امریکی صدرڈونلڈٹرمپ نے کھلے عام سفید فام نسل پرستوں اور نئے نازیوں کی حمایت کرکے امریکہ اور تمام مہذب دنیا میں ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔امریکی میڈیا میں ان کے اس بیان کی سخت مذمت کی جارہی ہے اور امریکی شہری اپنے صدر کے خلاف سڑکوں پر مظاہرے کر رہے ہیں۔ نیویارک میں ان کے بزنس ہیڈ کوارٹر ٹرمپ ٹاورکے باہر بھی ا حتجاج کئے گئے۔آئیے دیکھیں کہ اس پورے تنازعے کی شروعات کہاں سے ہوئی۔ ورجینیا ریاست کے شارلٹس ول نام کے مقام پر شہری حکام نے ایک فوجی جنرل کے مجسمے کو ہٹانے کاحکم صا در کردیا۔ اس کے خلاف وہاں سینکڑوں کی تعداد میں سفید فام نسل پرست اور نیو نازی تنظیم کے اراکین احتجاج کرنے لگے۔یہ مجسمہ سفیدفام قوم پرست جنرل رابرٹ لی کا ہے جو اُنیسویں صدی میں امریکہ میں غلامی کا بہت بڑاحامی تھا اور جس نے سیاہ فام افریقی۔امریکی نژاد غلاموں کے ساتھ نہایت ظالمانہ سلوک کیا تھا۔یہاں پر قارئین کو امریکی تاریخ کے ایک باب کی ایک جھلک دکھانا ضروری ہے۔1860 کے اواخر میں ابراہم لنکن کے صدر منتخب ہونے کے چند ماہ کے اندر جنوبی امریکہ کی سات ریاستوں۔ساؤتھ کیرولینا، میسی سیپی، فلوریڈا، الابامہ، جارجیا، لوئیزیانا اور ٹکساس نے بغاوت اور امریکی یونین سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ ان باغی ریاستوں نے اپنی ایک الگ Confederateحکومت بھی تشکیل کر لی جسے لنکن انتظامیہ نے غیر قانونی قرار دے دیا اور باغی ریاستوں کی سرکوبی کے لئے جنگ شروع کردی۔یہ خانہ جنگی امریکی سول وارکے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کے شروع ہوتے ہی چار اور ریاستیں ارکنساس، ٹینیسی، نارتھ کیرولینا اور ورجینیا بھی باغی ریاستوں کے ساتھ امریکی حکومت کے خلاف میدان میں اتر گئیں۔ جنوبی اور شمالی ریاستوں کے مابین یہ خانہ جنگی چار سال تک چلی اور اس میں6 لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ ہر جنگ کی مانند امریکی سول وار کے بھی متعدد اسباب تھے لیکن اس کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ نو منتخب امریکی صدر لنکن نے ملک میں غلامی پر پابندی عائد کرنے کاتہیہ کر لیا تھا۔ امریکہ کی شمالی ریاستوں میں تیزی سے صنعتیں لگ رہی تھیں جب کہ جنوبی ریاستوں کی اکانومی کا پوری انحصار زراعت پر اور خصوصاً تمباکو اور کاٹن کی کاشت پر تھا اور اس لئے ان ریاستوں کے امیرکاشت کار سیاہ فام لوگوں کو دائمی طور پر غلام بنا کر رکھنے پر مصر تھے۔
گذشتہ دو سالوں میں امریکہ میں سول وار کے دور کے ان Confederate لیڈروں اورفوجی جنرلوں کے مجسموں یا ان سے منسوب دیگر یادگاروں کے ہٹانے اور مٹانے کی تحریک زور پکڑ گئی ہے کیونکہ یہ لوگ رنگ و نسل کی بنیاد پر ہم وطنوں سے نفرت اور امتیازی سلوک کرتے تھے اور سیاہ فام اور دوسری اقلیتی قوم کے لوگوں کو غلام بنا کر رکھتے تھے۔ امریکی حکام کئی امریکی شہروں میں ایسے مجسمے اور یادگاروں کو ہٹانے کا آرڈر جاری کرچکے ہیں۔ ورجینیا کا شارلٹس ول بھی ان میں شامل ہے۔ جہاں بارہ اگست کے دن سفید فام نسل پرستوں کا ایک بہت بڑا ہجوم جنر ل رابرٹ لی کے مجسمہ کے ارد گرد جمع ہوکر سٹی کونسل کے اس کو ہٹانے کے فیصلے کے خلاف پرزور احتجاج کرنے لگا۔ ان میں نیو نازی کے جنونی حمایتی بھی شامل تھے اورKKK نام کی کٹر نسل پرست تنظیم کے اراکین بھی۔ انہوں نے ہٹلر کے حامیوں کی طرح اپنے ہاتھوں میں جلتی مشعلیں اٹھا رکھی تھیں۔بظاہر تو یہ انیسوی صدی میں امریکہ میں انسانوں کو جبراً غلامی پر مجبور کرنے والے اپنے بزرگوں کی یادگاروں کو برقرار رکھنے کے لئے مہم چلارہے تھے لیکن اس کے ساتھ وہ جارحانہ انداز میں نازیوں کی حمایت اور یہودیوں کی مخالفت کا بھی کھلے عام مظاہرہ کر رہے تھے، جو نعرے وہ لگا رہے تھے وہ نفرت اور جنون کے زہر میں بجھے ہوئے تھے۔ ان شدت پسند دائیں بازو کے رجعت پسندوں کے احتجاج کے جواب میں ان سے ذرا سے فاصلے پر صاف اور کشادہ ذہن کے عام امریکی شہری جو بائیں بازو کے نظریات کے حامل تھے ،وہ بھی وہاں نعرے لگانے لگے۔ کشیدگی بڑھنے لگی پھر تکرار ہوئی اور اس کے بعد سفیدفام نسل پرست مظاہرین نے نیک دل اور روادار امریکیوں کو زدو کوب کرنا شروع کردیا۔ اس کے بعد ایک نسل پرست جیمز فیلڈز نے پر امن ترقی پسند احتجاجیوں کے درمیان اپنی کار دوڑادی اور ایک عورت ہیدر ہیرکو کچل کر مار ڈالا۔ فیلڈز کے جنون نے درجنوں بے قصور لوگوں کو زخمی کردیا۔ اس دردناک ٹریجڈی پر سنیچر کے دن امریکی صدر نے پہلے دن گول مول سا بیان دیتے ہوئے کئی حلقوں کو اس کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس پر جب انہیں نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا تو اپنے مشیروں کی صلاح پر پیر کے دن انہوں نے صاف الفاظ میں ورجینیاکے تشددکے لئے صرف نسل پرست انتہا پسندوں کو مورد ِالزام ٹھہرایا۔ ً ہم سخت ترین الفاظ میں نفرت ، تعصب اور تشدد کے اس گھناؤنے مظاہرے کی مذمت کرتے ہیں ،انہوں نے کہا تھالیکن ایک دن بعد ہی ٹرمپ نے پھر قلابازی کھائی اورمیڈیا اور عوام کے سامنے اپنا اصلی رُخ بے نقاب کردیا۔ منگل کی رات میں ٹرمپ ٹاور میں نامہ نگاروں سے خطاب کرتے ہوئے موصوف نے پھر دونوں فریقوں پر تشدد کی ذمہ داری ڈال دی۔اس وقت وہ بے حد جارحانہ موڈ میں تھے۔ کوئی یہ کہنا نہیں پسند کرتا ہے مگر میں ( ڈنکے کی چوٹ پر )یہ بات کہتا ہوں۔ میرے خیال سے دونوں مورد الزام ہیں۔ ایک طرف ایک گروپ تھا جو خراب تھا اور دوسری جانب ایک بے حدپرتشدد گروپ تھا، ٹرمپ نے اعلاناً کہا اورانتہائی غصے سے کہا۔ اس کے بعد تو انہوں نے حد ہی کردی اور نسل پرست انتہاپسندوں کا دفاع کرتے ہوئے یہاں تک کہ دیا کہ ان میں چند نہایت اچھے لوگ ً بھی تھے۔ انہوں نے میڈیا کو بھی ان کے ساتھ نہایت غیر منصفانہ سلوکً کرنے کے لئے لتاڑا۔ یہ واضح کرتے ہوئے کہ ان کی ہمدردیاں سفید فام نسل پرستوں کے ساتھ ہیں، ٹرمپ نے ورجینیاکے شہری حکام کے مجسمہ ہٹانے کے فیصلے کو بھی ایک طرح سے غلط اور احمقانہ قرار دیا۔ اور تو اور انہوں نے Confederate کمانڈر رابرٹ لی کو ایک طرح سے امریکہ کے بانیوں کا ہم پلہ قرار دیتے ہوئے پوچھا: اس ہفتے رابرٹ لی۔ اگلے ہفتے کیا جارج واشنگٹن اور اس کے بعد تھامس جیفرسن کی باری ہے؟ ً
ایک طرف جب میڈیا اور عوام کا ایک بڑا طبقہ ٹرمپ کے موقف کی تنقید کررہا تھا تو ان کے سفید نسل پرستوں کی کھلی حمایت سے شہ پا کرKKK اور نیو نازی لیڈر ان کا شکریہ ادا کررہے تھے۔ ً شکریہ مسٹر پریزیڈنٹ شارلٹس ول کی سچائی بیان کرنے کے لئے آپ کی دیانت داری اور ہمت کے لئے اور بایاں بازو کے دہشت گردوں کی مذمت کرنے کے لئے KKK کے ایک اہم لیڈر ڈیوڈ ڈیوک نے منگل کو ٹرمپ کے پریس کانفرنس کے فوراً بعد ٹو ئٹ کیا۔ ٹرمپ کے اس موقف نے امریکہ کے طول و عرض میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑادی ہے لیکن جو ان کے ریکارڈ سے واقف ہیں انہیں اس پر زیادہ حیرانی نہیں ہوئی ہے۔ٹرمپ کی انتخابی مہم میں نسل پرستوں ، نیو نازی انتہاپسندوں اور جلد کی رنگت اور مذہب کی بنیاد پر دوسرے انسانوں سے نفرت کرنے والے جنونیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ ہم ٹرمپ کے وعدوں کو پورا کرکے دم لیں گے۔ہم نے اسی لئے ان کو ووٹ دیا تھا کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ ہمارے ملک کوواپس حاصل کریں گے ۔ ڈیوک کے اس بیان سے یہ نکتہ اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔فروری 2016 ء میں CNN کو دئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے KKK نام کی تنظیم کی مذمت کرنے سے صاف انکار کردیا تھا اور ڈیوڈ ڈیوک کے ذریعہ اپنی صدارتی امیدواری کی حمایت کو بھی قبول کیا تھا۔ سفید نسل پرستوں سے ان کا دیرینہ تعلق ہے۔ٹرمپ کے پرانے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کے جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے ان پر اور ان کے والد پر نسلی تعصب کا مقدمہ درج کیا تھا کیونکہ انہوں نے اپنی عمارتوں میں سیاہ فام امریکیوں کو فلیٹ کرائے پر دینے سے انکار کیا تھا۔ٹرمپ کے اٹارنی جنرل جیف سیشنس پر نسل پرستی کے کئی الزامات ہیں۔ ان کے چیف پولیٹکل اسٹراٹیجسٹ اسٹیو بینن اس سے پہلے ایک رجعت پسند دائیں بازوکے نیوز ویب سائٹ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ٹرمپ کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیبسٹین گورکا تعلق ہنگری کے ایسی تنظیم کے ساتھ ہے جس پر نازیوں کے ساتھ ساز باز کا الزام ہے۔ ٹرمپ بھلا مذہبی یا نسلی منافرت کی مذمت کیسے کرسکتے ہیں ؟ بہت سے سیاسی پنڈتوں کا یہ خیال ہے کہ ان کی فتح میں ایسے مڈل کلاس ووٹروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے جو افریقی۔امریکیوں اور میکسکو اور مسلم ممالک کے تارکین ِوطن کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی تقریروں میں نہایت چالاکی سے اپنے مداحوں کو یہ باور کروایا کہ ان کی بے روزگاری اور اقتصادی بد حالی کے ذمہ دار یہ غیر ملکی لوگ ہیں۔ انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ اگر عوام انہیں صدر منتخب کریں گے تو وہ اپنی پوری توجہ ان کے حالات سنوارنے میں صرف کریں گے۔ انہوں نے امریکہ کے سفید فام باشندوں کے دلوں میں میکسکو کے تارکین وطن کے خلاف یہ کہہ کرجذبات مشتعل کئے کہ یہ بقول ان کے ’’زانی اور مجرم ‘‘ ہوتے ہیں۔ مسلمانوں اور اسلام کو بھی انہوں نے لگاتار نشانہ بنایا تھا۔ نصف درجن مسلم ممالک کے باشندوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگانے کا اعلان کرکے بھی انہوں نے سفید فام قوم پرستوں کو اپنی حمایت میں ووٹ دینے کے لئے برین واش کیا تھا۔خوش آئند بات یہ ہے کہ امریکی صدر کے موقف اور سفید نسل پرستوں کے دفاع سے امریکہ کے عوام اور خواص ان سے بے ناراض ہیں۔گزشتہ بدھ کی رات میں ہزاروں کی تعداد میں امریکی مردوں اور عورتوں نے ورجینیا میں اس دلیر عورت ہیدر ہیر کو خراج عقیدت پیش کیا جسے نسلی نفرت نے موت کی نیند سلادیا تھا۔ اس منحوس رات میں ظالموں نے نازیوں کی طرح جلتی مشعلیں اٹھا رکھی تھیں ، ان سوگواروں کے ہاتھوں میں موم بتیاں تھیں۔ اس رات نسل پرست نفرت کا زہر اگل رہے تھے گزشتہ بدھ کی رات میں صرف ایک تین لفظی نعرہ سب کی زبان پر تھا ً Hope Not Hatred ً۔ ورجینیا کی طرح امریکہ کے متعدد شہروں میں اس طرح کی امن ریلیاں نکالی گئیں۔
