سرینگر// وادی میںروسی سفیدوں سے نکلنے والے روئی کے گالے(Pollen ( بچوں اور مرد و زن کیلئے انتہائی تکلیف کا باعث بن رہے ہیں۔لیکن عدالتی حکم کے باوجود بھی ریاستی انتظامیہ شہر ودیہات میں روسی سفیدوں کی کٹائی کیلئے کوئی بھی اقدمات نہیں کر رہی ہے۔روئی کے گالوں نے وادی کے لوگوںکا ناک میں دم کر دیا ہے ۔روئی کے یہ گالے ہوا میں بکھر کر ریشوں کی صورت میں راہگیروں کے نظام تنفس اور آنکھوں میںگھس جاتے ہیں،جس سے لوگوں کو زکام،سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن کا احساس ہوتا ہے۔جے وی سی ہسپتال کے ای این ٹی ڈاکٹر نذیر احمد خان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ پچھلے کچھ دنوں سے روزانہ ناک کی الرجی ، آنکھوں میں جلن اور چھاتی کے درد کی شکایات لے کرمریض ہسپتال پہنچ رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر اس پر روک نہ لگائی گئی تو قریب 40فیصد مریض دمے کی بیماری کے شکار ہو سکتے ہیں ۔ڈاکٹر نذیر نے بتایا کہ ناک کی الرجی اور دیگر بیماریوں کی اہم وجہ روسی سفیدوں سے نکلنے والی روئی کے گالے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ جنہیں پہلے سے ہی ناک میں تکلیف ہوتی ہے انہیں اس روئی سے سوئنو سائڈس کی تکلیف ہو سکتی ہے جو انتہائی خطرناک ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس سے ہمیشہ سر درد اور ناک بند رہتے ہیں ۔مصیبت یہ ہے کہ روئی راہ چلتے لوگوں کے پیچھے پڑتی ہے، دکانوں، دفتروں اور مکانوں میں کھڑکیوں اور دروازوں سے اندر داخل ہوجاتی ہے اور کپڑوں سے چمٹ جاتی ہے ،اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے باریک ریشے ناک اور منہ میں چلے جاتے ہیں۔ معلوم رہے کہ ریاستی ہائی کورٹ کی جانب سے روسی سفیدوں کو کاٹنے کے احکامات صادر ہونے کے بعد سرینگر انتظامیہ نے ایک آڈر زیر نمبرDSC/ARA/337/2016جاری کیا تھا جس کے تحت لوگوں سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ اپنی اپنی زمینوں سے سفیدوں کو کاٹ ڈالیں اور اگر کوئی اس حکم نامے پر عمل نہیں کرے گا تو اُس کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائیگی لیکن جس طرح شہر بھر میں روسی سفیدے سکولوں ،ہسپتالوں اور تجارتی مراکز کے آس پاس ہیں، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس پر کتنا عمل ہوا ہے ۔اسی طرح وادی کے گاندربل ، بانڈی پورہ ، اننت ناگ ، پلوامہ ، کولگام ، شوپیاں ، بڈگام ، کپوارہ اور بارہمولہ کے علاقوں میں بھی سفیدوں کی بھرمار ہے اور اُن سے نکلنے والی روئی نے لوگو ں کا جینا دوبھر کر دیا ہے ۔ضلع ترقیاتی کمشنر سرینگر ڈاکٹر فارو ق احمد لون نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ہم نے پچھلے سال احکامات صادر کئے تھے اور اسکے بعد بڑے پیمانے پر سفیدے کاٹے بھی گئے لیکن بعد میں نامساعد حالات کی وجہ سے ان کی کٹائی نہ ہو سکی ۔انہوں نے کہا کہ تمام تحصیلدداروں اور دیگر افسران کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے حدود میں اُن کو کاٹنے کیلئے اقدمات اٹھائیں ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ کشمیری سفیدے سے روئی کے گالے اس قدرنہیں برستے تھے اور نہ ہی انفکشن ہونے کی گنجائش رہتی تھی۔ لیکن 70 کی دہائی میں وادی میں روسی اور آسٹریلین سفیدے کومتعارف کرانے کے بعد یہاں موجودہ صورتحال وقوع پذیر ہوئی۔تبصرہ کر تے ہوئے کشمیر ایگریکلچریونیورسٹی حکام کا کہنا ہے ’’دراصل یہ روئی کے گالے زیادہ ترسفیدوں کے درختوں سے اْسوقت گرنا شروع ہو جاتے ہیں جب ان درختوں میں افزائش نسل کا عمل شروع ہوتا ہے‘‘۔انہوں نے کشمیر عظمیٰ کو مزید بتایا ’’ افزائش نسل کا یہ عمل ان سفیدوں کے درختوں میں موسم بہار کی ابتدامیں ماہ اپریل اور موسم ِخزا ںکے درمیانی مہینے میں ہو تاہے جسکے نتیجے میںان درختوں سے یہ روئی کے گالے برستے ہیں‘‘۔رابطہ کر نے پر معروف طبی صلاح کار اور کالم نویس ڈاکٹر نذیر مشتاق نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا’’ اس موسم میں سفید ے کے درختوں سے جو ’’روئی کے گالے ‘‘برستے رہتے ہیں ،و ہ بعض افراد میں شدید حساسیت پیدا کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر نذیر مشتاق کہتے ہیں ’’ سفیدہ سے برستے رہتے یہ روئی کے گالے بعض اوقات سانس کے ذریعے پھیپھڑوںمیں داخل ہوسکتے ہیں ،جس سے گلے اور پھیپھڑوںمیں انفکشن ہوسکتا ہے‘‘۔ان کے مطابق ابھی تک کسی بھی قسم کی حساسیت کا کوئی مکمل علاج نہیں ہے۔ ضد حساسیت دوائیوں سے صرف ناراحتی اور علائم میں نمایاں کمی محسوس کی جاسکتی ہے۔