چونکہ میں والد صاحب سے زیادہ قریب رہا ہوں اس لئے میرے لئے یہ سوال بہت معنی رکھتا ہے ۔جہاں تک بات ماں کی محبت کا تعلق ہے ، اس بابت تو تب سے لکھا جارہا ہے جب سے حضرت انسان نے لکھنا سیکھا مگر باپ ایک ایسی ذات ہے جس کی بابت شاید باپ نے بھی کبھی کھل کر نہیں لکھا اور بھلا لکھ بھی کیسے سکتا ہے کہ باپ کی محبت کا ہر رنگ نرالا اور مختلف الاطراف ہوتا ہے ۔ ماں کی محبت تو بچے کی پیدائش سے لے کر اس کی اخیرعمر تک ایک سی ہی رہتی ہے یعنی اپنے بچے کی ہر برائی کو پس پردہ ڈال کر اسے چاہتے رہنا ۔بچپن میں بچہ اگر مٹی کھائے تو اس پر پردہ ڈالتی ہے اور باپ سے بچاتی ہے ، نوجوانی میں بچے کی پڑھائی کا نتیجہ آئے تو اس رپورٹ کارڈ کو باپ سے چھپاتی ہے اور اپنے بچے کو بچاتی ہے ،جوانی میں بچے کا دیر سے گھر آنا باپ سے چھپاتی ہے اور اپنے بچے کو بچاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے جیسے بچہ بڑا اور اس کی لغزشیں اور عیوب بڑھ جاتے ہیں ،ویسے ویسے ماں اپنے پردے کا دامن پھیلاتی چلی جاتی ہے ۔ اس کے برعکس باپ ایک ایسی ہستی ہے جو اپنی اولاد کو بے پناہ چاہنے کے باوجود اس پر صرف بناپر ہاتھ اٹھاتا ہے کہیں بچہ خود کو بڑے نقصان میں مبتلا نہ کر بیٹھے ، اس کی پڑھائی پر سختی برتتا ہے کہیں اس کا بچہ کم علم ہونے کے باعث کسی دوسرے کا محتاج نہ بن کر رہ جائے ، بچے کا رات دیر سے گھر آنا اس وجہ سے کھٹکتا ہے کہیں کسی بری لت میں مبتلا ہوکر بچہ اپنی صحت اور مستقبل نہ خراب کر بیٹھے ،یعنی بچے کی پیدائش سے لے کر قبر تک باپ کی زندگی کا محور اس کا بچہ اور اس کا مستقبل ہی رہتا ہے ۔ جہاں ماں کی محبت اس کی آنکھوں سے اور عمل سے ہر وقت عیاں ہوتی ہے، وہیں باپ کی محبت کا خزانہ سات پردوں میں چھپا رہتا ہے ۔غصہ ، پابندیاں ، ڈانٹ ، مار ، سختی یہ سب وہ پردے ہیں جن میں باپ اپنی محبتوں کو چھپا کر رکھتا ہے ، بھلے ہی اس کی اولاد اسے غلط سمجھے لیکن وہ یہ سب پردے قائم رکھتا ہے کہ اس کی اولاد انہی پردوں کی بدولت کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کرتی ہے ۔ میرے ابو جی غصہ کے انتہائی سخت ہیں،ہم بھائیوں پر بہت سختیاں کیں اور شاید نوجوانی میں ہمیں ہمارا باپ دنیا کا سب سے برا اور ظالم باپ لگتا تھا کہ جو نہ ہی دوستوں کے ساتھ رات گئے تک بیٹھنے دیتا ہے اور نہ ہی جیب خرچ اتنا زیادہ دیتا ہے کہ ہم فضول عیاشیاں کرسکیں ، مار باقی بھائیوں نے تو اتنی نہیں کھائی البتہ اپنی عجیب حرکات پر میں نے بہت مار کھائی ہے ۔