خود ٹرمپ کی حکمراں ریپبلیکن پارٹی کے اہم لیڈروں نے ان کے بیان کی مذمت کی۔ انہوں نے صاف صاف کہ دیا کہ ظالم اور مظلوم کو اور حق اور باطل کو کبھی بھی ایک پلڑے میں نہیں تولا جاسکتا ہے۔ ایک سینیٹر باب کارکر نے تو یہاں تک کہ دیا کہ ٹرمپ نے ابھی تک اس اہلیت اور استقامت کا ثبوت نہیں دیا ہے جو صدارت کے عہدہ کے لازمی ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ اس وقت ٹرمپ نسل پرستوں اور نازیوں کی حمایت کی وجہ سے الگ تھلگ پڑ گئے ہیں۔ ٹرمپ خود ایک ارب پتی بزنس مین ہیں، اس لئے فطری طور پر وہ صنعت کاروں اور تجارت پیشہ طبقے میں کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں لیکن اس پورے واقعے سے ان کے حما یتی صنعت کار بھی ان سے بے حد خفا ہیں۔تین دنوں کے اندر ٹرمپ انتظامیہ کی کئی بزنس اڈوائزری کونسلز سے ملک کے آٹھ اہم صنعتی اداروں کے سربراہوں نے ان کے نازیوں اور نسل پرستوں کی مذمت نہ کرنے کی وجہ سے احتجاجاً استعفیٰ دے دئے۔
طیش میں آکر ٹرمپ نے ان کونسلز کو ہی تحلیل کردیا۔ شاذ و نادر ہی ایسا ہوا ہوگا کہ امریکی فوج کے پانچ جوائنٹ چیف آف اسٹاف نے ایک سیاسی معاملے میں پبلک بیان جاری کرکے سفید نسل پرستی کی مذمت کی ہو لیکن اس بار ایسا ہوا۔ ظاہر ہے یہ امریکی صدر کے لئے بہت بڑا تازیانہ تھا۔ دو سابق ریپبلیکن صدور جارج ڈبلیو ایچ بش اور ان کے بیٹے جارج بش نے نسلی تعصب کی مذمت کے لئے مشترکہ بیان جاری کیا۔ قصہ مختصر یہ کہ وائٹ ہاؤس میں اپنے قیام کے محض سات ماہ کے اندی ٹرمپ کو ایک بڑے سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور ان کی مقبولیت کا گراف کا فی گر گیا ہے۔ ایک تازہ سروے کے مطابق صر ف 35 فی صد امریکیوں نے ان کی کارکردگی کی تعریف کی ہے۔
پس نوشت: اب امریکہ سے ذرا اپنے ملک کی صورت حال کا موازنہ کر کے دیکھیں۔ ورجینیا میں ایک نسل پرست کے ہاتھوں صر ف ایک خاتون کی موت پر پورے امریکہ میں طوفان برپا ہوگیا۔ عام آدمی سے لے کر ارب پتی صنعت کاروں نے بلکہ خود ان کی پارٹی کے لیڈروں نے ظالموں کی مذمت نہیں کرنے پر ٹرمپ کی کھل کر مذمت کر ڈالی۔ میڈیا نے امریکی صدر کی ایسی خبر لی کہ وہ اسے پانی پی پی کر کوستے ہیں۔ بھارت میں گذشتہ دو سالوں میں گؤ رکھشکوں کے ہاتھوں درجن بھر سے زیادہ بے گناہ لوگ مارے گئے ہیں۔ ان ہلاکتوں پر وزیر اعظم پہلے تو ایک عرصے تک خاموش رہے، اس کے بعد نہایت بے دلی اور نیم دلی سے ایک آدھ بیان دے دیا۔ بیان بھی ایسا جس میں بے گناہ انسانوں کے خون ناحق کی مذمت کم اور ایک جانور کے تقدس اورحفاظت پر زیادہ زور دیا گیا۔ کیا کسی فوجی افسر یا بی جے پی کے کسی لیڈر کی اتنی جرأت ہے کہ وہ نریندر مودی حکومت سے یہ مطالبہ کرے کہ آئین کی پاسداری کرتے ہوئے مسلمانوں اور دلتوں کو بھی تحفظ فراہم کرے؟ کیا کسی اڈانی یا امبانی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ احتجاج کرتے ہوئے سرکا ر کی کسی مشاورتی کونسل سے مستعفی ہو جائیں؟ کیا ہمارے بڑے ٹی وی چینلز اور اخبارات امریکی میڈیا کی طرح حکومت کاگریبان پکڑ کر یہ پوچھنے کی ہمت دکھا سکتے ہیں کہ اسے کیا اختیار ہے کہ وہ ملک کے چند شہریوں سے حب الوطنی کاثبوت مانگے؟۔