جہاں ڈرامے میں بے حیائی، برائی اور جرائم کی عکاسی کافی سے بھی زیادہ ہو اور اول تاآخر غلبہ ان بُرے کرداروں کا ہو جو جرموں کی سرحدیںبے انتہا پھلانگ کرموج مستی کر ہے ہوں ، وہاں ایک چھوٹے سے منظر میں کسی اخلاقی حُسن کی منظر کشی کرنا خارہ پانی والے سمندر میں مٹھاس کی چند بوندین ڈالنے کے مترادف ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے معاشرے کے وسیع تر مفاد میں،اس کے عقائد اور افکار کے دفاع میں ،اس کی تہذیب وثقافت کے تحفظ میں ٹی وی سیریلز کے برے اثرات سے خود کو ،ا پنی نوخیز کلیوں کو اور ماں ، بہن ، بیٹی کو بچانے میں کوئی سہل انگاری نہ کریں۔

 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ایس ایس پی ٹریفک سٹی سری نگر کی طرف سے میڈیا سیل کے قیام کا اعلان
برصغیر
نیشنل کانفرنس حکومت نے 8 مہینوں کے دوران زمینی سطح پر کوئی کام نہیں کیا:: اشوک کول
تازہ ترین
اودھم پور بارہمولہ ریلوے لنک سے کشمیر کے تمام لوگوں کو کافی فائدہ ہوگا: سکینہ یتو
تازہ ترین
ریاسی سڑک حادثہ ، گاڑی گہری کھائی میں جاگری ،11افراد زخمی
تازہ ترین

Related

کالممضامین

محسن ِ کشمیرحضرت سید علی ہمدانی ؒ شاہِ ہمدانؒ

June 3, 2025
کالممضامین

سالار عجم شاہِ ہمدان سید علی ہمدانی ؒ ولی اللہ

June 3, 2025
کالممضامین

علم الاخلاق اور سید علی ہمدانی ؒ تجلیات ادراک

June 3, 2025
کالممضامین

فضیلت حج مع توضیح منسلکہ اصطلاحات ایام حج

June 3, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?