آج جب اپنے بچپن کے دوستوں کو نش بازی یا دیگر خرافات میں مبتلا دیکھتا ہوں تو الله کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمارے والد صاحب نے ہم پر سختیاں برتیں جس کی بدولت آج تک کسی بھی طرح کے غلط کام سے خود کو بچائے رکھا ہے اور آج اس مقام پر کھڑے ہیں کہ اپنے والدین کا سر فخر سے بلند رکھ سکیںمگر کیا آپ کومعلوم ہے کہ باپ سانسیں لیتے ہوئے بھی مر جاتے ہیں ، جیسے جیسے اولاد کا اختیار بڑھتا اور والد کا اختیار گھٹتا جاتا ہے ،ویسے ویسے ہی باپ ’’مرنا ‘‘ شروع ہوجاتا ہے ۔جب بچہ طاقت ور جوان ہونے لگتا ہے تو باپ کا ہاتھ بعض اوقات اس خوف سے بھی اٹھنے سے رُک جاتا ہے کہ کہیں بیٹے نے بھی پلٹ کر جواب دے دیا تو اس قیامت کو میں کیسے سہوں گا ؟ جب بچے اپنے فیصلے خود لینے لگیں اور فیصلے لینے کے بعد باپ کو آگاہ کر کے حجت پوری کی جانے لگے تو بوڑھا شخص تو زندہ رہتا ہے لیکن اس کے اندر کا باپ مرنا شروع ہوجاتا ہے ۔ باپ اس وقت تک زندہ ہے جب تک اولاد پر اس کاحق قائم ہے ۔ جس اولاد سے اس نے اتنی محبت کی کہ اپنے دل پر پتھر رکھ کر اسے تھپڑ بھی مارا ، اولاد کے آنسو بھلے کلیجہ چیر رہے ہوں پر پھر بھی اس لئے ڈانٹا کہ کہیں نا سمجھ اولاد خود کو بڑی تکلیف میں مبتلا نہ کر بیٹھے ۔ماں کی محبت تو یہ ہے کہ پیاس لگی (پیار آیا) تو پانی پی لیا مگر باپ کی محبت یہ ہے کہ پیاس لگی تو خود کو اور اتنا زیادہ تھکایا کہ پیاس لگتے لگتے اپنی موت آپ مر گئی ۔چونکہ والد صاحب کا ہماری زندگی پر ہمیشہ اختیار رہا ہے ،لہٰذا عمر کے اس حصّے میں بھی کوشش ہوتی ہے کہ ابو کو کبھی احساس نہ ہو کہ اب ہم ’’بڑے‘‘ ہوگئے ہیں یا ان کی اہمیت گھٹ چکی ہے۔ لہٰذا روپیہ پیسہ ہونے کے باوجود اپنے ہر کام کے لئے ابو جی سے پیسے مانگنا اچھا لگتا ہے ، رات اگر کسی پروگرام سے واپسی پر دیر ہوجانے کا خدشہ ہو تو آدھا گھنٹے ابو جی کی پہلے منتیں کرنی پڑتی ہیں کہ پلیز جانیں دیں جلدی واپس آجاؤں گا ، روڈ کراس کرتے ہوئے ابو جی آج بھی ہمارا ہاتھ پکڑ کر رکھتے ہیں اور ہم بھائی دل ہی دل میں ہنستے ہوئے اور آس پاس کھڑے لوگوں کی نظروں کو نظرانداز کرتے ہوئے ابو کا ہاتھ پکڑ کر روڈ کراس کرتے ہیں ۔باپ کی محبت اولاد سے ماسوائے اس کے اور کچھ نہیں مانگتی کہ باپ کا’’ باپ پن‘ ‘زندہ رکھا جائے ،پھر چاہے وہ چارپائی پر پڑا کوئی بہت ہی بیمار اور کمزور انسان ہی کیوں نہ ہو ، اگر اس کے اندر کا باپ زندہ ہے تو یقین جانئے اسے زندگی میں اور کسی شئے کی خواہش اور ضرورت نہیں ہے ۔اگر آپ کے والد صاحب سلامت ہیں تو خدارا اس کے اندر کا باپ زندہ رکھیے یہ اس بوڑھے شخص کا آپ پر حق بھی ہے اور آپ کا فرض بھی ہے !!